انٹرنیٹ نے جہاں وسیع و عریض دنیا کو ایک گلوبل وِیلیج بنا دیا، وہیں سوشل میڈیا فورمز نے انسانی رابطوں کو تیز تر اور انتہائی آسان بنا دیا ہے۔ بحیثیت کارکن صحافی مجھے خود بھی انٹرنیٹ کی بدولت پیشہ ورانہ امور کی انجام دہی میں 60 فیصد سے زائد سہولت میسر آئی ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ رابطے کے ذرائع جتنے تیز اور آسان ہوتے جا رہے ہیں، انسانی زندگی اتنی ہی بے سکون ہوتی جا رہی ہے۔ شخصی رازداری بھی اس کے سبب غیر محفوظ ہونے لگی ہے جبکہ کسی ثبوت کے بغیر لوگوں کی عزت اچھالنا بھی رواج بنتا جا رہا ہے۔ اگرچہ سوشل میڈیا کے بعض اچھے پہلو بھی ہیں کہ یہ آج کے مصروف ترین دور میں رابطے اور معلومات کا ایک سستا، تیز اور آسان ذریعہ ہے، فیس بک کے ذریعے ایک دوسرے کی خیرخبر پتا چلتی رہتی ہے، غمی و خوشی اور آمد و رفت کی معلومات کے ساتھ ساتھ ہماری سالہا سال کی یادداشتیں بھی اس میں محفوظ رہتی ہیں، ہماری تصاویر اور وڈیوز کا ایک ذخیرہ بھی جمع رہتا ہے، اسی طرح وٹس ایپ کے ذریعے پیغام رسانی کا عمل نہایت ارزاں و سہل ہو گیا ہے۔ آج کل سنجیدہ لوگ زیادہ تر ایکس (ٹویٹر) استعمال کرتے ہیں جس کے ذریعے اپنی بے شمار مصروفیات کے باوجود وہ اپنی بات، تصویر، وڈیوز، پیغامات یا تقریب کو بہ آسانی دوسروں کے ساتھ شیئر کر سکتے ہیں لیکن سوشل میڈیا کے مضمرات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم صرف اپنی بات اور پیغام شیئر کریں اور اِدھر ادھر کی سنی سنائی افواہیں آگے پھیلانے سے پہلے ان کی تصدیق ضرور کر لیں۔ اگر ایسا ہو جائے تو پھر سوشل میڈیا کے فوائد اس کے نقصانات پر غالب آ جائیں گے لیکن موجودہ حالات و واقعات دیکھ کر اس امر کی توقع کرنا عبث لگتا ہے کیونکہ دنیا بھر میں اور خصوصاً ہمارے معاشرے میں کسی بھی خبر کو‘ تصدیق کیے بغیر فوری آگے پھیلانا عام سی بات ہے۔ ہمارے خودساختہ دانشور لاشعوری طور پر صرف لائکس، کمنٹس اور ویوز کے چکر میں اوٹ پٹانگ چیزیں زیادہ شیئر کرتے ہیں کیونکہ ایسی چیزوں کو سوشل میڈیا پر زیادہ تیزی سے رِسپانس ملتا ہے اور یہی ان کا مقصد ہوتا ہے۔ بعض تصویریں اور تحریریں گزشتہ کئی سالوں سے سوشل میڈیا پر چل رہی ہیں مگر لوگ آج بھی انہیں تازہ سمجھ کر شیئر کرتے جا رہے ہیں، مثلاً اکثر ایسی پوسٹس نظر آتی ہیں جن میں بچوں کی تصاویر کے ساتھ یہ پیغام لکھا ہوتا ہے کہ یہ بچہ اس وقت فلاں تھانے میں موجود ہے اور اس کے ورثا کی تلاش ہے، اس کی تصاویر شیئر کریں تاکہ یہ اپنے والدین تک پہنچ جائے۔ وہ بچہ جوان بھی ہو چکا ہوتا ہے لیکن یہ میسج اسی طرح چلتا رہتا ہے۔ اس کا ایک نقصان یہ ہوتا ہے لوگ اس قسم کی پوسٹس سے تنگ آ جاتے ہیں، پھر ممکن ہے کہ واقعی کوئی بچہ اپنے اہلِ خانہ سے بچھڑ جائے مگر لوگ اس کو پرانی خبر سمجھ کر آگے شیئر نہ کریں، اس لیے ایسی چیزوں کو شیئر کرنے سے پہلے ان کی تصدیق لازم ہے اور یہ کوئی بڑا کام نہیں۔ اکثر ایسی تصاویر کے کمنٹس میں یہ معلومات مل جاتی ہے، پھر تصویر کے شیئر کرنے کی تاریخ سے بھی علم ہو سکتا ہے کہ یہ پہلی بار کب شیئر کی گئی۔ سب سے بڑھ کر‘ شیئر کرنے والے اگر پولیس یا اس قسم کے دوسرے اداروں کے آفیشل پیجز ہوں تو اس کی حقیقت اور تصدیق میں کوئی شک نہیں رہ جاتا۔
فیس بک سمیت سوشل میڈیا ایپس زیادہ محفوظ نہیں ہیں اور ہیکرز کسی بھی سوشل میڈیا فورم کے صارفین کے اکائونٹس ہیک کرکے اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ چند برس قبل میرا ذاتی فیس بک اکائونٹ ہیک ہوا جو برطانیہ میں مقیم کمپیوٹر انجینئر نعمان فیاض قاضی صاحب کی انتھک محنت سے کئی روز بعد بحال ہو سکا۔ دو سال قبل یہ اکائونٹ دوبارہ ہیک ہوا اور ہیکر نے میرے اکائونٹ سے غیر قانونی مواد شیئر کیا اور پھر اکائونٹ بند کر دیا گیا جو آج تک بحال نہیں ہو سکا۔ یوں اس اکائونٹ پہ موجود میرا دو دہائیوں سے زائد کا ذخیرہ نہ صرف ضائع ہو گیا بلکہ اس کے غلط استعمال کا بھی خدشہ موجود ہے۔ قریب دو ہفتے قبل سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیٹے کا ایکس اکائونٹ ہیک کر کے وہاں سے ٹرمپ کی موت کی جھوٹی خبر پھیلا دی گئی۔ ان واقعات سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ فیس بک اور ایکس سمیت سوشل میڈیا فورمز کسی بھی طور پر محفوظ نہیں سمجھے جا سکتے اور ان پر شیئر کی گئی تصاویر اور دیگر معلومات کسی بھی وقت چوری ہو سکتی ہیں۔
دو برس قبل دنیا کی سب سے بڑی سوشل ویب سائٹ فیس بک (میٹا) اور اس کی ذیلی ایپس انسٹا گرام اور وَٹس ایپ کی چند گھنٹے کی بندش سے دنیا بھر میں ساڑھے تین ارب سے زیادہ صارفین متاثر ہوئے تھے۔ میٹا کے مالک مارک زکربرگ کو یہ بندش بہت مہنگی پڑی اور انہیں فی گھنٹہ ایک ارب ڈالر (قریب تین کھرب روپے) سے زیادہ کا نقصان ہوا۔ فیس بک کے ٹریفک نیٹ ورک اور ڈیٹا سنٹر کے آلات میں خرابی کی وجہ سے ان ایپس کی سروس بند ہوئی تھی؛ تاہم میٹا انتظامیہ نے تصدیق کی تھی کہ سروس کی بندش سے صارفین کا ڈیٹا لیک یا متاثر نہیں ہوا۔
بلاشبہ ہمارے لیے سوشل میڈیا خصوصاً وَٹس ایپ تصاویر، پیغامات اور دیگر معلومات کا سب سے تیز، سستا اور آسان ذریعہ ہے۔ اور جب کبھی اس کی سروسز بند ہوئیں تو گویا ہم بھی اندھیرے میں چلے گئے۔ پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی میں اس بندش سے مشکلات پیش آتی ہیں۔ جو خبریں اور تصاویر وَٹس ایپ کے ذریعے موبائل فون سے ہی فوری طور پر فارورڈ ہو جاتی ہیں، انہیں سینڈ کرنے کے لیے لیپ ٹاپ استعمال کرنا پڑا اور ای میل کا سہارا لینا پڑا۔ تاہم یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کی بندش سے گویا زندگی میں چند گھنٹے کے لیے ایک سکون سا آ جاتا ہے۔ غیرضروری پیغامات کی ٹک ٹک اور فضول کالوں کی ٹن ٹن بند رہتی ہے۔ آج کل بہت سے لوگ فری لانسنگ کر رہے ہیں۔ کچھ سوشل میڈیا فورمز کے ذریعے روزگار کما رہے ہیں۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹس سے نوجوان نسل کی ایک بڑی تعداد اچھے خاصے پیسے کما رہی ہے لیکن اس مقصد کے لیے انہیں اپنی پوسٹوں کو وائرل کرنا ضروری ہوتا ہے جس کے لیے اکثر جھوٹ، فحاشی، عریانی، غیر مصدقہ اطلاعات، افواہوں، من گھڑت کہانیوں، ناپسندیدہ تصویروں اور غیر اخلاقی وِڈیوز تک کا سہارا لیا جاتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہیں سے نوجوان نسل کی اخلاقی تباہی کی ابتدا ہوتی ہے۔
آسان اور ارزاں رابطے کے لیے اب لوگوں نے گھریلو خواتین کو بھی سمارٹ موبائل فون تھما دیے ہیں۔ جن کی بدولت وہ دیار غیر سے بھی جب چاہیں وِڈیوکال پر پوری فیملی سے 'ملاقات‘ کر لیتے ہیں لیکن اکثر اس طرح توجہ گھرداری سے زیادہ سماجی رابطوں پر مرکوز ہو جاتی ہے۔ اسی طرح اساتذہ کی جانب سے بار بار منع کرنے اور سکولوں و کالجوں میں پابندی کے باوجود ہم بچوں کو گھر سے رابطے کے نام پر موبائل فون تھما دیتے ہیں اور سونے پہ سہاگا یہ کہ عام فون کے بجائے انہیں مہنگا ترین سمارٹ فون لے کر دیتے ہیں۔ اس طرح بچوں کو اہلِ خانہ سے رابطے کے زیادہ پلیٹ فارم مہیا ہو جاتے ہیں مگر رفتہ رفتہ وہ پڑھائی سے زیادہ وقت سماجی ویب سائٹس کو دینے لگتے ہیں۔ پہلے مذاق مذاق میں اور پھر عادتاً ایک دوسرے کے ساتھ غیراخلاقی پیغامات، تصاویر اور وڈیوز کی ترسیل شروع ہو جاتی ہے اور یہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جب کسی بھی نوجوان لڑکے یا لڑکی کی پُرسکون اور خوبصورت زندگی میں بگاڑ پیدا ہونا شروع ہوتا ہے۔ سائنسی ترقی، جدت اور زمانے کی برق رفتاری بلاشبہ وقت کی ضرورت ہیں اور انہیں اپنائے بغیر موجودہ دور میں کامیابی سے چلنا ممکن نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سب ترقی مصنوعی ہے جو قدرت کی عطا کردہ نعمتوں اورآسائشوں کے مقابلے میں بظاہر تیز تو ہو سکتی ہے لیکن اس نے انسانی زندگی سے پیار و محبت، آرام و سکون اور قدرتی ماحول چھین لیا ہے۔ دیانتداری سے تقابلی جائزہ لیا جائے تو یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ سوشل میڈیا ترقی کی طرف لے جا رہا ہے یا تباہی کے راستے پر ڈال رہا ہے؟