چیف جسٹس آف پاکستان عمرعطا بندیال آج ریٹائر ہو رہے ہیں، انہوں نے اپنے عدالتی کیریئر کا آخری فیصلہ گزشتہ روز سنایا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ آف پاکستان کے تین رکنی بینچ نے جمعہ کو جس کیس کا محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا وہ نیب ترامیم سے متعلق تھا، فیصلے میں چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست قابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے نیب ترامیم کی کئی شقیں کالعدم قرار دے دی گئیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ بھی اس بینچ کا حصہ تھے۔ اپنی ریٹائرمنٹ سے ایک روز قبل چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ہم دو ایک کی اکثریت سے فیصلہ سنا رہے ہیں۔ فیصلے میں جسٹس منصور علی شاہ کا اختلافی نوٹ بھی شامل ہے۔ عدالتِ عظمیٰ نے نیب کی تمام ختم انکوائریز اور کیسز بحال کرنے کا حکم دیتے ہوئے 50 کروڑ کی حد سے کم ہونے پر ختم ہونے والے تمام مقدمات بھی بحال کر دیے۔ عوامی عہدوں پر بیٹھے تمام افراد کے مقدمات بھی بحال کر دیے اور کہا کہ نیب ترامیم کے خلاف درخواست قابلِ سماعت قرار دی جاتی ہے۔ 50 کروڑ روپے کی حد سے کم ہونے پر ختم ہونے والے تمام مقدمات نیب اور احتساب عدالتوں میں دوبارہ مقرر کیے جانے کا حکم دیا گیا ہے، جبکہ احتساب عدالتوں کے نیب ترامیم کی روشنی میں دیے گئے احکامات بھی کالعدم قراردے دیے گئے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں50 کروڑ روپے کی حد تک کے ریفرنس نیب دائرۂ کار سے خارج قرار دینے کی ترمیم کالعدم قرار دے دی گئی، عوامی عہدوں کے ریفرنس ختم ہونے سے متعلق نیب ترامیم بھی کالعدم قرار دی گئیں۔ فیصلے کے مطابق تمام ختم انکوائریز اور کیسز نیب سات دن میں متعلقہ عدالتوں میں بھیجے گا۔ پلی بارگین سے متعلق نیب ترمیم بھی کالعدم قرار دے دی گئی۔ نیب ترامیم کے تحت بند کی گئی تمام تحقیقات اور انکوائریز بھی بحال کر دی گئی ہیں۔ اکثریتی رائے سے سامنے آنے والے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نیب ترامیم سے مفادِ عامہ کے آئین میں درج حقوق متاثر ہوئے۔ فیصلے میں نیب ترمیم کے سیکشن 5 سے متعلق ترامیم کو سول سرونٹس کی حد تک برقرار رکھا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کے ماضی سے اطلاق کی شق بھی کالعدم قرار دے دی۔ نیب ترامیم سے متعلق کیریئر کا آخری فیصلہ سنانے کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے عملے سے الوداعی ملاقات کی اور سپریم کورٹ سے روانہ ہو گئے۔چیف جسٹس آف پاکستان کی سرکاری رہائش گاہ وہ دو روز قبل ہی خالی کر کے ریٹائر ججوں کے لیے مختص گھر میں منتقل ہو چکے ہیں۔
نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے درخواست دائر کی تھی۔ اس کیس کی سماعت کے لیے 15 جولائی 2022ء کو چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔ کیس کی پہلی سماعت 19 جولائی 2022ء کو ہوئی تھی۔ ترامیم کے خلاف درخواست میں وفاق اور نیب کو فریق بنایا گیا اور کہا گیا کہ نیب قانون میں کی گئی ترامیم آئین کے منافی ہیں، سیکشن 14، 15، 21 اور23 میں کی گئی ترامیم آئین کے منافی ہیں۔ درخواست میں نیب قانون میں ترامیم کو بنیادی حقوق کے برعکس قرار دینے کی بھی استدعا کی گئی تھی۔ چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے استدعا کی گئی کہ نیب قانون میں تمام ترامیم کو کالعدم قرار دیا جائے۔ عدالتِ عظمیٰ نے نیب ترامیم کے خلاف درخواست پر 53 سماعتیں کیں۔ پی ٹی آئی کی طرف سے خواجہ حارث نے نیب ترامیم کے خلاف دلائل دیے جبکہ وفاق کے وکیل مخدوم علی خان نے نیب ترامیم کے حق میں دلائل دیے۔آخری سماعت پرچیف جسٹس نے معاونت کرنے پر تمام فریقین کا شکریہ ادا کیا اور ریمارکس دیے کہ شارٹ اینڈ سویٹ فیصلہ دیں گے۔ انہوں نے یہ فیصلہ اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل سنانے کا بھی کہا۔ آخری سماعت پر اٹارنی جنرل بیرونِ ملک ہونے کی وجہ سے پیش نہیں ہو سکے تھے جس پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو تحریری معروضات جمع کرانے کی ہدایت دی تھی۔ سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کے خلاف درخواست پر 5 ستمبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا جو 15 ستمبر کو سنایا گیا۔ اس فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ میں پاکستان تحریک انصاف کو مبارکباد پیش کرتا ہوں‘ اب ان کو بھی اسی طرح اس بدترین قانون کا سامنا کرنا پڑے گا جس طرح مسلم لیگ (ن) نے کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ میری ہمیشہ سے یہی رائے تھی کہ نیب قانون تبدیل نہیں ہونا چاہیے تاکہ دوسرے بھی اسی طرح اسے بھگت سکیں‘ جس طرح ہم نے بھگتا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ نیب کے حوالے سے ہمارا مؤقف واضح ہے، یہ ایک آمر کا بنایا ہوا ادارہ ہے جسے بند ہونا چاہیے۔ انہوں نے فیصلے سے متعلق کہا کہ میں نے یہ فیصلہ نہیں پڑھا لیکن نیا ہو یا پرانا قانون‘ ہم نے سب کے تحت نیب کیسز کا سامنا کیا ہے۔
دیکھا جائے تو ماضی میں سپریم کورٹ سمیت اعلیٰ عدلیہ اپنے ریمارکس میں کئی یہ تسلیم کر چکی ہے کہ نیب کے ادارے کو پولیٹکل انجینئرنگ کے لیے استعمال کیا جاتا رہا اور کئی بے گناہ لوگوں کی زندگیوں کا ایک قیمتی حصہ جیلوں میں برباد کر دیا گیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ نیب نے ہمیشہ حزبِ اختلاف کے رہنمائوں کے خلاف ہی گھیرا تنگ کیا اور حزبِ اقتدار کو کھلی چھوٹ دی گئی۔ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے دوسرے دورِ اقتدار میں سیف الرحمن کی سربراہی میں قائم احتساب سیل نے سیاسی مخالفین پر بے دریغ مقدمات بنائے تھے اور انہیں جیلوں میں بند رکھا تھا۔ اسی طرح پرویز مشرف نے بھی اپنے دور میں نیب کو بھرپور سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا اور تمام نیب زدہ سیاستدانوں کو ان کی فائلیں دکھا کر اپنی حمایت پر مجبور کیا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے اپنے اپنے دورِ اقتدار میں نیب کے ذریعے سیاسی رہنمائوں کے خلاف مقدمات بنائے۔ گوکہ ماضی سے سبق سیکھنے والی ان دونوں جماعتوں نے سیاسی انتقام کے معاملے میں قدرے نرمی دکھائی البتہ اس ادارے کا سیاسی استعمال روکنے کے لیے کوئی عملی قدم نہ اٹھایا۔ پھر جب پی ٹی آئی کی حکومت آئی تو دوبارہ سیاسی مخالفین کو نیب کے ذریعے جیلوں میں بند کر کے احتساب کا نعرہ بلند کرنے کی روش دیکھی گئی۔ اس دور میں اِس قومی ادارے کو سیاسی مقاصد کے لیے خوب استعمال کیا گیا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ جب چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو اتحادی حکومت نے سب سے زیادہ زور نیب ترامیم پر دیا اور اس ادارے کو عضو معطل بنا کر رکھ دیا۔ سابق صدر آصف زرداری، چھ سابق وزرائے اعظم ، وزرائے اعلیٰ اور سابق وزرا سمیت سینکڑوں سیاستدانوں اور سینئر بیورو کریٹس کے کیسز ان ترامیم سے ختم ہوئے تھے جو اب عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے ترامیم کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے بعد دوبارہ بحال ہو گئے ہیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلے پر کوئی تبصرہ کیے بغیر یہاں صرف نیب جیسے ادارے کے سیاسی استعمال بارے بات کی جائے گی۔ میں سمجھتا ہوں کہ نیب کو سیاسی مقاصد کیلئے بھرپور انداز سے استعمال کیا جا سکتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس ادارے کا قیام بھی اسی مقصد کے لیے تھا۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے جو نیب ترامیم کالعدم کرائی ہیں‘ وہ خود ہی ان کی زد میں آ جائیں۔ اب چیئرمین پی ٹی آئی اور دیگر پارٹی رہنمائوں کے خلاف نئے نیب مقدمات بنیں گے اور پھر ان کی جماعت یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے گی کہ اگر سیاسی مخالفت میں ان ترامیم کو نہ چھیڑا جاتا تو ان نئے مقدمات کا سامنا بھی نہ کرنا پڑتا۔ میرے خیال میں احتساب کے لیے موجود دیگر تحقیقاتی ادارے ہی انسدادِ کرپشن کے لیے کافی ہیں‘ نیب کو ختم ہی کر دینا چاہئے۔