دہشت گردی کے بڑھتے خطرات

دنیا میں قیامِ امن کے لیے اقوامِ متحدہ کے امن مشن کے پرچم تلے سب سے زیادہ خدمات افواجِ پاکستان کی ہیں۔ سب سے زیادہ قربانیاں بھی ہمارے افسران وجوانوں نے ہی دی ہیں اور اس کا سب سے زیادہ خمیازہ بھی ہماری قوم نے ہی بھگتا ہے۔ جس طرح آج اسرائیل غزہ میں عورتوں اور معصوم بچوں کا قتلِ عام کررہاہے‘ اسی طرح ہمارے دشمنوں نے بھی ہمارے ننھے طلبہ کو بھی اپنی بزدلانہ کارروائیوں کا نشانہ بنایا‘ مساجد اور غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کو بھی نہ بخشا گیا‘ فرقہ واریت پھیلانے کے لیے مذہبی اجتماعات اور رہنمائوں پربھی دہشت گرد حملے کیے گئے۔ سب سے زیادہ شہادتیں ہماری سکیورٹی فورسز کی ہیں کیونکہ ہمارے دشمن یہ جانتے ہیں کہ افواجِ پاکستان اور دیگر یونیفارم فورسز ہی وطنِ عزیز میں امن وسلامتی کی ضامن ہیں اورانہیں نقصان پہنچا کر ہی امن کی کوششوں کو سبوتاژ کیا جاسکتاہے لیکن دشمن کی کوئی بھی بزدلانہ کارروائی آج تک ہماری فورسز کے جذبے کو متاثر نہ کرسکی۔
ماضی میں سرزمین ِپاک پر ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں زیادہ تر ہاتھ ہمسایہ ملک بھارت کاہوتا تھا لیکن یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ بھارت تو قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک ہمارا روایتی دشمن چلا آرہا ہے اور ہماری اس کے ساتھ کئی جنگیں بھی ہوچکی ہیں لیکن تشویشناک امر یہ ہے کہ ہمسایہ اسلامی ملک افغانستان‘ جس کی ہر مشکل گھڑی میں پاکستان نے مدد کی بلکہ گزشتہ چار دہائیوں سے لاکھوں افغان پناہ گزینوں کو مہمان بنایا اور اس طرح آزادی دی کہ پاکستان افغانیوں کا دوسرا گھر بن گیا لیکن انتہائی افسوسناک پہلو یہ ہے کہ افغان سرزمین ہمیشہ پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہوتی رہی۔ پاکستانی حمایت اور مدد سے ہی افغانیوں نے روس کے تسلط سے آزادی حاصل کی لیکن اس کے بعد ایک طرف تو چالیس برس سے پاکستان میں لاکھوں افغان پناہ گزین مقیم ہیں تو دوسری طرف افغانستان کی سرزمین سے پاکستان پر حملے اور دہشت گردوں کی دراندازی جاری رہی۔ وہاں مختلف حکومتیں برسراقتدار آتی رہیں۔ طالبان کی حکومت دوسری بار وہاں اقتدار میں ہے لیکن اس کے باوجود دہشت گردی نہ رک سکی‘حالانکہ ہم یہ سمجھتے تھے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے بعد معاملات حل ہوں گے اور اعتماد بحال ہوگا۔دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان جو بھی ٹکرائو‘ تضادات‘ عدم اعتماد سمیت دیگر مسائل تھے ان میں مثبت پیش رفت دیکھنے کو ملے گی اور افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہو گی اور نہ ہی دہشت گردوں کووہاں محفوظ ٹھکانہ فراہم کیا جائے گا یا ان کی سرپرستی کی جائے گی ۔ دہشت گردوں کا خاتمہ کیا جائے گا اور ان کی کسی قسم کی سہولت کاری کو قبول نہیں کیا جائے گا۔لیکن حالیہ دنوں میں یا کچھ عرصہ سے پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کے تناظر میں ریاست اور افواجِ پاکستان سمیت حکومت کو دہشت گردی کے ان واقعات کے افغان سرزمین سے باہمی تعلق‘ ٹی ٹی پی کو افغانستان میں دستیاب محفوظ پناہ گاہوں اور اس کے نتیجہ میں دہشت گردی کی کارروائیوں پر شدید تحفظات ہیں ۔دنیا جانتی ہے کہ دوحہ مذاکرات کو کامیاب بنانے میں پاکستان کا کلیدی کردار تھا۔ا بھی تک طالبان کی حکومت کو عالمی سطح پر نہ تو تسلیم کیا گیا اور نہ ہی ان کی وہ بڑی پزیرائی ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان اپنی داخلی بقا اور علاقائی استحکام کے لیے افغانستان کے مفادات کو ہمیشہ اہمیت دیتا رہاہے اور ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ افغانستان کے استحکام کو یقینی بنا کر اپنے داخلی استحکام کو بھی مضبوط بنایا جائے ،مگر طالبان حکومت کا رویہ اس وقت مناسب نہیں اور وہ بھی سابقہ افغان حکمرانوں کی طرح اپنے داخلی مسائل کو پاکستان کے ساتھ جوڑ کر الزام تراشیوں پر مبنی فکر کو بنیاد بنا کر ہمارے تحفظات کو نظرانداز کررہی ہے۔ دوحہ مذاکرات کے بنیادی نقطہ سے انحراف کرکے افغان طالبان حکومت اپنی سرزمین کے ہمارے خلاف دہشت گردی کے استعمال میں یا تو خاموش ہے یا یہ ان کی حکمت عملی کا حصہ ہے کیونکہ اس وقت جو کچھ پاکستان اورافغانستان میں ہورہا ہے‘ وہ دوحہ مذاکرات کی ناکامی اور خلاف وزری سے جڑا ہوا ہے ۔یہ نقطہ بھی اہمیت رکھتا ہے کہ افغانستان میں جو بھی حکومت آئی اس کے نتیجہ میں پاکستان کا بحران کم نہیں بلکہ زیادہ ہوا ہے اور ہمیں پہلے سے بھی زیادہ سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔
پاکستان میں رواں برس ہونے والے 24خودکش حملوں میں 14میں افغانی باشندے ملوث تھے اور یہ سب وہ لوگ جو غیرقانونی طریقے سے پاکستان میں داخل ہوئے تھے‘ ان کے پاس نہ تو پاکستان میں داخلے کا ویزا تھا اور نہ ہی وہ بطور افغان پناہ گزین رجسٹرڈ تھے یعنی ان کا کہیں کوئی ریکارڈ موجود نہیں تھا جس کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ کم ازکم پاکستان سے تمام غیرقانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں (جن میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 98فیصد افغانی ہیں) کو اپنے اپنے وطن واپس بھیجا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے 31اکتوبر کی ڈیڈ لائن دی گئی تھی جو ختم ہونے کے بعد ان غیرقانونی مقیم غیر ملکیوں کی گرفتاری اور ملک بدری کا عمل شروع کر دیاگیااور اب تک 2لاکھ سے زائد غیرقانونی افغان باشندے واپس جا چکے ہیں۔ پاکستان‘ جو چالیس سالوں سے افغان بہن بھائیوں کی میزبانی کررہاہے اور انہیں ملک بھر میں ہرقسم کی آزادی دے رکھی ہے‘ آج بھی اس پر قائم ہے لیکن ہمارے لیے وطنِ عزیز پاکستان کی سلامتی اور اپنے شہریوں کی جان ومال کی حفاظت سب سے مقدم ہے اورہم کسی کی خاطر اپنے ملک کا امن وسکون غارت نہیں کر سکتے۔اسی لیے اب بھی صرف غیرقانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو ہی واپس بھیجا جا رہاہے۔
حالیہ چند مہینوں کے دوران انسدادِ سمگلنگ کے بہترین نتائج سامنے آئے۔ امریکی ڈالر کی قدر میں 60روپے سے زائد کمی ہوئی جبکہ پٹرول کی قیمت میں بھی تقریباً 50روپے کمی آئی جس سے مارکیٹ مہنگائی میں کمی آنا شروع ہوگئی ہے اور معیشت بہتری کی جانب گامزن ہوچکی ہے۔ اسی طرح ہمارے دشمن جانتے ہیں کہ اگر غیرقانونی مقیم غیرملکی باشندے جو پاکستان میں دہشت گردی سمیت مختلف سنگین جرائم میں ملوث ہیں‘ اگر واپس چلے جاتے ہیں تو پاکستان میں امن وامان کی صورتحال بھی بہتر ہوجائے گی جس سے معاشی سرگرمیاں مزید بہتر ہوں گی اور غیر ملکی سرمایہ کار بھی رخ کریں گے۔ یہی بات ہمارے دشمنوں سے ہضم نہیں ہورہی اور اب ملک میں ایک بار پھر دہشت گردی کی نئی لہر شروع ہوچکی ہے۔ گزشتہ دو ورز کے دوران دہشت گردوں نے کئی بزدلانہ کارروائیاں کیں۔ جمعہ کے روز پسنی سے اورماڑہ جانے والی فورسز کی دوگاڑیوں پر دہشت گردوں نے گھات لگا کر حملہ کر کے پاک فوج کے 14جوانوں کو شہید کر دیا۔خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے تین مختلف واقعات میں پاک فوج کے تین جوان شہید ہوگئے جبکہ جوابی کارروائی میں دودہشت گرد جہنم واصل ہوئے۔گزشتہ روز دہشت گردوں نے علی الصبح میانوالی میں پاکستان ایئرفورس کی ٹریننگ بیس پر حملے کی کوشش کی۔ بیس پر متعین دستوں نے فوری اور موثر کارروائی کر کے دہشت گردوں کا حملہ ناکام بنا دیا۔ آئی ایس پی آر کی مطابق سکیورٹی فورسز نے مشترکہ کلیئرنگ اور کومبنگ آپریشن میں تمام 9 دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا۔بلاشبہ ان تمام واقعات کے پیچھے بیرونی دشمنوں کا ہاتھ ہے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہماری بہادر افواج نے پہلے بھی دہشت گردی کا خاتمہ کیا اور ان شاء اللہ پھر صفایا کریں گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ انسدادِ سمگلنگ آپریشن اور غیرقانونی مقیم غیر ملکیوں کیخلاف کریک ڈائون میں کسی قسم کی لچک کا ہر گز مظاہرہ نہ کیاجائے اور انہیں منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں