ہر سال کی طرح پاکستان سمیت دنیا بھر میں دو روز قبل (9 دسمبر کو) عالمی یومِ انسدادِ بدعنوانی (ورلڈ اینٹی کرپشن ڈے) منایا گیا۔ یہ دن منانے کا مقصد معاشرے سے کر پشن و ناانصافی کا خاتمہ اور ہر کام میرٹ کے مطابق کرنے کا عہد کرنا ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ عوام میں بڑھتی ہوئی مایوسی اور ناامیدی کو ختم کیا جائے، قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا جائے اور کوئی بھی شخص قانون سے بالاتر نہیں ہونا چاہیے۔ دیکھا جائے تو کرپشن اب ہمارے معاشرے کا حصہ بنتی جا رہی ہے۔ والدین، اساتذہ اور سول سوسائٹی سمیت ہر طبقہ ہائے فکر خصوصاً میڈیا کو اس کے خلاف بھرپور تحریک چلانی چاہیے۔ اس وقت عالم یہ ہے کہ پبلک کو ڈیل کرنے والے شاید ہی کسی سرکاری محکمے کو صاف اور شفاف قرار دیا جا سکے۔ خود قانون نافذ کرنے اور انسدادِ رشوت ستانی کے محکمے بھی بدعنوانی کے الزامات سے بری نہیں ہیں۔ انسدادِ کرپشن کے لیے متعدد اقدامات کے دعووں کے باوجود صورت حال میں ذرہ برابر بھی بہتری نہیں آ سکی اور رواں سال بھی بدعنوانی میں 180 ممالک کی فہرست میں پاکستان 140ویں نمبر پر موجود ہے۔
وطن عزیز میں ہم ہمیشہ سے یہ باتیں سنتے چلے آ رہے ہیں کہ رشوت ستانی قابلِ نفرت ہے یا یہ کہ اس برائی کے خاتمے کیلئے ہم سب کو مل کر کوششیں کرنا ہوں گی، سیاستدان بھی ہمیشہ دوسروں پر کرپشن کے الزامات لگاتے رہتے اور اس برائی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا اعادہ کرتے ہیں لیکن جب وہ اقتدار میں آتے ہیں تو پھر خود بھی اس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ماضی میں ہر سیاسی جماعت نے کرپشن کے خاتمے، انصاف کی فراہمی اور میرٹ پر کام کرنے کے دعوے کیے لیکن آج تک کسی ایک حکومت نے بھی اس حوالے سے ٹھوس عملی اقدامات نہیں کیے۔ اگر ہم واقعی ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں اپنا احتساب کرنا ہو گا، اس کے بعد ہی ہم دوسروں سے بہتری کی توقع کر سکتے ہیں۔ جب تک ہم اپنے پیروں پر پانی نہیں پڑنے دیں گے اور صرف دوسروں پر تنقید اور دوسروں کے احتساب کا مطالبہ کرتے رہیں گے‘ اس وقت تک کچھ حاصل نہیں ہو گا اور ہمارے سرکاری اداروں سے اس برائی کا خاتمہ ممکن نہیں ہو گا۔
ایف بی آر کے اعلیٰ ترین عہدیداران یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ ان کے محکمے میں سالانہ 5 سو سے 6 سو ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے، یہ تو صرف ایک محکمے کی صورتِ حال ہے، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ میں پولیس اور عدلیہ کو پاکستان کے بدعنوان ترین اداروں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ مذکورہ رپورٹ یہ ظاہرکرتی ہے کہ پاکستان میں عدلیہ جیسا معزز ادارہ بھی کرپشن کے الزامات سے پاک نہیں ہے۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں اسے پاکستان کے ٹاپ تھری کرپٹ اداروں میں شمار کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق عوامی نظر میں پولیس سب سے زیادہ کرپٹ ادارہ ہے، اس کے بعد سرکاری ٹھیکوں کے لین دین میں کرپشن ہوتی ہے جس کے بعد عدلیہ کا نمبر آتا ہے۔ تعلیم کا شعبہ چوتھے اور صحت پانچواں کرپٹ ترین شعبہ سمجھا جاتا ہے۔ بلدیاتی ادارے، محکمہ مال، کسٹم، ایکسائز اور انکم ٹیکس کے شعبے بھی بدعنوان محکموں میں سرفہرست ہیں۔ پبلک سروس کی مد میں عدلیہ میں رشوت کا اوسط خرچ سب سے زیادہ یعنی 25 ہزار 846 روپے ہے۔ اگر صوبوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو خیبر پختونخوا میں اوسط رشوت ایک لاکھ 62 ہزار روپے تک ریکارڈ کی گئی۔ پنجاب میں اوسط شہری نے 21 ہزار 186 روپے رشوت ادا کی اور یہ محکمہ پولیس کو دی گئی جبکہ بلوچستان میں صحت کی سہولتوں کے لیے زیادہ سے زیادہ اوسط رشوت دی گئی جو 1 لاکھ 60 ہزار روپے ہے۔ National Corruption Perception Survey(این سی پی ایس) 2023ء کے مطابق 68 فیصد پاکستانیوں کو یقین ہے کہ نیب، ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن جیسے ادارے انسدادِ بدعنوانی کے بجائے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ سروے کے مطابق 60 فیصد پاکستانی سمجھتے ہیں کہ انسدادِ کرپشن اور احتساب کے ادارے بدعنوانی کا خاتمہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ 75 فیصد شہری سمجھتے ہیں کہ پرائیویٹ سیکٹر کے پاس بہت طاقت اور اثر و رسوخ ہے جس سے کرپشن ہوتی ہے۔ 36 فیصد شہریوں کے مطابق اینٹی کرپشن کے محکمے غیر مؤثر ہیں۔ صوبائی سطح پر سندھ میں 42 فیصد، خیبر پختونخوا میں 43 فیصد، بلوچستان میں 47 فیصد افراد یہ سمجھتے ہیں کہ میرٹ پر کام نہیں ہوتے۔ پنجاب میں 47 فیصد افراد سمجھتے ہیں کہ افسر شاہی ریاستی اداروں کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرتی ہے اور یہی پاکستان میں کرپشن کی بڑی وجہ ہے۔ 55 فیصد افراد کی رائے ہے کہ حکومت کو فوری طور پر سرکاری افسران کے اثاثوں کو پبلک کرنا چاہیے اور اپنی ویب سائٹس پر ان کا اظہار یقینی بنانا چاہیے۔ 45 فیصد افراد کا خیال ہے کہ احتساب عدالتوں کو کرپشن کے مقدمات 30 دن اندر نمٹانے چاہئیں۔ قومی سطح پر 47 فیصد شہریوں کی رائے ہے کہ کرپشن پاکستان کی ترقی کا راستہ روکنے کی بڑی وجہ ہے۔ 62 فیصد پاکستانیوں کا خیال ہے کہ کرپشن ماحولیاتی تباہی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو بڑھانے کی بھی وجہ ہے جبکہ 67 فیصد افراد محسوس کرتے ہیں کہ صوبائی اور مقامی حکومتیں ماحولیاتی پالیسیاں بناتے ہوئے ان کے خیالات کو اہمیت نہیں دیتیں۔ اہم بات یہ ہے کہ قومی سطح پر 76 فیصد پاکستانیوں نے کبھی ''رائٹ ٹو انفارمشین‘‘ کے تحت کوئی درخواست نہیں دی۔
ورلڈ اینٹی کرپشن ڈے کے حوالے سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور اس کے جڑواں شہر راولپنڈی کو ملانے والی مرکزی شاہراہ مری روڈ محکمہ اینٹی کرپشن، نیب اور انسدادِ رشوت ستانی کے دیگر اداروں اور محکموں کے بینروں سے بھری ہوئی تھی جن میں سے زیادہ تر بینرز پر ''Say no to corruption‘‘ نمایاں طور پر درج تھا۔ ہمارے دوست ''کاکا‘‘ نے اس سلوگن کی تشریح کرتے ہوئے مزاحیہ انداز میں سوال کیا کہ بدعنوانی کے خاتمے کیلئے اتنے ادارے موجود ہیں اور سبھی ادارے ہر سال اپنی کارکردگی کی طویل فہرست جاری کرتے ہیں لیکن ملک میں کرپشن ختم یا کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھتی کیوں جا رہی ہے؟ جب ہم ہر طرح کے دلائل دینے کے باوجود اسے مطمئن نہ کر سکے تو پھر کاکا خود ہی بولا کہ اس کی وجہ یہ سلوگن ہے جس کا مطلب ہے کہ ''کرپشن کو کچھ نہ کہو‘‘۔
پاکستان میں اگر صرف ان اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے جن سے عام آدمی کا روز واسطہ پڑتا ہے تو سب سے اوپر پولیس ہے‘ جو بظاہر عوام کی حفاظت کا ذمہ دار محکمہ ہے لیکن رشوت ستانی کے باعث ایک عام آدمی پولیس کی موجودگی میں خود کو زیادہ غیر محفوظ بلکہ پولیس کو دہشت کی علامت سمجھتا ہے۔ اسی طرح محکمہ مال میں کرپشن اس قدر ہے کہ عدالتی فیصلوں اور احکامات کے باوجود شہری کا کوئی جائز کام رشوت کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ راقم الحروف خود بھی ایسے تجربے سے گزر رہا ہے کہ سول کورٹ، سیشن کورٹ اور پھر ہائیکورٹ سمیت سبھی عدالتوں سے حق میں فیصلہ ہونے اور متعلقہ ڈپٹی کمشنر کی ہدایات کے باوجود اراضی ریکارڈ سنٹر والے کھلے عام رشوت کا تقاضا کر رہے ہیں اور اس کے بغیر ہائیکورٹ کے احکامات پر عمل درآمد سے صاف انکاری ہیں۔ ضلع کے اے ڈی سی (آر) اور اے ڈی سی (جی) بھی ان کے آگے بے بس معلوم ہوتے ہیں۔
اگرچہ اس وقت ملک میں نگران حکومتیں ہیں مگر یہ قدرے بااختیار حکومتیں ہیں لہٰذا نگران وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو چاہئے کہ کرپشن کے خاتمے کے حوالے سے سخت موقف اور زیرو ٹالرنس پالیسی اپنائیں اور بدعنوان سرکاری اہلکاروں کو نشانِ عبرت بنا کر مثال قائم کریں کیونکہ عام طور پر یہی دیکھا گیا ہے کہ سیاسی حکومتیں مصلحت کا شکار ہو جاتی ہیں مگر نگران حکومتوں کے پائوں میں ایسی کوئی بیڑی نہیں ہے، لہٰذا بدعنوانی کے خاتمے میں نگران حکومتیں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہیں۔