دہشت گردی میں غیر ملکی کردار

پاکستان نے چار دہائیوں تک ہمسایہ ملک افغانستان کے لاکھوں پناہ گزینوں کی خدمت کی، انہیں پالا اور ہر قسم کی مراعات دیں لیکن دوسری جانب متعدد افغان باشندوں نے سنگین جرائم کا ارتکاب کر کے وطن عزیز کو اتنا نقصان پہنچایا کہ ہم ترقی کے سفر میں چالیس برس پیچھے رہ گئے۔ آج بھی اگر افغان پناہ گزین اور غیر قانونی طور پر مقیم دیگر غیر ملکی اپنے اپنے دیس کو واپس چلے جائیں تو پاکستان کے متعدد مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔ مہنگائی میں کمی ہو گی اور بیروزگاری کی شرح نیچے آئے گی۔ دہشت گردی کی لہر تھم جائے گی، لوٹ مار، بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کی وارداتیں رک جائیں گی، سمگلروں کے راستے بند ہو جائیں گے، قبضہ مافیا کی کمر ٹوٹ جائے گی اور منشیات فروشوں کے نیٹ ورک کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اگر یہ سب کچھ ہو جائے تو یقینا پاک سرزمین ایک بار پھر ترقی و خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکتی ہے۔
اس بات کے ثبوت تو بہت پہلے سے سامنے آ چکے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی کی زیادہ تر کارروائیوں میں افغان شہری ملوث ہیں اور ان کے ڈانڈے بھارت سے جا کر ملتے ہیں؛ تاہم خوفناک امر یہ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کی حالیہ لہر میں افغانستان سے سمگل کیے جانے والے غیر ملکی اسلحے کے استعمال کے ثبوت بھی منظرِ عام پر آئے ہیں۔ کالعدم ٹی ٹی پی‘ جس کے تمام تانے بانے افغانستان جاکر ملتے ہیں‘ وہ سب سے زیادہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے اور پاکستان گزشتہ دو دہائیوں سے ٹی ٹی پی کے خلاف دہشت گردی کی جنگ لڑ رہا ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے پاس امریکہ کا افغانستان میں چھوڑا گیا اسلحہ موجود ہے۔ ٹی ٹی پی کو افغانستان سے امریکی ہتھیاروں کی فراہمی نے پورے خطے کی سلامتی کو دائو پر لگا دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کے افغانستان سے انخلا کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ کالعدم بی ایل اے نے بھی امریکی ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے نوشکی اور پنجگور میں ایف سی کیمپوں پر حملے کیے، ژوب گیریژن پر ہونے والے حملے میں ٹی ٹی پی کی جانب سے امریکی اسلحے کا استعمال کیا گیا تھا۔ جدید ترین امریکی ہتھیاروں سے لیس ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں نے چترال میں بھی دو فوجی چیک پوسٹوں پر حملہ کیا۔ میانوالی ایئر بیس حملے میں دہشت گردوں سے برآمد ہونے والا اسلحہ بھی غیر ملکی ساختہ تھا۔ 12 دسمبر کو ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے درابن میں ہونے والے حملے میں بھی دہشت گردوں کی جانب سے نائٹ ویژن گوگلز اور امریکی رائفلز کا استعمال کیا گیا۔ 13 دسمبر کو کسٹمز اور سکیورٹی فورسز نے افغانستان سے پاکستان آنے والی ایک گاڑی میں موجود پیاز کی بوریوں میں چھپائے گئے جدید امریکی ہتھیار برآمد کیے تھے۔ اس اسلحے میں جدید امریکی ساختہ ایم فور رائفلز اور گرنیڈ شامل تھے۔ 15 دسمبر کو ٹانک میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعے میں بھی دہشت گردوں کے پاس جدید امریکی اسلحہ پایا گیا۔ اس حملے میں تین پولیس اہلکار شہید ہوئے جبکہ پانچ دہشت گرد مارے گئے تھے۔ دہشت گردوں نے حملے میں M16 اور A2 رائفلز،اے کے 47 اور ، HE گرنیڈ جیسا خطرناک آتشیں اسلحہ استعمال کیا۔
افغانستان سے جدید امریکی اسلحے کی پاکستان سمگلنگ اور ٹی ٹی پی کا سکیورٹی فورسز اور پاکستانی عوام کے خلاف امریکی اسلحے کا استعمال افغان عبوری حکومت کا اپنی سرزمین پاکستان سمیت کسی ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے کے دعووں پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق پاکستان میں ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کی کارروائیوں میں امریکی ساخت کے اسلحے کا بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔پینٹاگون کے مطابق امریکہ نے افغان فوج کو کل 4 لاکھ 27 ہزار سے زائد جنگی ہتھیار فراہم کیے، جس میں سے 3 لاکھ ہتھیار انخلا کے وقت باقی رہ گئے تھے۔ اسی بنا پر خطے میں گزشتہ دو سالوں کے دوران دہشت گردی میں وسیع پیمانے پر اضافہ دیکھا گیا ہے۔ پینٹاگون کے مطابق امریکہ نے 2005ء سے اگست 2021ء کے دوران افغان قومی‘ دفاعی اور سکیورٹی فورسز کو 18.6 ارب ڈالر کا حربی سامان فراہم کیا۔ یہ تمام حقائق اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ افغان عبوری حکومت نہ صرف ٹی ٹی پی کو مسلح کر رہی ہے بلکہ دیگر دہشت گرد تنظیموں کو محفوظ راستہ بھی فراہم کر رہی ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے کہا ہے کہ پاکستان کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور اس سے جڑی تنظیموں سے سنگین خطرات لاحق ہیں۔ یہ تنظیمیں پاکستان میں منظم دہشت گردی میں ملوث ہیں، کابل پاکستان کیلئے پیچیدہ اور مستقل چیلنج ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ سے دہشت گردوں کے پاس جدید ہتھیاروں کی موجودگی سے متعلق تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ ادھر سکیورٹی اداروں نے ڈیرہ اسماعیل خان میں کارروائی کرتے ہوئے ایک ہفتہ قبل سکیورٹی فورسز کے کمپائونڈ پر ہونے والے حملے کے ماسٹر مائنڈ اور سات سہولت کاروں سمیت نو دہشت گردوں کو گرفتار کر لیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق دہشت گرد حملے میں ملوث ماسٹر مائنڈ کا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقہ درابن سے ہے جبکہ حملے میں ملوث 6 دہشت گردوں کا تعلق افغانستان سے ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں خودکش حملہ کرنے والے دہشت گرد حسن عرف شاکر کا تعلق بھی افغانستان سے تھا، جس نے حملے سے قبل ایک وڈیو بھی جاری کی تھی جبکہ حملے میں ہلاک دوسرے خودکش حملہ آور صفت اللہ کا تعلق بھی امارت اسلامی افغانستان سے تھا۔ دستاویزات کے مطابق کالعدم ٹی ٹی پی گنڈاپور گروپ کے 5 دیگر دہشت گرد بھی اس حملے میں ملوث تھے۔ ان دہشت گردوں کے پاس سے بھی امریکی ساختہ اسلحہ اور گولہ بارود برآمد ہوا۔ واضح رہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان حملے میں 22 اہلکار شہید جبکہ 29 زخمی ہوئے تھے جبکہ حملے میں دو خودکش حملہ آوروں سمیت 4 دہشت گرد ہلاک ہوئے تھے۔
حکومت پاکستان کی جانب سے ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کے انخلا کی مہم جاری ہے اور مختلف شہروں سے غیر قانونی افغان باشندوں کی وطن واپسی کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق 20 دسمبر کو مزید ایک ہزار 769 غیر قانونی افغان باشندے اپنے ملک واپس چلے گئے۔ واپس جانے والوں میں 478 مرد، 286 خواتین اور ایک ہزار پانچ بچے شامل تھے۔ وفاقی حکومت کے اعلان سے قبل بھی غیر قانونی افغان باشندوں کی کثیر تعداد گرفتاری کے ڈر سے پاکستان سے واپس افغانستان جا رہی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 20 دسمبر تک مجموعی طور پر 4 لاکھ 41 ہزار 893 افغان باشندے اپنے ملک واپس جا چکے ہیں۔ راولپنڈی، اسلام آباد، لاہور اور کراچی سمیت تقریباً ملک کے ہر کونے میں غیر قانونی طور پر مقیم افراد کی بڑی تعداد واپس افغانستان گئی ہے۔ ان میں ایسے افراد بھی شامل تھے جو سمگلنگ، بھتہ خوری، ڈکیتیوں، اغوا برائے تاوان، قتل وغارت گری، ناجائز قبضوں اور دہشت گردی جیسے سنگین جرائم میں ملوث تھے؛ تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ ملک سے غیر قانونی افراد کا انخلا جاری ہے جو یقینا قومی اداروں کی ایک کامیابی ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے بڑھتے واقعات‘ ان میں افغان باشندوں کے ملوث ہونے اور افغانستان سے دہشت گردوں کو امریکی اسلحہ کی فراہمی کے ثبوت منظر عام پر آنے کے بعد ضروری ہوگیا ہے کہ نہ صرف غیر قانونی طور مقیم افغانوں کو فوری طور پر ملک بدر کیا جائے اور ان کے دوبارہ پاکستان داخلے پر پابندی عائد کی جائے بلکہ غیر قانونی طریقے سے پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ حاصل کرنے والے افراد کے خلاف بھی سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے اورانہیں بھی فوری واپس بھیجا جائے۔ آخری مرحلے میں افغان کارڈ اور دستاویزات رکھنے والے پناہ گزینوں کو ان کے وطن بھجوانے کا بندوبست کیا جانا چاہئے تاکہ وطن عزیز میں امن و امان قائم ہو سکے اور شہریوں کو جان و مال کے تحفظ کے ساتھ روزگار کے بہتر مواقع مل سکیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں