تعلیمی خواب اور نت نئی پریشانیاں

گزشتہ دہائی تک اعلیٰ تعلیمی اداروں میں طلبہ تنظیموں اور مختلف گروپوں کے درمیان سیاسی اختلافات اور ایک دوسرے پر برتری ظاہر کرنے کے لیے لڑائی جھگڑے کے واقعات تو رونما ہوتے رہتے تھے؛ تاہم ان کی نوعیت اتنی سنگین نہیں تھی جو معاشرے کے لیے پریشانی کا سبب بنتی‘ لیکن گزشتہ چند برسوں کے دوران تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال کی خبریں منظرِعام پر آنے کے بعد والدین کے لیے ایک نئی پریشانی پیدا ہوئی ہے۔ کئی شریف گھرانوں کے چشم وچراغ (طلبہ وطالبات) منشیات کے عادی بن گئے‘ جنہیں والدین نے سنہرے خواب دیکھ کر اعلیٰ تعلیم کے لیے کسی بڑے ادارے میں داخل کرایا تھا وہ ذہنی و نفسیاتی مریض یا مجرم بن کر باہر نکلے۔ بعض ماہرینِ تعلیم کا کہنا ہے کہ جب سے نو عمر بچے اور بچیاں جامعات میں داخل ہوئے ہیں‘ سوشل میڈیا اور موبائل پر آپس کے رابطے آسان ہوئے ہیں‘ آئے روز سکینڈلز منظر عام پر آرہے ہیں۔ بہاولپورکی ایک معروف یونیورسٹی کے سیکنڈل نے تو ملک بھر کے والدین کو کئی قسم کی پریشانیوں میں مبتلا کردیا اور منشیات‘ جنسی ہراسگی کے اخلاق سوز واقعات اب والدین کے لیے وبالِ جان بنے ہوئے ہیں۔ بلیک میلنگ پر ایسے کریہہ جرائم میں ملوث بیٹیاں کیسے خاندان کا سامنا کریں گی؟ شاید سمسٹر سسٹم میں بھاری اختیارات نے اساتذہ کو بھی منہ زور بنا دیا ہے۔ طلبہ و طالبات خوف کے باعث کسی ناانصافی پر لب کشائی نہیں کرتے بلکہ بلیک میل ہوتے رہتے ہیں۔ اکثر طالبات مافیاز کا بھی شکار بنتی ہیں۔ گریجویشن کی سطح پر بھلا کوئی طالبہ شکایت کا رسک لے سکتی ہے؟ سمسٹر سسٹم پر کئی ماہرینِ تعلیم کے تحفظات پائے جاتے ہیں۔ بہاولپور یونیورسٹی کے بدنامِ زمانہ سکینڈل کے پیچھے یہی بے بسی کارفرما نظر آتی ہے۔ مخصوص مافیاز متحرک ہیں جن کی اپروچ ہر شعبے میں ہے۔ اساتذہ کرام کے حلقے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ جب رئیسِ ادارہ رخصت ہوں گے تو یہ مادرِ علمی یقینا نیب کی آماجگاہ ہو گی۔ اطلاعات کے مطابق جو مافیا بڑی واردات میں پکڑا گیا ہے‘ وی سی صاحب اس کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے۔ قریبی حلقے بتاتے ہیں کہ جامعہ کے معاملات پر ان کی گرفت کمزور ہوتی رہی اس لیے منشیات کا دھندہ کرنے والے بھی اس ادارے کے طالب علم قرار پائے جن سے مبینہ طور پر آئس اور نازیبا وِڈیوز برآمد ہوئی ہیں۔ غلطیوں کی پردہ پوشی وہ مختلف قیمتی تحائف دے کر کرتے رہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ جو احباب ان کی اذیت کا موجب بنے‘ انہیں بے روزگار سمجھ کر اور میرٹ سے ہٹ کر نوکریاں دیں‘ انہی پیاروں نے آج عزت کا جنازہ نکال دیا۔
ایک عام رائے یہ بھی ہے کہ جامعات کے اساتذہ میں لسانی‘ طبقاتی‘ نظریاتی اور مسلکی بنیادوں پر گروہ بندی پائی جاتی ہے۔ طلبہ و طالبات ان کی تنگ نظری اور گروہی سیاست کی زد میں رہتے ہیں۔ تعلیمی پالیسی میں طے ہوا تھا کہ گریجویشن تک طلبہ و طالبات کی تعلیم و تدریس الگ الگ تعلیمی اداروں میں ہوگی۔ اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کے لیے جامعات کا رخ کریں گے‘ اس لیے بی ایس پروگرامات کا آغاز کالجز میں کیا گیا۔ بہاولپور یونیورسٹی کے سانحے کے بعد عوامی سطح پر یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ مخلوط تعلیم کے سلسلے کو محدود کیا جائے۔ دونوں اصناف کی تدریس کے لیے الگ الگ ادارے قائم کیے جائیں۔ راولپنڈی میں طالبات کے لیے الگ جامعات کا قیام انتہائی کامیاب رہا اور آج اس شہر کی وہ بچیاں بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کر چکی یا کر رہی ہیں جن کے خاندان مخلوط تعلیمی نظام کے باعث شاید کسی دوسری یونیورسٹی میں اپنی بچیوں کو کبھی داخل نہ کراتے۔ سابق وفاقی وزیر شیخ رشید احمد کی کوششوں سے جب راولپنڈی میں خواتین کی پہلی الگ جامعہ قائم ہوئی تھی تو ایک عام خیال تھا کہ شاید یہ تجربہ زیادہ کامیاب نہ ہو لیکن بعد ازاں یہ تجربہ اس قدر کامیاب ہوا کہ آج صرف راولپنڈی شہر میں خواتین کی تیسری یونیورسٹی قائم ہو چکی ہے اور الحمدللہ ہزاروں طالبات کامیابی کے ساتھ اعلیٰ تعلیم حاصل کررہی ہیں۔
دورِ حاضر کے بڑے بڑے مسائل میں سے ایک منشیات کی لعنت ہے۔ دنیا کا شاید ہی کوئی خطہ اس سے محفوظ ہو۔ نوجوان نسل میں منشیات کا فروغ ہر شعبہ ہائے زندگی کے لیے تشویشناک ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں کروڑوں افراد اس لعنت میں گرفتار ہیں۔ لمحۂ فکریہ یہ ہے کہ ہر سال اس تعداد میں ہوشربا اضافہ ہو رہا ہے۔ مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کی بھی خاصی تعداد اس لت کا شکار ہو رہی ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں 50 لاکھ سے زیادہ افراد منشیات کی وجہ سے لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔ تعلیمی ادارے بھی اس سے محفوظ نہیں ہیں بلکہ وہاں اس کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ نشے کی لت دولت مند گھرانوں کی لڑکیوں اور لڑکوں میں زیادہ ہے کیونکہ پیسہ ان کے لیے کوئی پرابلم نہیں ہوتا اور نشہ بیچنے والے ایسے ہی امیر گھرانوں کے بچوں کو پھانستے ہیں کیونکہ وہ آسان ہدف ہوتے ہیں اور اس منافع بخش کاروبار کو ایسے ہی امیر زادوں سے بڑھاوا دیا جاتا ہے۔ ایک بار حکومت نے فیصلہ کیا تھا کہ سکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبہ و طالبات کا خون ٹیسٹ کیا جائے گا‘جن لوگوں کے خون میں نشہ پایا گیا‘ ان کا علاج ہو گا۔ اسی طرح یہ بھی طے کیا گیا تھا کہ تعلیمی اداروں کے آس پاس منشیات فروشوں پہ نظر رکھی جائے گی لیکن یہ وعدہ بھی محض وعدہ ہی رہا۔
نشے کی متعدد اقسام میں سے نوجوانوں میں آئس نامی قاتل نشے کا بڑھتا ہوا رجحان حد درجہ تشویشناک ہے۔ آئس سمیت کئی نئے نئے نشے اب پوش علاقوں کے نوجوانوں کی تفریح کا حصہ بن چکے ہیں۔ پارٹی ڈرگز کہلانے والی منشیات نجی پارٹیوں سے نکل کر اب تعلیمی اداروں میں پہنچ چکی ہیں۔ اس سے قبل ہیروئن‘ چرس اور دیگر نشے عام تھے۔ آئس ان میں ایک نیا اضافہ ہے جو گزشتہ چند سالوں سے معاشرے میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ تعلیمی اداروں اور ان کے ہاسٹلز میں مقیم نوجوان لڑکے اور لڑکیاںمسلسل اس لعنت کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس کو عوامی مقامات پر بھی استعمال کیا جاتا ہے اور بدبو نہ ہونے کی وجہ سے یہ دوسرے نشہ جات کی طرح معیوب بھی محسوس نہیں ہوتا۔ اس نشے میں 24سے 48گھنٹوں تک جگانے کی خاصیت موجود ہونے کی وجہ سے پہلے پہل طلبہ اس کی طرف اس لیے راغب ہوتے ہیں تاکہ وہ یکسوئی کے ساتھ امتحان کی تیاری کر سکیں مگر وہ اس بات سے لا علم ہوتے ہیں کہ اس طرح وہ ایک عذاب میں مبتلا ہونے جا رہے ہیں۔ بعد میں یہ نشہ ان کے دماغ اور وجود کو کمزور کرکے انہیں جسمانی اور نفسیاتی بیماریوں کا شکار کر دیتا ہے اور وہ معاشرے کے ناکارہ فرد بن کر رہ جاتے ہیں۔ بعض افراد اسے انجکشن کے ذریعے استعمال کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے رینجرز نے کراچی میں چھاپہ مار کر آئس بنانے والے ایک گروہ کے آٹھ افراد کو حراست میں لیا تھا جو کراچی کے پوش علاقوں میں اس زہر کی سپلائی کرتے تھے۔ اسی طرح لاہور اور دیگر بڑے شہروں کے پوش علاقوں‘ جامعات‘ ہاسٹلز اور فارم ہاؤسز میں اس نشے کو سپلائی کیا جاتا ہے۔ شہر اقتدار کی جامعات میں بھی بہ آسانی یہ زہرِ قاتل دستیاب ہے۔ بعض یونیورسٹی ملازمین بھی اس دھندے میں ملوث ہیں جو نوجوانوں کو بھاری رقوم کے عوض منشیات فراہم کرتے ہیں۔
والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھیں‘ ان کی مصروفیات‘ دوستوں کا حلقہ اور ایسے مقامات پر‘ جہاں وہ جاتے ہیں مثلاً کوچنگ سنٹر‘ پر بھی نظر رکھیں۔ دوسری طرف حکومت اور جامعات کے اربابِ اختیار کو بھی چاہیے کہ مختلف ذرائع سے یونیورسٹیوں میں ایسے معاملات پر کڑی نظررکھی جائے کہ کہیں کوئی سماج دشمن کسی تعلیمی ادارے میں قوم کے مستقبل کو تاریک تو نہیں کررہا یا کوئی سٹوڈنٹ خصوصاً کوئی طالبہ اچھے نمبروں یا ڈگری کے حصول کے لیے کسی کے ہاتھوں بلیک میل تو نہیں ہورہی۔ نیز ایسے کیسز میں شکایات کے فوری اور مؤثر تدارک پر بھی زور دینا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں