کوئی فرد ہو یا قوم‘ جب قول و فعل میں تضاد حد سے بڑھ جائے تو مسائل بحرانوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور انہیں حل کرنا آسان نہیں رہتا۔ یہی کچھ ہمارے ملک میں توانائی بحران کا بنیادی سبب ہے اور اسی وجہ سے یہ حل ہونے کے بجائے روز بروز خوفناک صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ پہلے بجلی کی پیداوار سب سے بڑا مسئلہ تھا‘ طلب اور رسد میں فرق سے شارٹ فال بہت زیادہ ہو چکا تھا جس کو ختم کرنے کیلئے کرائے پر نجی پاور پلانٹس منگوائے گئے اور لوڈشیڈنگ کا سہارا لیا گیا لیکن یہ مسئلہ حل ہونے کے بجائے زیادہ گمبھیر ہوا ہے۔ اب بجلی کی پیداوار اور شارٹ فال تو اتنا مسئلہ نہیں مگر بجلی کے نرخ آسمان پر پہنچ چکے ہیں اور عام آدمی کے لیے بجلی کا بل ادا کرنا زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکا ہے۔ ان حالات میں نگران حکومت نے ملک بھر میں دکانیں اور کاروبار مغرب کے وقت بند کرنے کی تجویز پیش کی ہے لیکن اس پر کس حد تک عمل ہو پائے گا‘ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے کیونکہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ہر حکومت نے توانائی کی بچت کے لیے دکانیں اور کاروباری مراکز سات یا آٹھ بجے بند کرنے کی تجویز پیش کی، احکامات بھی جاری کیے، چند روز تک بڑے شہروں میں ڈنڈے کے زور پر مارکیٹیں بند بھی کرائی گئیں لیکن پھر مصلحتیں آڑے آ گئیں اور کاروبارِ زندگی پرانی ڈگر پر چل پڑا۔ اس سے انکار نہیں کہ جب تک ہم دن کی روشنی کا صحیح استعمال نہیں کریں گے اور ترقی یافتہ دنیا کی طرح مغرب کے وقت عام کاروبار بند نہیں کریں گے‘ اس وقت تک توانائی بحران سے نہیں نکل سکتے اور نہ ہی ہماری قوم میں نظم وضبط پیدا ہو سکتا ہے۔ اب نگران حکومت نے مغرب کے وقت کاروبار بند کرنے کی جو تجویز پیش کی ہے‘ میں سمجھتا ہوں کہ توانائی کے مسئلے کا صرف یہی ایک حل ہے۔ وزارتِ توانائی کے ذرائع کے مطابق اس تجویز پر یکم اکتوبر سے 15 فروری تک عمل درآمد کا امکان ہے، حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ قوم میں ڈسپلن پیدا کرنے اور توانائی بحران کے مستقل حل کے لیے پورا سال ہی دن کی روشنی کو زیادہ سے زیادہ بروئے کار لایا جائے۔ شنید ہے کہ بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لیے قانون سازی بھی کی جا رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق اس اقدام سے روزانہ 1500 میگاواٹ سے زائد بجلی کی بچت ہو گی اور بجلی کے بلوں میں بھی اسی تناسب سے کمی آئے گی۔ اس تجویز پر عمل درآمد کے لیے تاجر تنظیموں اور متعلقہ حلقوں سے مشاورت شروع کر دی گئی ہے۔
گزشتہ چند ہفتوں سے ملک بھر میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف احتجاج جاری ہے، نوبت خود کشیوں تک پہنچ چکی ہے لیکن اس کے باوجود ہم نے دن کی روشنی کا صحیح استعمال شروع نہیں کیا۔ حالانکہ ہم یہ جانتے ہیں کہ دنیا میں انہی ممالک نے ترقی کی منازل طے کی ہیں اور توانائی بحرانوں پر قابو پایا ہے جنہوں نے سورج کی روشنی کا زیادہ سے زیادہ استعمال یقینی بنایا۔ ان ممالک میں اسلامی نظام تو رائج نہیں لیکن وہاں کے لوگوں نے اپنا نظام الاوقات اسلامی تعلیمات کے عین مطابق بنایا ہوا ہے۔ جہاں فجر کی نماز تو پڑھی جاتی ہے یا نہیں لیکن لوگ اپنے کام وکاروبار کیلئے علی الصباح گھروں سے نکل پڑتے ہیں اور طلوع آفتاب کے ساتھ ہی اپنے کام میں مگن ہو جاتے ہیں۔ دن بھر خوب محنت کرتے ہیں‘ دن کی روشنی کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں اور شام کو غروبِ آفتاب سے قبل اپنے کام کاج سے چھٹی کر کے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ یوں انہیں مصنوعی روشنیوں، برقی قمقموں اور لائٹس کی ضرورت ہی نہیں پڑتی اور ابجلی کے بغیر بھی دن کی روشنی میں کام کرنے کیلئے کم ازکم بارہ گھنٹے میسر ہوتے ہیں جو دنیا کے کسی بھی عام کاروبار کیلئے کافی ہیں۔ دنیا کے تقریباً ہرخطے میں کسی بھی شخص کے کام کرنے کے عمومی اوقاتِ کار آٹھ گھنٹے مقرر ہیں اور اگر کوئی فرد اوور ٹائم کرنا چاہے‘ تو بھی وہ بارہ گھنٹے سے زیادہ کام نہیں کرتا۔ لہٰذا ترقی یافتہ ممالک یورپ کے ہوں یا ایشیا کے‘ سبھی جگہ دن کی روشنی کو بھرپور طریقے سے بروئے کار لایا جاتا ہے اور دن کے آغاز کے ساتھ ہی کام کا آغاز کر دیا جاتا ہے۔ طلوع آفتاب کے کچھ ہی گھنٹوں بعد شہر بھر کی مارکیٹیں کھل جاتی ہیں اور کاروبارِ زندگی شروع ہو جاتا ہے۔ ہمارے ہاں سورج نصف النہار پر پہنچ جاتا ہے مگر مارکیٹیں کھلنے کے آثار ہی پیدا نہیں ہوتے۔ اس حوالے سے متعدد بار دکانیں اور کاروباری مراکز جلد کھولنے اور جلدی بند کرنے کے فیصلے ہوئے، کئی بار ان پر عملدرآمد بھی شروع ہوا، مگر پھر آہستہ آہستہ ہم دوبارہ پرانی ڈگر پر چڑھ گئے۔ پی ڈی ایم حکومت نے توانائی کی بچت کے لیے ایک پالیسی کا اعلان کیا‘ ایک بار نہیں‘ متعدد بار اعلان کیا مگر توانائی کی بچت کے کسی پلان پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ دیکھا گیا ہے کہ جب بھی بجلی بحران کا سامنا ہوتا ہے تو انائی بچت پلان کا اعلان کر دیا جاتا ہے مگر ا س کے نفاذ کو فوقیت نہیں دی جاتی۔ بجلی کے شارٹ فال کے فوری اورآسان حل کے لیے گزشتہ حکومتوں نے کئی بار سورج کی روشنی کاصحیح استعمال کرنے اور رات کو 70 فیصد غیر ضروری لائٹنگ کی بچت کے لیے کاروباری مراکز رات کو جلدی بند کرنے کے احکامات جاری کیے،لیکن پھر نامعلوم وجوہ پر ان فیصلوں پر عملدرآمد روک دیا گیا۔ اگر بڑے شہروں کی بات کریں تو لاہور‘ کراچی‘ اسلام آباد سمیت سبھی شہروں میں 80 فیصد مارکیٹیں دوپہر سے پہلے کھلتی ہی نہیں اور پھر کم ازکم نصف شب تک تمام بازار اورشاپنگ مالز کھلے رہتے ہیں جس سے 70 فیصد بجلی لوڈ بڑھ جاتا ہے۔ چند سال قبل تک چھوٹے شہروں اور نواحی علاقوں میں مارکیٹیں سرِشام بند ہو جایا کرتی تھیں اور رات ہونے پر شہر میں شاید ہی کوئی دکان کھلی ملتی تھی مگر اب شاپنگ مالز اور راتوں کو باہر گھومنے کا کلچر وہاں بھی سرایت کر گیا ہے جس کی وجہ سے توانائی کی کھپت میں خاصا اضافہ ہو گیا ہے۔ پی ڈی ایم حکومت نے گزشتہ برس کے اواخر میں ملک بھر میں توانائی بچت پروگرام کے تحت شادی ہالز رات 10 بجے اور مارکیٹیں رات 8 بجے بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا، اگرچہ پنجاب کے کچھ شہروں میں شادی ہالز اب بھی رات دس بجے بند ہو جاتے ہیں مگر دیگر صوبوں میں شادیوں کی تقریبات رات گئے تک چلتی رہتی ہیں اور اس دوران ہزاروں قمقموں سے بجلی کی کھپت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ انرجی کی کھپت کے حوالے سے ایک رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ بجلی شام سات سے رات گیارہ بجے تک استعمال کی جاتی ہیں۔ اس تناظر میں سابق حکومت کی توانائی بچت پالیسی موجودہ حالات اور ملکی ضروریات کے عین مطابق تھی لیکن کاش حکومت ان پر عمل درآمد بھی کراتی۔ ہمارے ہاں پالیسیاں تو بہت اچھی اچھی بنتی ہیں لیکن ان پر صحیح طور عملدرآمد نہیں ہوپاتا۔ ہر حکومت نے توانائی بچت پالیسیاں بنائیں اور ہر دور میں کم ازکم ایک بار دکانیں جلدی بند کرنے کے احکامات بھی جاری کیے گئے لیکن جب عمل درآمد کی باری آئی تو پالیسی کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔ کاش ایسا ہوکہ رات آٹھ بجے تک میڈیکل سٹورز کے علاوہ تمام کاروبار بند ہو جائیں اور ریسٹورنٹس اور شادی ہالز بھی مقررہ وقت پر بند کردیے جائیں۔ اس سے توانائی کی بچت ہوگی اور بجلی کا شارٹ فال کم ہونے کے ساتھ ہم مہنگی بجلی کے استعمال سے بھی بچ جائیں گے۔ پاکستان میں کمرشل بجلی کا استعمال گھریلو بجلی سے کہیں زیادہ ہے۔ اگر حکومت توانائی بچت پالیسی پر عمل درآمد کرانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو ہم تونائی بحران سے باہر نکل سکتے ہیں اور ہمارے پاس ضرورت سے زائد سستی بجلی بھی موجود ہوگی۔
نگران حکومت کی تجویز بہت اچھی اور ملکی ضرورت کے عین مطابق ہے لیکن یہ مشاورت کا عمل بالکل غیرضروری ہے ۔ مشاورت کے نام پر اس میں غیر ضروری تاخیر ملکی مفاد میں نہیں۔ اگر نگران حکومت اس پالیسی پر عملدرآمد کرانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو یقینا تاریخ میں اپنا نام منفرد حوالے سے درج کرانے میں کامیاب ہو جائے گی۔