پاکستان میں تنخواہ دار طبقہ سب سے مظلوم طبقہ قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ کسی بھی شخص (سرکاری یا نجی ملازم) کی ماہانہ اجرت (تنخواہ) تو محدود اور مخصوص ہوتی ہے جبکہ مہنگائی میں ہوشربا اضافے کے باعث اخراجات اور ضروریات مسلسل بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔ اب صورتحال اس قدر پیچیدہ ہوچکی ہے کہ ہم ایک دن مارکیٹ سے ایک چیز خریدتے ہیں مگر جب چند روز بعد وہی شے لینے دوبارہ بازار جاتے ہیں تو اس کے نرخ بڑھ چکے ہوتے ہیں۔ اگر دکاندار سے قیمت میں اضافے کا شکوہ کیا جائے تو اس کے پاس پٹرولیم مصنوعات، یوٹیلیٹی بلز ، خام مال اور ٹیکسوں کی بھرمار سمیت متعدد جواز موجود ہوتے ہیں جو آدمی کو لاجواب اور بے بس کر دیتے ہیں۔ قبل ازیں ملک میں نصف سے زائد ملازمت پیشہ افراد کی تنخواہ بنیادی تنخواہ کے آس پاس یعنی 20 ہزار روپے ماہانہ یا اس سے بھی کم تھی۔ حکومت کی جانب سے اب ماہانہ بنیادی تنخواہ 32 ہزار روپے کر دی گئی ہے لیکن اس پر نجی شعبے میں ابھی تک‘ ایک محتاظ اندازے کے مطابق‘ صرف 20 فیصد ہی عمل درآمد ہو سکا ہے جبکہ بہت سارے نجی اداروں میں تنخواہوں کی تاخیر سے ادائیگی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہمارے ادارے میں مذکورہ دونوں مسائل نہیں ہیں بلکہ آج تک تاخیر سمیت ایسا کوئی مسئلہ درپیش نہیں آیا لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ نجی اداروں کے ملازمین متعدد مسائل کا شکار ہیں۔ نجلی تعلیمی ادارے بھی اس مسئلے سے دوچار ہیں۔ میرے علم کے مطابق چند بڑے اور معتبر تعلیمی اداروں کے علاوہ آج بھی متعدد اداروں میں کم از کم بنیادی تنخواہ کے حکومتی فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ اگر اپنے شہر راولپنڈی کی بات کروں تو ایسے ہزاروں چھوٹے نجی تعلیمی اداروں سے متعلق بتا سکتا ہوں جن میں ماسٹرز، ایم فل اور پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈر اعلیٰ تعلیم یافتہ (مرد و خواتین) اساتذہ کم ازکم ماہانہ اجرت یعنی 32 ہزار روپے سے بہت کم تنخواہ پر کام کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ کسی ایک شہر کی بات نہیں‘ پورے ملک میں ایسے ہی حالات ہیں۔ اس حوالے سے ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسے ادارے اپنے دفتری ریکارڈ میں ملازمین کی زیادہ تنخواہیں ظاہر کرتے ہیں لیکن ادائیگی کم کی جاتی ہے۔
یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ تنخواہ کم ہو یا زیادہ‘ جس شخص کی جتنی آمدنی ہو گی‘ وہ اسی حساب سے اپنا رہن سہن اور گھریلو بجٹ مرتب کرتا ہے۔ اس لیے کسی کی تنخواہ 32 ہزار روپے ہو یا 3 لاکھ روپے‘ موجودہ حالات میں اخراجات کو پورا کرنے کے بعد بچت کرنا انتہائی مشکل بلکہ ناممکن ہو چکا ہے کیونکہ جن کی تنخواہ کم ہے‘ ان کا رہن سہن بھی سادہ ہوتا ہے اور جن کی آمدنی زیادہ ہوتی ہے تو ان کے اخراجات بھی اسی تناسب سے زیادہ ہوتے ہیں۔ پھر پاکستان میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں تاجر، صنعتکار، کسان اور دیگر کاروباری طبقے اپنی آمدن کے مطابق ٹیکس نہیں دیتے اور بہت کم ایسے ادارے یا شعبے ایسے ہیں جو اپنے حصے کا 100 فیصد ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ ملک میں سرکاری و نجی تنخواہ دار ملازمین غالباً وہ واحد طبقہ ہیں جو 100 فیصد ٹیکس ادا کر رہے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ٹیکس جمع کرنے والے اداروں اور محکموں کا سب سے آسان ہدف ہیں۔ ایف بی آر سمیت کسی بھی ادارے کو اس ہدف تک پہنچنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی اور مقرر کردہ تنخواہوں سے ماہانہ بنیاد پر ٹیکس‘ تنخواہ کی ادائیگی سے قبل ہی منہا کر لیا جاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ زراعت، صنعت اور تجارت سمیت رئیل اسٹیٹ اور دیگر شعبوں پر مختلف شرح سے ٹیکس وصول کیا جاتا اور تنخواہ دار طبقے کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دیاجاتا لیکن یہاں گنگا ہمیشہ الٹی بہتی ہے اور متعلقہ ادارے بڑے بڑے ٹیکس چوروں کو تو پکڑنے میں ناکام رہتے ہیں لیکن ہمیشہ ٹیکس ہدف کی کمی کو تنخواہ دار ملازمین سے پورا کیا جاتا ہے۔
بدقسمتی سے عالمی مالیاتی ادارے بھی نفع بخش کاروباروں کے بجائے سرکاری و نجی ملازمین کی تنخواہوں پر ٹیکس لگانے کی سفارشات پیش کرتے رہتے ہیں جن پر حکومت کی جانب سے من و عن عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ رواں مالی سال کے بجٹ میں بھی ورلڈ بینک کی سفارش پر تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کی شرح میں اضافے کا فیصلہ ہوا تھا؛ تاہم پھر خبر آئی کہ ورلڈ بینک نے 50 ہزار روپے سے کم تنخواہ والوں پر ٹیکس لگانے کی سفارش واپس لے لی ہے۔ ترجمان ورلڈ بینک کی جانب سے کہا گیا کہ ورلڈ بینک نے 50 ہزار روپے ماہانہ سے کم آمدنی پر ٹیکس لگانے کی انتہائی متنازع سفارش پر اپنی پوزیشن واضح کر دی ہے، یہ سفارش 2019ء کے اعداد و شمار پر مبنی تھی جسے حالیہ مہنگائی اور لیبر مارکیٹ کے حالات کی روشنی میں اَپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے، عالمی بینک یقینی طور پر موجودہ ٹیکس حد میں کسی کمی کی سفارش نہیں کرتا۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ ہم انکم ٹیکس میں چھوٹ کیلئے کسی خاص نئی سطح کی سفارش نہیں کر رہے، عالمی بینک نے اس سطح کا اندازہ لگانے کیلئے تازہ سروے کرنے کی تجویز دی ہے اور ٹیکس کی حدوں میں مناسب تبدیلیوں کا اندازہ نئے سروے کے اعداد و شمار کی بنیاد پر کیا جانا چاہیے اور مناسب تبدیلیاں کم آمدنی کے تحفظ کیلئے ڈیزائن کی جانی چاہئیں۔ واضح رہے کہ وزارتِ خزانہ کے اعداد و شمار کے مطابق پسماندہ تنخواہ دار طبقے نے امیر ترین برآمدکنندگان اور رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے تین ماہ میں ادا کئے گئے مشترکہ ٹیکسوں سے زیادہ ٹیکس ادا کیا ہے۔
ایف بی آر سمیت متعلقہ اداروں کو چاہئے کہ ٹیکس نیٹ میں اضافے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں۔ رئیل اسٹیٹ کے شعبے میں چھوٹے گھریلو پلاٹوں پر ٹیکس کی شرح کم رکھی جائے؛ تاہم بڑے اور کمرشل پلاٹوں پر ٹیکس شرح بڑھائی جا سکتی ہے۔ اسی طرح چھوٹی گاڑیوں اور پبلک ٹرانسپورٹ پر ٹیکس کم سے کم لگایا جائے یا پبلک ٹرانسپورٹ اور چھوٹی سواریوں کو چھوٹ دی جائے تاکہ عام طبقے پر بوجھ نہ پڑے؛ تاہم بڑی اور لگژری گاڑیوں پر ٹیکس شرح میں اضافہ کرکے خسارہ پورا کیا جا سکتا ہے۔ حکومت کو اشیائے خور و نوش، اجناس اور دیگر اشیائے ضروریہ پر بھی ٹیکسوں میں چھوٹ دینی چاہئے اور ان کے مقابلے میں سگریٹ، مشروبات، غیر ضروری آئٹمز اور سامانِ تعیش پر زیادہ سے زیادہ ٹیکسز لگانے چاہئیں۔ اسی طرح پاکستان میں اکثر لوگ حج، عمرہ اور حصولِ روزگار کے لیے ہوائی سفر کرتے ہیں لہٰذا حکومت کو چاہئے کہ اکانومی کلاس پر ٹیکس کی شرح کم کرے اور اس کے مقابلے میں بزنس کلاس میں سفر کرنے والوں سے زیادہ ٹیکس وصول کیا جا سکتا ہے، اسی طرح سال میں ایک سے زائد بار بیرونی ممالک کا سفر کرنے والے افراد پر ویلتھ ٹیکس عائد کیا جا سکتا ہے۔
ورلڈ بینک نے پاکستان کے معاشی حالات اور عام آدمی کے مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے سالانہ چھ لاکھ روپے آمدن والوں پر ٹیکس کی تجویز واپس لے لی ہے لیکن ابھی تک ہمارے اپنے اربابِ اختیار کو تنخواہ دار طبقے کے مسائل کا ادراک نہیں ہو سکا۔ حکومت کو چاہئے کہ پچاس ہزار روپے سے کم آمدن والے ملازمین کو زیادہ سے زیادہ مراعات اور ریلیف فراہم کرے جبکہ اس سے زیادہ تنخواہ والے افسران و ملازمین کے لیے بھی ٹیکس کی شرح مناسب رکھے اور انہیں مراعات فراہم کرے کیونکہ محدود و مخصوص آمدن کے باعث موجودہ حالات اور مہنگائی کی شرح میں روز بروز اضافے نے ہر شہری کو پریشان کر رکھا ہے۔ جن کی تنخواہ بظاہر زیادہ نظر آتی ہے وہ بھی اس وقت مہنگائی کے ہاتھوں مجبور ہو چکے ہیں جبکہ چھوٹے ملازمین اور محدود آمدنی والے افراد کے لیے تو روزمرہ کے اخراجات پورے کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو چکا ہے لہٰذا عام آدمی پر ٹیکسوں کا بوجھ کم سے کم کرنے کے ساتھ تنخواہوں میں بھی مہنگائی کی شرح سے اضافہ کیا جانا چاہئے اور جو ادارے کم از کم مقررہ اجرت کے قانون پر عمل درآمد نہیں کر رہے‘ ان کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہئے۔ ٹیکس ہدف کو پورا کرنے کے لیے سارا بوجھ تنخواہ دار طبقے پر لادنے کے بجائے حکومت اور متعلقہ اداروں کو ایسے شعبوں پر توجہ دینی چاہیے جہاں تاحال ٹیکس نہ دینے کا رجحان ہے۔