حکومت کی جانب سے غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی باشندوں کو دی گئی مہلت ختم ہو چکی ہے اور ان کے پاکستان سے انخلا کا مرحلہ شروع ہو چکا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مطابق تادم تحریر تقریباً ایک لاکھ پانچ ہزار غیر قانونی افغان پناہ گزین اپنے ملک واپس جا چکے ہیں۔ جو لوگ رضاکارانہ طور پر اپنا بوریا بستر سمیٹ کر بروقت واپس چلے گئے یا اپنے آبائی وطن واپسی کے لیے روانہ ہو چکے ہیں وہ تو فائدے میں رہیں گے لیکن جو غیر قانونی تارکین وطن تاحال یہاں چھپے بیٹھے ہیں یا چھپنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ وہ یقینا گھاٹے میں رہیں گے کیونکہ اب پاکستان کے تمام قومی اداروں نے تہیہ کر رکھا ہے کہ تمام غیر قانونی تارکین وطن کو ہر صورت واپس جانا ہو گا‘ اس صورت میں کسی نہ کسی ذریعے سے‘ آج نہیں تو کل ان کی نشاندہی ہو ہی جائے گی اور پھر جب پولیس یا دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اچانک کارروائی کریں گے تو انہیں سنبھلنے کا موقع بھی نہیں مل سکے گا۔ پھر نہ تو وہ یہاں موجود اپنی جائیداد وغیرہ فروخت کر سکیں گے اور نہ ہی اپنا ضروری سامان ہی سمیٹ سکیں گے۔ ایسے میں بہتر یہی ہے کہ تمام غیر قانونی تارکین وطن رضاکارانہ طور پر اپنے اپنے آبائی ملک واپس چلے جائیں اور آئندہ باقاعدہ ویزا لے کر قانونی طریقے سے پاکستان کے مہمان بنیں۔
ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد گزشتہ روز تمام غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کے خلاف گرینڈ آپریشن کا آغاز کر دیا گیا۔ وفاقی وزارتِ داخلہ کی جانب سے تمام صوبوں کو غیر قانونی طور پر مقیم باشندوں کی بے دخلی کا حکم جاری کر دیا گیا ہے، معمولی جرائم میں زیرِ تفتیش اور سزا یافتہ غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو بھی بے دخل کیا جائے گا۔ کوئی پاکستانی اگر کسی غیر قانونی تارکین وطن کو پناہ دینے میں ملوث ہوا تو اس کے خلاف بھی قانونی کارروائی کی جائے گی۔ بے دخلی کے منصوبے کا اطلاق پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم تمام غیر ملکیوں پر ہو گا، منصوبے کے اطلاق میں کسی بھی ملک یا شہریت کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھا جائے گا۔ بعض سوشل میڈیائی دانشور اسے افغانوں کے خلاف کارروائی قرار دے رہے ہیں جو سراسر غلط ہے۔ پاکستان میں لگ بھگ تمام علاقائی ممالک کے غیر قانونی تارکین وطن آباد ہیں اور ان کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ دوسری جانب پاکستان گزشتہ چالیس برس سے اپنے افغان بھائیوں کی مہمان نوازی کر رہا ہے اور انہیں پناہ گزینوں کے حوالے سے موجود عالمی قوانین سے کہیں بڑھ کر سہولتیں فراہم کر رہا ہے۔ یہ آپریشن غیر قانونی طور پر مقیم تمام غیرملکیوں کے خلاف ہے اور اس میں کسی ایک طبقے یا کمیونٹی کو نشانہ نہیں بنایا جا رہا۔ یہ بات کس سے ڈھکی چھپی ہے کہ غیر قانونی طور پر مقیم افرا دکا ملک کے ڈیٹا بیس میں کوئی اندراج نہیں ہوتا جس کی وجہ سے انکا غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونا اور جرم کے بعد صاف بچ نکلنا کہیں آسان ہوتا ہے‘ اسی لیے اس جامع مہم کا آغاز کیا گیا ہے کیونکہ مہمان نوازی سے زیادہ پاکستان کو اپنے وطن کی سالمیت‘ امن و سکون اور معاشی استحکام درکار ہے۔
ملک بھر میں غیر قانونی طور پر مقیم غیرملکی باشندوں کی نشاندہی کا عمل جاری ہے۔ ایک اندازے کے مطابق صوبہ سندھ میں پانچ لاکھ کے قریب افغان شہری آبادہیں‘ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں تقریباً تین تین لاکھ جبکہ پنجاب میں ان کی تعداد پونے تین لاکھ کے قریب ہے۔ یعنی لاکھوں افغان شہری غیر قانونی طور پر ملک میں مقیم ہیں؛چنانچہ انخلا کی اس مہم کو اسی عزم کے ساتھ جاری رکھنا ہو گا۔ خیبر پختونخوا میں مقیم 3 لاکھ غیر قانونی مقیم افغان شہریوں میں سے رضاکارانہ طور پر واپس نہ جانے والوں کو ہولڈنگ سنٹروں میں منتقل کیا جائے گا۔ پنجاب اور بلوچستان میں بھی غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کی بے دخلی کیلئے آپریشن کا آغاز کر دیا گیا ہے اور ان کا ڈیٹا بھی ویریفائی کیا جا رہا ہے۔ مہلت ختم ہونے کے بعد ملک کے مختلف شہروں سے غیر قانونی تارکین وطن کو حراست میں لینے کی خبریں بھی موصول ہوئی ہیں۔ رضاکارانہ طور پر واپس جانے والے افراد پولیس اور حکومتی اداروں سے رابطہ کر کے اپنی رجسٹریشن کروا سکتے ہیں، ان تمام افراد کو حکومت کی جانب سے وطن واپسی کے لیے ٹرانسپورٹ فراہم کی جائے گی جبکہ ہولڈنگ سنٹرز میں بھی ان کی مکمل معاونت کی جائے گی ۔
کراچی سے غیر ملکیوں کے انخلا کے لیے جاری آپریشن میں یومیہ 500 افغان باشندوں کو 10 بسوں کے ذریعے چمن بھیجنے کا بندوبست کیا گیا ہے جبکہ ٹرین کے ذریعے بھی روزانہ 750 سے 800 افغان باشندوں کی واپسی عمل میں لائی جائے گی۔ نان سٹاپ ٹرین کراچی سے روہڑی کے راستے افغانوں کو لے کر چمن بارڈر تک پہنچے گی جس میں سخت سکیورٹی انتظامات کیے جائیں گے۔ علاوہ ازیں زیرِ حراست غیر ملکیوں کو جیکب آباد کے ہولڈنگ سنٹر میں قیام کرایا جائے گا۔ خصوصی ٹرین سے غیر قانونی پناہ گزینوں کی روانگی کے لیے ریلوے نے انتظامات شروع کر دیے ہیں۔
کراچی میں قائم دو میں سے ایک ہولڈنگ سنٹر بوائے سکائوٹ ہاسٹل سلطان آباد میں قائم کیا گیا ہے جس میں وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف ائی اے، نادرا، سپیشل برانچ، سندھ پولیس اور دیگر اداروں کے کائونٹرز بھی قائم کیے گئے ہیں۔ زیر حراست افراد کے قیام کیلئے ہاسٹل کے گرائونڈ میں خیمے اور شامیانے بھی لگائے گئے ہیں۔ ادھر کوئٹہ میں بھی غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کریک ڈائون شروع کر دیا گیا ہے اور شہر کے مختلف علاقوں میں پولیس ایف سی اور دیگر اداروں کے تعاون سے مختلف کارروائیاں کر رہی ہے۔ راولپنڈی میں غیر قانونی مقیم افغان مہاجرین کے انخلا کے لیے بھی خیابانِ سرسید کے ایک کالج میں کیمپ قائم کیا گیا ہے، اس کیمپ میں 450 افراد کی رہائش کا انتظام کیا گیا ہے۔ راولپنڈی ضلع میں کل 12 ہزار افغانوں کی نشاندہی ہوئی ہے جن میں سے 6 ہزار کے غیر قانونی ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ بقیہ کی تصدیق ہونا ابھی باقی ہے۔ کیمپ میں نادرا کا ڈیسک بھی قائم کیا گیا ہے تاکہ وہاں لائے جانے والے افراد کا ڈیٹا وہیں پر فوری چیک کیا جا سکے۔ چیکنگ کے بعد غیر قانونی افراد کو ڈی پورٹ کرنے کے لیے کیمپ میں منتقل کر دیا جائے گا جبکہ رجسٹرڈ پناہ گزینوں کو واپس جانے کی اجازت ہو گی۔ کیمپ میں مہاجرین کے سونے اور کھانے پینے کا مناسب بندوبست کیا گیا ہے جبکہ طبی سہولتوں کی فراہمی کے لیے میڈیکل کیمپ بھی لگایا جائے گا اور کے پی گورنمنٹ سے کلیئرنس ملنے کے بعد آئندہ جمعہ یا ہفتہ تک ان مہاجرین کو طورخم بارڈر پہنچا دیا جائے گا۔ ادھر پولیس کے آپریشن میں 100 سے زائد غیر قانونی مقیم افراد کو حراست میں لیا گیا جن میں سے 64 غیر قانونی مقیم افغان شہریوں کو اسلام آباد انتظامیہ کے حوالے کیا گیاجنہیں طورخم بارڈر کے لیے روانہ کر دیا گیا۔
حکومتی اقدامات ابھی تک عوامی امنگوں کے عین مطابق ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو ملک چھوڑنے کی ڈیڈ لائن میں اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ گزشتہ چوبیس گھنٹوں سے ان غیر قانونی و زبردستی کے مہمانوں کے خلاف آپریشن بھی شروع ہو چکا ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کام کو بہر صورت منطقی انجام تک پہنچایا جائے کیونکہ اگر کم از کم یہ غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی باشندے ہی واپس چلے جائیں تو وطن عزیز میں دہشت گردی، چوری، ڈکیتی، اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری اور قتل و غارت گری کے واقعات میں نمایاں کمی واقع ہو گی۔ اس سے لاء اینڈ آرڈر اور امن و امان کی صورتحال بہتر ہو گی جبکہ مکانات کے کرایوں اور مہنگائی میں بھی کمی آئے گی اور یہی سب کچھ وقت کی ضرورت ہے۔