ٹریفک حادثات‘ اقدامات اور ہماری ذمہ داری

ہم نے ایک روایت ہی بنا لی ہے کہ کسی بھی شعبے میں جب تک خدانخواستہ کوئی بڑا حادثہ بلکہ سانحہ رونما نہیں ہو جاتا‘ اس وقت تک احتیاطی تدابیر اختیار کرنے یا قوانین پر عمل کرنے کے حوالے سے سنجیدہ نہیں ہوتے۔ 2005ء میں ملک کے بالائی علاقوں میں قیامت خیز زلزلہ آیا تو اس کے بعد ہم این ڈی ایم اے جیسے ادارے بنانے یا ان کی ضرورت کے حوالے سے سوچا۔ اسی طرح مون سون کا موسم ہر سال آتا ہے لیکن جب تک خدانخواستہ کسی شہر میں سیلابی صورتحال درپیش نہ ہو‘ اس وقت احتیاطی اقدامات نہیں کیے جاتے۔ ملکۂ کوہسار مری ایک برفانی پہاڑی علاقہ ہے جہاں برف باری کے نظاروں سے لطف اندوز ہونے کے لیے ہر سال ملک بھر سے لاکھوں سیاح جاتے ہیں لیکن تقریباً دو برس قبل شدید برف باری سے راستے بند ہونے کے سبب متعدد قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوئیں تو اس کے بعد حکومت کو حفاظتی اقدامات کا خیال آیا اور مری کو الگ انتظامی ضلع بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ بالکل اسی طرح گزشتہ دنوں لاہور میں چودہ سالہ‘ بغیر لائسنس کم عمر ڈرائیور کے ہاتھوں چھ قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کے بعد حکومت اور متعلقہ اداروں کو خیال آیا کہ کم عمر ڈرائیوروں کے خلاف کارروائی شروع کی جائے۔ شاید حکومتی سطح پر یہ بھی نہ ہوتا اور متاثرہ خاندان پر دبائو ڈال کر معاملہ دبا دیا جاتا لیکن لاہور ہائیکورٹ نے بغیر لائسنس اور کم عمر ڈرائیوروں کے خلاف مقدمات کے اندراج اور گرفتاری کا فیصلہ جاری کر دیا جس سے اس معاملے کی حساسیت نمایاں ہوئی اور خدا خدا کر کے پولیس سمیت متعلقہ ادارے متحرک ہو گئے۔
گزشتہ روز عدالت عالیہ لاہور نے ایک اور اہم فیصلہ دیا کہ کسی علاقے میں کم عمر بچے نے روڈ ایکسیڈنٹ کیا تو اس کا ذمہ دار متعلقہ ایس ایچ او ہو گا۔ دوسری جانب لاہور میں کار کی ٹکر سے ایک ہی خاندان کے چھ افراد کے جاں بحق ہونے کے مقدمے میں پولیس نے اپنی رپورٹ عدالت میں جمع کرا دی۔ پولیس رپورٹ میں بتایا گیا کہ عدالتی حکم پر لائسنس نہ رکھنے والوں کے خلاف کارروائیاں کی جا رہی ہیں اور تمام ایس پیز کو احکامات جاری کر دیے گئے ہیں، لائسنس کے بغیر گاڑی چلانے والوں کے خلاف آپریشن کیا جا رہا ہے، اس آپریشن میں ڈولفن فورس سمیت دیگر فورسز کے اہلکار حصہ لے رہے ہیں۔ پولیس نے مقدمہ مدعی کا بیان بھی تحریری شکل میں عدالت میں پیش کیا جس میں بتایا گیا کہ مدعی کے بیان پر مقدمے میں دہشت گردی سمیت دیگر دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔ دہشت گردی کی دفعات شامل ہونے پر ملزم کو دہشت گردی عدالت پیش کیا گیا اور اے ٹی سی کورٹ سے 23 نومبر تک ملزم کا جسمانی ریمانڈ حاصل کرنے کے بعد تفتیش کا عمل جاری ہے۔ عدالت عالیہ نے قرار دیا کہ کسی علاقے میں کم عمر بچے نے اب روڈ ایکسیڈنٹ کیا تو اس کا ذمہ دار متعلقہ ایس ایچ او ہو گا، بغیر لائسنس گاڑی چلانے والوں کے خلاف بلا تفریق کارروائیاں جاری رکھی جائیں۔ کوئی پولیس اہلکار کسی شہری کے ساتھ زیادتی نہ کرے، اگر کوئی اہلکار کسی شہری کے ساتھ زیادتی کرتا پکڑا گیا تو اس اہلکار کے خلاف بھی کارروائی ہو گی۔
ٹریفک حادثات کا جائزہ لیا جائے تو عموماً ان کے پیچھے انسانی غلطی کارفرما ہوتی ہے جس پر تھوڑی سی احتیاط سے قابو پایا جا سکتا ہے۔ ٹریفک حادثات کی بڑی وجوہات میں سڑکوں کی خستہ حالی، اوور لوڈنگ، ون وے کی خلاف وزری، اوور ٹیکنگ، اشارہ توڑنا، غیر تربیت یافتہ ڈرائیور، دورانِ ڈرائیونگ موبائل فون کا استعمال، نو عمری میں بغیر لائسنس کے ڈرائیونگ، بریک کا فیل ہو جانا اور زائد المیعاد ٹائروں کا استعمال شامل ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق حادثات کی سب سے بڑی وجہ سڑک پر اترنے والوں کا جلدباز رویہ ہے۔ تقریباً 90 فیصد ٹریفک حادثات تیز رفتاری اور غیر محتاط رویے کی وجہ سے پیش آتے ہیں مگر اس کے باوجود ہم اپنے رویوں میں تبدیلی لانے کے لیے قطعاً تیار نہیں اور یہی جان لیوا حادثات اورٹریفک مسائل کی ایک بنیادی وجہ ہے۔ ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ گاڑیوں کے لیے تو موٹر وہیکلز قوانین موجود ہیں مگر آہستہ چلنے والی گاڑیاں (سلو موونگ وہیکلز) مثلاً گدھا و بیل گاڑی اور تانگہ وغیرہ کیلئے کوئی قانون نہیں۔ اس وجہ سے روڈ استعمال کرنے والے یہ لوگ قانون سے نہ صرف بالاتر ہیں بلکہ ٹریفک حادثات کی ایک بڑی وجہ بھی ہیں۔ ان افراد کو تربیت دینے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ان کو سڑک استعمال کرنے سے متعلق مکمل آگاہی حاصل ہو سکے ۔ملک بھر میں ہر شہر اور گائوں میں نو عمر لڑکے حتیٰ کہ بچے بھی موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں دوڑاتے نظر آتے ہیں، وہ پُرجوش رویے کی وجہ سے ٹریفک قوانین کی پاسداری نہیں کرتے اور ٹریفک اشاروں، قوانین اور اصولوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ قانونی عمر کو پہنچنے کے باوجود اکثر نوجوان ٹریفک معاملات میں تربیت یافتہ نہیں ہوتے اور ان میں موجود تیز رفتاری سے گاڑی چلانے کا جنون بے شمار حادثات کا باعث بنتا ہے۔ موٹر سائیکل رکشہ چلانے والے اکثر ڈرائیور نابالغ اور نوآموز ہیں جن کے پاس ڈرائیونگ لائسنس تک نہیں ہوتا۔ ٹریفک قوانین سے لاعلمی کے باعث وہ نہ صرف اپنی بلکہ دوسروں کی زندگی بھی دائو پر لگا دیتے ہیں۔ اسی طرح بہت سے لوگ اپنے گھروں کے سامنے غیر معیاری سپیڈ بریکرز بنا کر ٹریفک حادثات کا سبب بنتے ہیں۔
کمرشل گاڑیوں (ڈمپر‘ ٹرک وغیرہ) کے ڈرائیور حضرات تو جیسے رن وے پر طیارے دوڑا رہے ہیں، وہ سڑک پر چھوٹی سواریوں کا بالکل خیال نہیں کرتے۔ اکثر اوقات ٹرکوں‘ بسوں کی ریسیں اور تیز رفتاری بڑے حادثات کا سبب بنتی ہے۔ اس کے علاوہ حال ہی میں سامنے آنے والا لوڈر رکشہ بھی بڑی سطح پر حادثات کا باعث بن رہا ہے جو دور سے دیکھنے پر موٹر سائیکل معلوم ہوتا ہے، خصوصاً رات کے وقت اس کے پیچھے سامان والا حصہ بالکل نظر نہیں آتا اور نہ ہی اس پر کوئی انڈیکیٹر یا اشارے لگے ہوتے ہیں۔ روڈ کے اطراف‘ مارکیٹوں کی ناجائز تجاوزات اور گاڑیوں کی غلط پارکنگ بھی ٹریفک حادثات کا باعث بنتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک روڈ سیفٹی رولز اور ٹریفک قوانین پر مؤثر عمل درآمد، سٹرکوں کی تعمیر اور گاڑیوں کو محفوظ بنا کر ٹریفک حادثات میں نمایاں کمی لا چکے ہیں لیکن ہمارے ملک میں روڈ سیفٹی کے قوانین موجود تو ہیں لیکن ان سے متعلق آگاہی نہیں۔ اس لیے پہلے آگاہی دینے اور پھر ان پر مکمل عملدرآمد کرانے کی ضرورت ہے۔ اگر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب افراد کو قرار واقعی سزا دی جائے تو ٹریفک حادثات کی شرح میں نمایاں کمی ممکن بنائی جا سکتی ہے۔
عدالتی احکامات پر اس وقت کم عمر اور بغیر لائسنس ڈرائیوروں کے خلاف جو کارروائی شروع کی گئی ہے‘ اس پر عمل درآمد کو یقینی بنانا حکومت اور متعلقہ اداروں کی ذمہ داری ہے۔ اس کے لیے صرف روڈ سیفٹی ایجوکیشن ہی کافی نہیں بلکہ جامع اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ روڈ سیفٹی کو یقینی بناکر حادثات کی شرح میں خاطر خواہ کمی لائی جا سکے۔ بغیر لائسنس گاڑی چلانے پر سخت سزائیں دینے کے علاوہ کم عمر بچوں کے والدین کو بھی سزا کا مستحق ٹھہرایا جانا چاہیے تاکہ کم عمر اور نو آموز ڈرائیوروں کی حوصلہ شکنی ہو سکے۔ ٹریفک سے متعلق شعورکی بیداری کے لیے نصاب میں ٹریفک قوانین سے متعلقہ مضامین شامل کرنا چاہئیں تاکہ مستقبل میں ٹریفک حادثات سے بچا جا سکے۔ اس حوالے سے عدالتی احکامات اور حکومتی اقدامات اپنی جگہ‘ یہ شہریوں کی بھی قومی ذمہ داری ہے کہ وہ از خود ٹریفک قوانین کی پاسداری کریں اور سڑکوں کو حادثات سے محفوظ بنانے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ والدین کو چاہئے کہ کم عمر بچوں کو گاڑی یا موٹرسائیکل چلانے کی اجازت قطعاً نہ دیں اور بالغ ہونے کے بعد بھی ان کو اپنی نگرانی میں باقاعدہ تربیت دیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں