کبھی کبھی بظاہر ایک چھوٹی سی خبر بھی آپ کو پریشان کر دیتی ہے اور پھر آپ گھنٹوں اس بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ آج کل مون سون کا سیزن ہے۔ ہر طرف موسلا دھار بارشیں ہو رہی ہیں جن سے کئی شہروں میں نشیبی علاقوں میں پانی بھر جاتا ہے اور شہریوں کے جان و مال کو خطرات لاحق ہو جاتے ہیں جبکہ دوسری طرف گزشتہ دنوں بھارت کی طرف سے چھوڑے گئے پانی کے نتیجے میں بھی ہمارے علاقے سیلابی ریلوں کی زد میں ہیں۔ ابھی ایک خبر نظر سے گزری کہ قصور کے نواحی گائوں صاحبنی والا میں بارش کے پانی میں ساتویں کلاس کا طالب علم ڈوب کر جاں بحق ہوگیا۔ 13سالہ حسنین گھر سے بارش میں نہانے کے لیے نکلا تو تالاب نما گڑھے میں گر کر ڈوب گیا‘ بھٹہ خشت کے مالک نے مٹی کی کھدائی کرکے گڑھے کھود رکھے تھے جس میں بارش کا پانی جمع ہوا گیا تھا۔ چند روز قبل وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے علاقے گولڑہ موڑ میں بارش سے دیوار گرنے کی وجہ سے کیمپ میں سوئے ہوئے 11مزدور ملبے تلے دب کر جاں بحق ہو گئے جبکہ 5زخمی ہوئے تھے۔ اسی طرح اسلام آباد اور اس کے جڑواں شہر راولپنڈی میں صرف 5گھنٹے کی بارش نے ضلعی انتظامیہ‘ میونسل کارپوریشن‘ کنٹونمنٹ بورڈ‘ واسا اور آر ڈبلیو ایم سی سمیت مختلف سرکاری محکموں کے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود نالوں کی صفائی اور دیگر اقدامات کی قلعی کھول دی۔ شہر میں متعدد نشیبی رہائشی و کمرشل علاقوں میں بارش اور نالوں کا پانی گھروں اور دکانوں میں داخل ہو گیا۔ نالہ لئی میں پانی کی سطح 19فٹ تک بلند ہوئی جس کے بعد ملحقہ آبادیاں خالی کرانا پڑیں۔ نکاسی و سیوریج کا نظام جام ہو جانے کے باعث نشیبی علاقوں کے مکینوں نے خوف کے عالم میں رات جاگ کر گزاری۔ برساتی نالوں کی طغیانی اور مون سون کے ریلے راجہ بازار کے علاوہ مختلف رہائشی علاقوں میں داخل ہو گئے۔ موتی بازار‘ راجہ بازار‘ صرافہ بازار‘ بوہڑ بازار اور ملحقہ علاقوں میں 2سے 4فٹ پانی مارکیٹوں اور دکانوں میں جبکہ راجہ بازار‘ لال حویلی روڈ‘ بوہڑ بازار‘ مری روڈ‘ کوہاٹی بازار‘ امر پورہ‘ نشاط سینما اور پرنٹنگ پریس مارکیٹ کے علاوہ شہر کے گنجان علاقوں صادق آباد‘ ہزارہ کالونی‘ اعوان کالونی‘ مہر کالونی‘ ڈھوک رتہ‘ مسلم کالونی‘ جاوید کالونی‘ ڈھوک الٰہی بخش‘ مکھا سنگھ سٹیٹ‘ گلاس فیکٹری‘ امر پورہ‘ نیو پھگواڑی‘ جان کالونی‘ اسلم مارکیٹ‘ ڈھوک سیداں‘ گرجا روڈ سمیت متعدد علاقوں میں پانی گھروں میں داخل ہو گیا جبکہ بارش کے باعث کوڑا کرکٹ ہر طرف پھیل گیا جبکہ شہری اپنی مدد آپ کے تحت گھروں اور دکانوں سے پانی نکالتے رہے۔ مون سون بارشوں کا پانی راولپنڈی شہر میں داخل ہونے کی بڑی وجہ نالوں پر قبضہ مافیا کے راج‘ تجاوزات کی بھرمار اور بھاری فنڈز کے اجرا کے باوجود نالوں کی بروقت اور مکمل صفائی نہ ہونا ہے۔ مقامی سیاسی شخصیات کی پشت پناہی اور متعلقہ محکموں کے عملے کی ملی بھگت سے قبضہ مافیا شہر بھر کے نالوں اور سرکاری جگہوں پر قابض ہے۔ ہر سال مون سون میں ندی نالوں میں طغیانی اور سیلاب سے تباہی کی بنیادی وجہ نالوں پر غیرقانونی تعمیرات و تجاوزات ہیں جس سے نالوں کی چوڑائی 50فٹ سے کم ہو کر 25فٹ رہ گئی ہے۔ اس طرح برساتی پانی کو راستہ نہ ملنے پر شہر بھر میں سیلابی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ نالہ لئی میں گرنے والے نالوں پر بھی لینڈ مافیا کا قبضہ ہے۔ متعلقہ اداروں کے افسران و عملے کی ملی بھگت سے نالوں پر غیرقانونی تعمیرات‘ پیر ودھائی کالونی‘ بنگش کالونی‘ نیو کٹاریاں کے علاقے سے گزرنے والے نالوں پر آبادیاں قائم ہو چکی ہیں۔ مسلم کالونی‘ جاوید کالونی‘ ندیم کالونی‘ ڈھوک الٰہی بخش‘ مکھا سنگھ سٹیٹ‘ گلاس فیکٹری سے گزرنے والے نالے غائب ہو چکے ہیں۔ صادق آباد‘ راول روڈ‘ لال حویلی‘ بوہڑ بازار‘ نیا محلہ‘ عثمان پورہ میں بھی نالے پر لینڈ و تجاوزات مافیا کا راج ہے۔ امر پورہ‘ کرتار پورہ‘ نیو پھگواڑی‘ بھوسہ گوام‘ رتہ امرال‘ گنجمنڈی اور ورکشاپی محلہ کے نالے بھی سکڑکر رہ گئے ہیں۔ محکمہ موسمیات کے مطابق گزشتہ روز سب سے زیادہ بارش کشمیر میں چھتر کلاس کے مقام پر 55ملی میٹر ہوئی۔ راولپنڈی میں چند روز قبل 200ملی میٹر بارش ریکارڈکی گئی۔ ساہیوال میں 49 ملی میٹر‘ لاہور میں گلشن راوی میں 183اور لکشمی چوک میں 169 ملی میٹر بارش ہوئی۔ اسلام آباد میں زیرو پوائنٹ کے مقام پر 27ملی میٹر‘ نارتھ کراچی میں 42ملی میٹر اور سرجانی میں 31ملی میٹر جبکہ بالاکوٹ اور قلات میں 30ملی میٹر بارش ریکارڈ ہوئی۔ لاہور میں گزشتہ ہفتے بارش نے تباہی مچائی اور کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ ویسے بھی جب بارش ہوتی ہے تو لاہور کی سڑکیں تالاب کا منظر پیش کرنے لگتی ہیں۔
مذکورہ تمام حالات و واقعات شاید خبروں میں بھی رپورٹ ہو چکے ہوں گے اور انتظامیہ کے علم میں بھی یقینا ہوں گے لیکن یہاں ذکر کرنے کا مقصد انتظامیہ اور متعلقہ اداروں کو ایک بار پھر جھنجھوڑنا ہے؛ بقول شاعر ''شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات‘‘۔ ہرسال مون سون کا سیزن مقررہ وقت پر آتا ہے‘ آج مختلف شہروں میں ہمیں جن حالات کا سامنا ہے‘ تقریباً ایسے ہی حالات گزشتہ سال بھی تھے جبکہ اس سے پہلے بھی سالہا سال سے ہم یہی مسائل و مشکلات اور نقصانات دیکھتے چلے آرہے ہیں۔ کسی علاقے میں کچی دیوار گرنا تو الگ بات ہے لیکن شہروں میں گزرنے والے نالے تو پہلی بار نہیں بنے۔ متعدد گنجان شہری آبادیوں میں نالوں پر چھت ڈال کر قبضہ مافیا نے غیرقانونی مکانات تعمیر کر لیے ہیں۔ ہر سال موسم برسات میں ان نالوں میں صفائی نہ ہونے کی وجہ سے پانی مقامی آبادیوں میں داخل ہو جاتا ہے اور قیمتی جانی و مالی نقصان کرتا ہے۔ ہرسال انتظامیہ کے اعلیٰ افسران کسی بھی ناخوشگوار واقعہ کے بعد موقع پر پہنچتے ہیں‘ افسوس کا اظہار کرتے ہیں‘ ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا عندیہ دیتے ہیں اور ان نالوں کی صفائی اور تجاوزات کے خاتمے کی یقین دہانی کرائی جاتی ہے‘ پھر سال گزر جاتا ہے لیکن ان احکامات اور اعلانات پر عمل نہیں ہو پاتا حتیٰ کہ سال بعد دوبارہ برسات کے دوران جب سیلابی پانی نقصان کرتا ہے یا قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوتی ہیں تو پھر انتظامی افسران حسبِ روایت موقع پر پہنچ کر وہی ماضی والی 'فلم‘ چلاتے ہیں‘ البتہ ہرسال اس فلم کے کردار یعنی افسر نئے ہوتے ہیں کیونکہ گزشتہ برس اظہارِ افسوس اور فوٹو سیشن کے لیے آنے والے افسران اس بار کسی دوسرے ضلع کے کسی دوسرے ندی نالے پر خطاب کر رہے ہوتے ہیں۔
دنیا میں ہر مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل ضرور ہوتا ہے۔ موسم برسات میں اربن فلڈنگ سے بچنے کے لیے بھی اقدامات ہو سکتے ہیں۔ لاہور میں جو علاقے بارشوں کے دوران زیر آب آجاتے ہیں‘ وہاں نکاسی ٔ آب اور سیوریج کا نظام بہتر بنایا جا سکتاہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ مون سون سیزن شروع ہونے سے پہلے ہی ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔ اسی طرح راولپنڈی کو سیلابی صورتحال سے مستقل نجات دلانے کے لیے نالہ لئی کی مکمل بھل صفائی‘ کناروں سے تجاوزات کا خاتمہ اور لئی ایکسپریس وے کی تعمیر ضروری ہے۔ لئی ایکسپریس وے واحد منصوبہ ہے جو نہ صرف ملک کے تیسرے بڑے شہر کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے محفوظ بنا سکتا ہے بلکہ اس کی تعمیر سے جڑواں شہروں کا ٹریفک کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔ دو روز قبل نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے راولپنڈی کا دورہ کرکے نالہ لئی کا جائزہ لیا اور لئی ایکسپریس وے پراجیکٹ جلد شروع کرنے کا عندیہ دیا۔ نگران حکومت کو چاہیے کہ جڑواں شہروں کیلئے اس اہم منصوبے پر جلد ازجلد کام شروع کروائے‘ کہیں ایسا نہ ہو کہ موسم برسات ختم ہونے اور دوبارہ دھوپ نکلنے کے بعد وہ بھی ماضی کی حکومتوں کی طرح اپنا وعدہ بھول جائے اور خدانخواستہ اگلے سال پھر کسی نئے حاکم یا اعلیٰ افسر کو لئی کے پل پر کھڑا ہوکر میڈیا کے سامنے وہی پرانی باتیں دوہرانا پڑیں۔