معاشی صورتحال اوربڑھتی ہوئی مہنگائی

اکتوبر2005ء میں قیامت خیز زلزلہ آیا تو اس کے لوگوں کی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ بعد میں کچھ لوگ ایک دوسرے کو زلزلے کے نام پر مذاق کا نشانہ بھی بنایا کرتے۔ ہمارے ایک سینئر صحافی دوست (جو اَب ہم میں نہیں رہے) کے سامنے اگر کوئی یہ کہہ دیتا کہ زلزلہ آ رہا ہے تو وہ اس قدر خوفزدہ ہوتے کہ بغیر سوچے سمجھے سیڑھیوں کی طرف دوڑنا شروع کر دیتے۔ آج کل پاکستان کی معاشی صورتحال بھی اسی قسم کی صورتحال سے دوچار ہے۔ کچھ شک نہیں کہ حالات سنگین ہیں اور مہنگائی نے غریب عوام کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل بنا دیا ہے۔ موجودہ معاشی صورتحال 2020ء میں کورونا وائرس سے پیدا ہونے والے معاشی بحران سے بھی زیادہ خوفناک ہوتی جا رہی ہے۔ حالات اس قدر خراب ہوتے جا رہے ہیں کہ اب منچلوں نے لوگوں کے ساتھ مفت راشن کے نام پر مذاق شروع کر دیا ہے۔ کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں کسی نے مفت راشن ملنے کی افواہ اڑا دی جس پر صبح صبح سینکڑوں خواتین ڈاک خانے کے باہر جمع ہو گئیں، جس سے لیاقت آباد ڈاک خانہ پر ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو گیا۔ خواتین گھنٹوں راشن دینے کا اعلان کرنے والی نجی تنظیم کی گاڑی کی منتظر رہیں، نجی تنظیم کے عملے کے نہ پہنچنے پر خواتین کی جانب سے احتجاج شروع کر دیا گیا۔ پولیس نے مذاکرات کے بعد خواتین کو وہاں ہٹایا جس کے بعد مظاہرہ ختم کر دیا گیا اور سڑک کو ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا۔ خواتین کا کہنا تھا کہ انہیں بتایا گیا تھا کہ یہاں راشن کارڈز تقسیم ہو رہے ہیں؛ تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ اس سے متعلق کوئی معلومات نہیں فراہم کی گئیں۔ ابھی تک اس سنگین مذاق کا کوئی سرا نہیں مل سکا۔ یہ صورتحال انتہائی خطرناک ہے اور کسی بڑے بحران کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔ دوسری طرف ایک عام آدمی بھی کیا کرے‘ جب ملک میں فی کلوگرام چینی کی قیمت بھی 200 روپے سے بڑھ جائے اور آمدن وہیں کی وہیں ہو تو خرچے کیسے پورے ہو سکتے ہیں؟ اس وقت کوئٹہ میں چینی 205 روپے سے 220 روپے فی کلو میں فروخت ہو رہی ہے۔ محض ایک ہفتے کے دوران چینی کی فی کلو قیمت میں 35 روپے سے زائد کا اضافہ ہو چکا ہے۔ پشاورکی عام مارکیٹ میں بھی چینی 200 روپے فی کلو فروخت ہو رہی ہے۔ جبکہ ہول سیل میں چینی 198 روپے فی کلو فروخت کی جا رہی ہے۔ مانیٹرنگ اور کنٹرول نہ ہونے پر ڈیلروں نے منافع خوری کے لیے چینی کی ذخیرہ اندوزی شروع کر دی ہے۔ سندھ میں بھی چینی کی قیمت میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔ رواں سال جنوری میں ای سی سی نے 2 لاکھ 20 ہزار میٹرک ٹن چینی برآمد کرنے کی منظوری دی تھی اور گزشتہ مالی سال پنجاب میں گنے کی قیمت 300 روپے فی من اور سندھ میں 302 روپے فی من رکھی گئی تھی۔ مالی سال 2021-22ء میں ملک میں چینی کی اوسط قیمت تقریباً 87 روپے 46 پیسے تھی۔ پنجاب میں گنے کی قیمت 225 روپے اور سندھ میں 250 روپے فی من تھی۔
وزارتِ خزانہ نے ملکی معیشت کو درپیش مالی خطرات سے متعلق ایک رپورٹ جاری کر کے مالی خسارے میں کمی کے لیے پلان اور ملکی معیشت کے بڑے خطرات بتائے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق توانائی کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔ میکرو اکنامک شاکس، قرضے اور قدرتی آفات ملکی معیشت کے لیے بڑے خطرات ہیں، پلان یہ ہے کہ مالی خسارے میں کمی کے لیے ٹیکس نیٹ بڑھایا اور سبسڈی کم کی جائے۔ 59 ہزار ارب سے زائد کے قرضے ہیں، جن کے آگے 3 ہزار 460 ارب کی سرکاری ضمانتیں غیر پائیدار ہیں۔ توانائی کی قیمتیں بڑھنے سے مہنگائی میں مزید اضافے کا خدشہ ہے، مہنگائی کی ایک بڑی وجہ روپے کی بے قدری اور خوراک کا مہنگا ہونا ہے۔ مہنگائی میں کمی اجناس کی قیمتوں میں گراوٹ اور روپے کے استحکام سے مشروط ہے، اس رپورٹ کے مطابق اس سال مہنگائی21 فیصد ہے جو آئندہ سال کم ہوکر 7.5 فیصد تک آنے کا امکان ہے۔ ملکی معیشت کی رفتار سست ہے، لیکن بتدریج بہتری متوقع ہے۔ مالی سال 2024ء میں معاشی ترقی کی شرح 3.5 فیصد ہے جو 2025ء میں 5 فیصد تک ہو جائے گی۔ 2026ء تک جی ڈی پی گروتھ 5.5 فیصد تک پہنچ جائے گی۔ ادارۂ شماریات کے مطابق ماہانہ بنیادوں پر مہنگائی کی شرح میں 1.72 فیصد اضافہ ہوا، گرانی کی شرح 27.38 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ اگست میں شہری علاقوں میں مہنگائی کی شرح میں 1.60 فیصد کا اضافہ ہوا، دیہی علاقوں میں مہنگائی کی شرح میں 1.88 فیصد کا اضافہ ریکارڈ ہوا۔ سالانہ بنیادوں پر آٹا 98.17 فیصد مہنگا ہوا۔ چائے کی قیمت میں 95.50 فیصد کا اضافہ ہوا، چینی کی قیمت میں 70.64 فیصداور آلو کی قیمت میں59.71 فیصد اضافہ ہوا جبکہ مرغی 67.56 فیصد مہنگی ہوئی۔ چاول، ٹماٹر، کھلا دودھ، مشروبات اور گیس کی قیمتوں میں بھی اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
ماضی قریب میں جب معاشی صورتحال سنگین تھی‘ تو ہمارے حکمران دعویٰ کرتے تھے کہ ہم پاکستان کو سری لنکا نہیں بننے دیں گے، لیکن اب تو بات شاید اس سے بھی آگے جا چکی ہے۔ رواں سال مئی کے بعد ایک بار پھر پاکستانی روپیہ دیوالیہ ہونے والے سری لنکا کی کرنسی سے بھی نیچے آ گیا ہے۔ اوپن مارکیٹ میں اس وقت ایک ڈالر 320 سری لنکن روپے جبکہ 332 پاکستانی روپے کے برابر ہے۔ مئی میں ایک ڈالر 305 پاکستانی روپے جبکہ 304 سری لنکن روپے کے برابر تھا۔ اس کے مقابل تین ماہ میں بھارتی روپیہ میں 25 پیسہ بہتری آئی ہے اور ایک ڈالر 82.75 بھارتی روپوں کے برابر ہے۔ اسی طرح تین ماہ کے دوران دو ٹکا کمی کے ساتھ ایک ڈالر 109 بنگلہ دیشی ٹکا کے برابر ہے۔ نیپالی روپیہ تین ماہ بعد بھی ڈالر کے مقابلے میں 132 پر برقرار ہے، ادھر ایک ڈالر کے مقابلے میں بھوٹانی کرنسی نگلترم میں 0.75 معمولی کمی ہوئی اور ایک ڈالر 82.75 نگلترم کا ہوگیا۔ اس دوران مغربی پڑوسی ملک افغانستان کی کرنسی کی پرفارمنس بہت بہتر رہی اور ڈالر کے مقابلے میں افغان کرنسی میں 6 افغانی بہتری آئی۔ اب ایک ڈالر 81 افغانی کے برابر ہے۔ اس وقت پاکستانی کرنسی خطے کے تقریباً تمام ممالک کے مقابلے میں زوال پذیر ہے۔ پاکستانی بزنس کونسل کا اس صورتحال پر کہنا ہے کہ ملک میں لوگوں کے 9 ہزار ارب روپے بینکوں سے باہر پڑے ہیں جس کی وجہ سے ڈالر اور سونے پر سٹے بازی ہو رہی ہے۔ بیرونِ ملک پاکستانیوں میں حوالہ؍ ہنڈی کے ذریعے کرنسی پاکستان بھجوانے کا رجحان بڑھا ہے، درآمدات پر پابندیوں کو بھی قبل از وقت ختم کیا گیا، جس کی وجہ سے پاکستانی کرنسی پر دبائو بڑھا۔ دوسری جانب پاکستان میں کپاس کی فصل اچھی ہوئی ہے اور بھارت کی طرف سے اپنے چاول کی برآمد پر پابندی کے بعد پاکستانی چاول کی طلب بڑھی ہے، اسے برآمد کر کے 3 ارب ڈالر کا زر مبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔ ہمیں ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لیے سمگلنگ اور حوالہ کے کاروبار پر قابو پانا ہو گا۔
بیرونِ ملک سے رقوم کی منتقلی کے لیے غیر ضروری اور کڑی شرائط کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ چارجز کے باعث اوورسیز پاکستانی اپنی ترسیلاتِ زر بینکنگ چینل کے بجائے حوالہ ہنڈی کے ذریعے بھیجنے کو ترجیح دیتے ہیں، کیونکہ ایک تو اس طرح رقم بھیجنا اور پاکستان میں وصول کرنا آسان سمجھا جاتا ہے‘ دوسرا قانونی طریقے سے بذریعہ بینک منتقل ہونے والی رقم کے مقابلے میں حوالہ کے ذریعے زیادہ پیسے ملتے ہیں۔ حوالہ ہنڈی سے موصول ہونے والی رقوم کا کوئی باقاعدہ ریکارڈ بھی نہیں ہوتا، اگر حکومت بیرونِ ملک کام کرنے والے تنخواہ دار طبقے کے لیے بینکنگ چینل سے رقوم بھیجنے پر چارجز معاف کر دے تو اس سے نہ صرف غیر قانونی ذرائع کی حوصلہ شکنی ہو گی بلکہ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی اضافہ ہو گا جبکہ پاکستانی کرنسی کی قدر بھی بہتر ہو گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں