کاش یہ قدم کوئی پہلے اٹھاتا!

دنیا کے کسی بھی چھوٹے‘ بڑے ملک میں غیر ملکی باشندوں کا غیر قانونی طور پر آزادانہ قیام ممکن نہیں۔ حتیٰ کہ ہمارے مغربی ہمسایہ ملک افغانستان‘ ایک محتاط اندازے کے مطابق جس کے تقریباً 70 فیصد پناہ گزین گزشتہ چالیس برس کے دوران کبھی نہ کبھی‘ بغیر کسی دستاویز یا بلا روک ٹوک پاکستان آتے رہے‘ جتنے روز چاہا یہاں قیام کیا اور کچھ یہاں مستقل طور پر ایڈجسٹ ہو گئے‘ اس افغانستان میں بھی ہمارے شہریوں کا آزادانہ آنا جانا اور پُرامن طریقے سے بحفاظت رہنا ممکن نہیں ہے۔ افغانستان نہ صرف پاکستان سمیت دنیا بھر کے شہریوں سے ویزے کا مطالبہ کرتا ہے بلکہ وہاں قیام کا جواز بھی پوچھتا ہے لیکن وہی افغانستان اور وہاں کی حکومت ہم سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ ہم غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہونے والے افغان شہریوں کو کچھ نہ کہیں اور انہیں قانونی دستاویزات کی تکمیل اور باقاعدہ افغان پاسپورٹ اور پاکستانی ویزا حاصل کر کے دوبارہ آنے کیلئے واپس بھی نہ بھجوائیں اور یہاں انہیں پناہ گزین کیمپوں تک محدود بھی نہ کریں۔ یہ سراسر غیر قانونی وغیر اخلاقی مطالبہ ہے۔ ایک دنیا جانتی ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی سمیت سنگین جرائم میں زیادہ تر غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی باشندے ہی ملوث رہے ہیں۔ ہماری ملکی تاریخ میں پہلی بار کسی حکومت نے دلیرانہ فیصلہ کرتے ہوئے غیر قانونی تارکین وطن کو واپس بھجوانے کا فیصلہ کیا ہے جس پر بھرپور عملدرآمد بھی جاری ہے اور ملک بھر میں غیر قانونی طور پر مقیم باشندوں کاوطن واپسی کا سلسلہ جاری ہے۔ تادم تحریر 2 لاکھ 7 ہزار 758 غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم افغان باشندے اپنے آبائی وطن واپس جا چکے ہیں۔ روزانہ ہزاروں غیر رجسٹرڈ افغان شہریوں کی بذریعہ طورخم اور چمن بارڈر ان کے ملک میں واپسی عمل میں لائی جا رہی ہے۔ بدھ کے روز 4 ہزار 119 غیر قانونی مقیم افغان باشندے اپنے ملک واپس گئے۔
افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد وہاں حالات پُرامن ہیں اور اب اخلاقی طور پر تمام رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو بھی اپنے واطن واپس چلا جانا چاہئے؛ تاہم فی الحال خبر یہ ہے کہ نگران حکومت نے رجسٹرڈ افغان مہاجرین کے رجسٹریشن کارڈ کی مدتِ میعاد میں چھ ماہ کی توسیع کر دی ہے تاکہ وہ قانونی طریقے سے اور اپنی مرضی کے ساتھ وطن واپسی کا بروقت اور صحیح فیصلہ کر سکیں۔ رجسٹرڈ مہاجرین کے کارڈ کی مدت 30 جون کو ختم ہو گئی تھی۔ پی او آر میں توسیع کا اطلاق یکم جولائی سے 31 دسمبر 2023ء تک کیلئے ہو گا۔ نگران وفاقی کابینہ نے وزارتِ سیفران کی جانب سے پیش کی گئی سمری کی سرکولیشن کے ذ ریعے منظوری دی جبکہ وزارتِ خارجہ اور وزارتِ داخلہ نے پی او آر کی مدت بڑھانے کی سفارش کی۔
موجودہ حکومت کی جانب سے ٹھوس اقدامات کے ساتھ ساتھ پہلی بار جامع موقف بھی سامنے آیا ہے ورنہ اس سے قبل ہم ہمیشہ مصلحتوں کا شکار ہی چلے آ رہے تھے جس کا خمیازہ قوم دہشت گردی اور دیگر سنگین جرائم کی صورت میں بھگت رہی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ہماری معیشت بھی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ گزشتہ روز نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے حکومت کا موقف واضح کیا اور کہا کہ افغان عبوری حکومت آنے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی بڑھی ہے، ملک میں بدامنی پھیلانے کے ذمہ دار غیر قانونی تارکین وطن ہیں۔ پاک افغان تعلقات مشترکہ مذہب اور بھائی چارے پر مبنی ہیں، پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کی چار دہائیوں تک میزبانی کی؛ تاہم گزشتہ دو سال میں افغان سرزمین سے دہشت گردانہ کارروائیوں میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔ عبوری افغان حکومت کے آنے کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردی میں 60 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ گزشتہ بیس خودکش حملوں میں سے 15 میں افغان شہری ملوث تھے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بھی غیر قانونی مقیم افراد کی پاکستان مخالف سرگرمیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ نگران وزیراعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم 20 لاکھ افراد بشمول رجسٹریشن کارڈز کے حامل افغان پناہ گزینوں کو پاکستان سے واپس نہیں بھیج رہے بلکہ اب تک 2 لاکھ 52 ہزار غیر قانونی افغان شہری ہی واپس گئے ہیں۔ میڈیا پر خبروں میں جب قانونی طور پر مقیم پناہ گزینوں کے خلاف آپریشن کا ذکر ہوا تو بلوچستان کے نگران وزیر اطلاعات جان محمد اچکزئی نے عالمی میڈیا سے بات کرتے ہوئے واضح کیا کہ یہ کارروائی ان لوگوں کے خلاف ہے جو غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم ہیں جبکہ قانونی طور پر پاکستان میں رہائش پذیر افراد کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ جن پناہ گزینوں کے پا س پی او آر کارڈ موجود ہیں‘ بشرطیکہ وہ جعلی نہ ہوں اور اگر وہ زائد المیعاد ہوئے‘ تب بھی ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو گی؛ تاہم جنہوں نے جعلی پی او آر کارڈ بنا رکھے ہیں ان کے خلاف ضرور آپریشن کیا جائے گا۔
پاکستان نے ہر طرح کے مشکل حالات میں افغانستان کا ساتھ دیا‘ دہشتگردوں کی فہرست افغان عبوری حکومت کو بھیجی گئی، پاکستان نے اب داخلی معاملات کو درست کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ ملک میں بدامنی پھیلانے میں زیادہ ہاتھ غیر قانونی تارکین وطن کا ہے۔ غیر ملکیوں کو عزت کیساتھ واپس جانے کے پہلے بھی متعدد مواقع فراہم کیے گئے۔ اب پُرامید ہیں کہ افغان حکومت بھی واپس جانے والوں کیلئے احسن اقدامات کرے گی۔ نگران وزیراعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ مریکی اسلحہ اب بھی بلیک مارکیٹ میں فروخت ہو رہا ہے‘ اس کے شواہد سامنے آ چکے ہیں۔ ڈیڑھ لاکھ افغان ملٹری تھی‘ اس کا اسلحہ کہاں گیا؟ یہ امریکی اسلحہ مشرقِ وسطیٰ تک جا رہا ہے۔ گزشتہ دو سال میں سرحد پار سے دہشت گردی کی وجہ سے دو ہزار سے زائد پاکستانی شہید ہوئے، افغان عبوری حکومت کو یہ ادراک ہونا چاہیے کہ دونوں ریاستیں خود مختار ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان سے وزیر دفاع کی سربراہی میں اعلیٰ سطح پر وفد افغان حکومت سے ملاقات کیلئے گیا جس میں آئی ایس آئی کے سربراہ بھی موجود تھے جبکہ اس سے قبل بھی رسمی اور غیر رسمی طریقے سے مختلف وفود افغانستان جا چکے ہیں‘ اگر اس کے باوجود وہاں سے مثبت اشارے یا اقدامات نہ آئیں تو پاکستان بھی اپنے رویے پر نظر ثانی کرے گا۔
پاکستان کے واضح مؤقف کے بعد افغان حکومت کے لہجے میں بھی فرق نظر آیا اور ترجمان امارتِ اسلامیہ افغانستان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ہم اپنے ملک کی طرح پاکستان میں بھی امن کے خواہاں ہیں۔ امارتِ اسلامیہ کسی کو افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بدامنی کے واقعات اس بات کی دلیل نہیں کہ اس کے پیچھے افغانستان ہے۔ افغانستان میں اسلحہ محفوظ ہے‘ کسی غیر ذمہ دار کے ہاتھ نہیں لگا۔ یہاں اسلحے کی سمگلنگ ممنوع ہے‘ ہر غیر قانونی اقدام کی روک تھام کی گئی ہے۔ افغانستان برادر اور پڑوسی کی طرح پاکستان سے اچھے تعلقات چاہتا ہے۔ پاکستان کو بھی امارتِ اسلامیہ کی حسنِ نیت کا ادراک کرنا چاہیے۔ ہم کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور کسی کے خلاف اقدامات نہیں چاہتے، ہمارے عزم پر کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل افغان قیادت غیرقانونی تارکین وطن کو واپس بھجوانے کے مسئلے پر دھمکی آمیز لہجہ استعمال کر رہی تھی اور ایک اعلیٰ عہدیدار کا یہ بھی بیان آیا تھا کہ پاکستان کو افغان پناہ گزینوں کو بے دخل کرنے پر سنگین نتائج بھگتنا پڑ سکتے ہیں۔ دنیا کو اس معاملے میں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جن افراد کو ان کا اپنا ملک قبول کرنے کو تیار نہیں، انہیں پاکستان جیسا پُرامن ملک کب تک اپنا سکون تباہ کرنے کیلئے غیر قانونی پناہ دے سکتا ہے؟ نگران حکومت اور قومی اداروں کی جانب سے غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کے انخلا کا فیصلہ قابل تحسین ہے۔ کا ش یہ قدم کوئی پہلے اٹھا لیتا تو آج یہاں اس قدر سیاسی و معاشی مسائل نہ ہوتے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں