سپریم کورٹ کے فیصلے سے نہ صرف پاکستان میں عام انتخابات کے حوالے سے بے یقینی کی صورتِ حال کا خاتمہ ہوا بلکہ انتخابی عمل کا باقاعدہ آغاز بھی ہو چکا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے قومی و صوبائی اسمبلیوں کا الیکشن لڑنے کے لیے اہلیت کے معیار سے متعلق قواعد جاری کر دیے ہیں جبکہ ملک بھر میں کاغذاتِ نامزدگی کے اجرا کے حوالے سے ریٹرننگ افسران نے پبلک نوٹس جاری کر دیے ہیں۔ ریٹرننگ افسران نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے کاغذاتِ نامزدگی جاری کرنا شروع کر دیے ہیں، قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے امیدواران کے کاغذاتِ نامزدگی کا اجرا بھی شروع ہو گیا ہے۔ کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کا عمل آج (20 دسمبر کو) شروع ہو گا اور 22 دسمبر تک جاری ر ہے گا۔ کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال 24 تا 30 دسمبر ہو گی اور اعتراضات 3 جنوری تک دائر کیے جا سکیں گے جبکہ کاغذاتِ نامزدگی کے خلاف اپیلیں 10 جنوری تک سنی جائیں گی۔ امیدواروں کی نظرِ ثانی شدہ فہرست 11 جنوری 2024ء کو جاری کی جائے گی، 13 جنوری کو امیدواروں کو انتخابی نشان الاٹ کیے جائیں گے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری قواعد و ضوابط کے مطابق قومی اسمبلی کی نشست کے لیے امیدوار پاکستان کا شہری ہو اور 25 سال سے کم عمر نہ ہو، امیدوار پاکستان میں کسی بھی جگہ کا ووٹر ہو سکتا ہے۔ صوبائی اسمبلی کی نشست کے لیے امیدوار کا متعلقہ صوبے کا ووٹر ہونا ضروری ہے، خواتین کی مخصوص نشستوں کے لیے امیدوار کا متعلقہ صوبے کا ووٹر ہونا لازمی ہے۔ امیدوار کی اہلیت و نااہلیت کی تفصیلات آئین کے آرٹیکلز 62 اور 63 میں درج ہیں۔ جنرل نشستوں کے امیدوار کے تجویز و تائید کنندہ کا متعلقہ حلقے کا ووٹر ہونا لازم ہے۔ خواتین اور غیر مسلم مخصوص نشستوں کے تجویز اور تائید کنندگان کا متعلقہ صوبے کا ووٹر ہونا لازم ہے۔ مخصوص نشستوں کے امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی کے ساتھ متعلقہ سیاسی جماعت کی ترجیحی فہرست ہو، انتخابی اخراجات کے حوالے سے ہر امیدوار یا تو کسی بھی شیڈول بینک میں خصوصی اکائونٹ کھولے گا یا پہلے سے موجود بینک اکائونٹ کی تفصیلات کاغذاتِ نامزدگی میں درج کرے گا۔ انتخابی امیدواروں کے لیے کاغذاتِ نامزدگی جمع کراتے وقت بینک سٹیٹمنٹ منسلک کرنا لازمی ہو گا، بینک سٹیٹمنٹ کے اجرا کے وقت امیدوار اس بات کو یقینی بنائے گا کہ بینک سٹیٹمنٹ میں ٹرانزیکشنز کی تفصیلات درج ہوں، خصوصی بینک اکائونٹ یا پہلے سے موجود بینک اکائونٹ‘ جسے امیدوار اپنے انتخابی اخراجات کے لیے استعمال کرے گا‘ وہ سنگل اکائونٹ ہو گا۔ امیدوار کاغذاتِ نامزدگی کے ساتھ بیان حلفی اشٹامپ پیپر پر دے گا اور اس کی تصدیق اوتھ کمشنر سے کرائے گا۔ کاغذاتِ نامزدگی کے ساتھ اپنی/ اپنی بیوی/ شوہر اور زیر کفالت بچوں کے اثاثہ جات کی تفصیل فارم بی میں درج کرے گا۔ کاغذاتِ نامزدگی امیدوار یا اس کے تجویز کنندہ، تائید کنندہ کی جانب سے تحریری طور پر مجاز شخص جمع کروا سکتا ہے۔ مجاز شخص کی جانب سے کاغذاتِ نامزدگی کی اتھارٹی لیٹر کی تصدیق نوٹری یا اوتھ کمشنر کی جانب سے ہونا لازم ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق کاغذاتِ نامزدگی کا ایک فارم حاصل کرنے کی فیس 100 روپے ہے جبکہ قومی اسمبلی کی نشست کے لیے امیدوار کو ناقابلِ واپسی 30 ہزار روپے جبکہ صوبائی اسمبلی کی نشست کے لیے 20 ہزار روپے فیس مقرر کی گئی ہے۔الیکشن کمیشن نے امیدواروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ کاغذاتِ نامزدگی کے ساتھ گزشتہ تین سال کا انکم ٹیکس ریٹرن اور پاسپورٹ کی مکمل نقل بھی منسلک کریں۔
ایک طرف سپریم کورٹ کے فیصلے سے ملک میں انتخابی عمل شروع ہو چکا ہے جس سے ہر قسم کی غیر یقینی صورتحال ختم ہو گئی ہے تو دوسری طرف سپریم کورٹ نے جنرل الیکشن کی راہ میں حائل دیگر رکاوٹوں کو بھی ہٹا دیا ہے اور حلقہ بندیوں کے خلاف کیسز کو عام انتخابات کے بعد سننے کا فیصلہ کیا ہے۔ عدالتِ عظمیٰ نے کہا ہے کہ انتخابات میں کسی صورت تاخیر قبول نہیں کریں گے۔ قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے حلقہ بندیوں سے متعلق کیس کی سماعت کی اور بلوچستان ہائیکورٹ کا حلقہ بندیوں سے متعلق فیصلہ معطل کر دیا۔ عدالتِ عظمیٰ کا اپنے فیصلے میں کہنا ہے کہ حکم نامے سے تمام درخواست گزاروں کی اپیلوں پر اثر نہیں پڑے گا، عام انتخابات کے بعد حلقہ بندیوں سے متعلق اپیلیں دوبارہ سنیں گے۔ دورانِ سماعت سیکرٹری الیکشن کمیشن سپریم کورٹ میں پیش ہوئے اور الیکشن کمیشن کے واپس لیے گئے نوٹیفکیشنز سپریم کورٹ میں پیش کیے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نقشے دیکھنے کا کام الیکشن کمیشن کا ہے۔ یہ کسی ایک کا مسئلہ نہیں ہے‘ اگر ایک حلقے کو ٹھیک کریں تو پھر سب کو کرنا پڑے گا، ہر پارٹی اپنی خواہش کے مطابق حلقہ بندیاں چاہتی ہے، ہم انتخابات میں تاخیر کا کوئی چانس نہیں لینا چاہتے۔ قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ ایسا کرنے سے الیکشن کے معاملات مکمل ڈی ریل ہو سکتے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ انتخابات نہ ہوتے تو درمیان میں مداخلت نہ کرتے، عدالت ایک طریقہ کار مرتب کر رہی ہے جس سے کسی کی حق تلفی نہ ہو، ہم اب معاملات کو عام انتخابات کے بعد دوبارہ ٹیک اَپ کریں گے، عدالت درخواست گزاروں کا حق محفوظ رکھ رہی ہے۔ واضح رہے کہ بلوچستان ہائیکورٹ نے حلقہ بندیوں سے متعلق درخواستوں پر دلائل سننے کے بعد حکمِ امتناع جاری کیا تھا۔
الیکشن کمیشن نے صوبائی سطح پر انتخابی تیاریوں کو حتمی شکل دینا شروع کر دی ہے، اس سلسلے میں الیکشن کمیشن پنجاب میں اجلاس ہوا جس میں سکیورٹی انتظامات کا جائزہ لیا گیا۔ ڈویژنل ہیڈ کوارٹر لاہور میں بھی عام انتخابات 2024ء کے سکیورٹی انتظامات کے حوالے سے اجلاس ہوا اور الیکشن انتظامات اور سکیورٹی کے حوالے سے جائزہ لیا گیا، لاہور میں تعینات ریٹرننگ افسروں اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسروں کے دفاتر کی سکیورٹی کے حوالے سے بھی اہم بات چیت ہوئی۔ صوبائی الیکشن کمشنر نے کہا کہ الیکشن پروسیس کے دوران فول پروف سکیورٹی مہیا کی جائے، امیدواروں کی انتخابی مہم کے دوران ضابطہ اخلاق پر سختی سے عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔ ادھر بلوچستان میں بھی حتمی تیاریوں کا آغاز ہو گیا ہے، الیکشن کمشنر بلوچستان نے صوبائی چیف سیکرٹری اور دیگر مقتدر شخصیات سے ملاقات کی جس دوران آئندہ عام انتخابات میں سکیورٹی و دیگر انتظامات کے حوالے سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا، چیف سیکرٹری بلوچستان نے بتایا کہ انتخابات کے پُرامن انعقاد کے لیے تمام تر انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں، صوبائی الیکشن کمشنر نے بتایا کہ انتخابات کے آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن مکمل طور پر تیار ہے، پولنگ سٹیشنوں پر سی سی ٹی کیمروں کی تنصیب کو یقینی بنایا جائے گا، ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسروں اور ریٹرننگ افسروں کی ٹریننگ کا سلسلہ جاری ہے۔ صوبائی الیکشن کمشنر نے احکامات جاری کیے کہ پولنگ سٹیشنز پر بنیادی سہولتوں کو یقینی بنایا جائے، جن علاقوں میں سیلاب کی وجہ سے پولنگ سٹیشنز متاثر ہوئے ان کی مرمت کا کام بھی یقینی بنایا جائے۔
الیکشن کمیشن کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک میں ووٹرز کی مجموعی تعداد 12 کروڑ 85 لاکھ 85 ہزار 760 ہے جس میں سے مرد ووٹرز کی تعداد 6 کروڑ 92 لاکھ اور خواتین ووٹرزکی تعداد 5 کروڑ 93 لاکھ سے زائد ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ انتخابات کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال کے خاتمے سے معیشت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہونے لگے ہیں اور ملک بھر میں کاروباری سرگرمیوں میں تیزی نظر آ رہی ہے۔ توقع ہے کہ 8 فروری کو عام انتخابات کے انعقاد سے جمہوری حکومت کی تکمیل کے ساتھ معاشی ترقی کا ایک نیا دور بھی شروع ہو گا اور عام آدمی کی مشکلات میں کمی آئے گی۔