دہشت گردوں کی مالی معاونت سمیت ان کی کسی بھی قسم کی سہولت کاری ایک خطرناک اور سنگین جرم ہے کیونکہ اس کے بغیر دہشت گردوں کا اپنے اہداف تک پہنچنا ممکن نہیں ہوتا۔ وطن عزیز دنیا بھر میں دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے، پاکستان کے تقریباً تمام بڑے شہر دہشت گردی سے متاثر ہوئے ہیں البتہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان سب سے زیادہ دہشت گردوں کے نشانے پر رہے ہیں۔ دشمن ریاستوں کی سرپرستی میں سیاسی علیحدگی پسند، فرقہ وارانہ، نسلی اور مذہبی بنیاد پرستوں کی وجہ سے پاکستانی شہری دہشت گردوں کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ پاکستان میں ہونے والے دہشت گرد حملوں میں گزشتہ دو دہائیوں میں دس ہزار سے سکیورٹی اہلکاروں اور افسران سمیت 80 ہزار سے زائد قیمتی انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں، جبکہ پاکستانی معیشت کو مجموعی طور پر 150 بلین ڈالرز سے زیادہ کا مالی نقصان ہوا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے پیچھے ہمارا ہمسایہ ملک بھارت ملوث ہے۔ بھارت کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردوں کی مالی معاونت کے بارے میں پاکستان کی طرف سے پہلے ہی ایک ڈوزیئر جاری کیا جا چکا ہے جس میں انتہائی ٹھوس معلومات جیسے بینک اکائونٹس اور ان بھارتی شہریوں کے شواہد بھی موجود ہیں جو دہشت گردوں کو مالی معاونت فراہم کرتے ہیں۔ اس ڈوزیئر میں ٹی ٹی پی، بلوچ شر پسندوں اور دیگر گروپوں کے تربیتی کیمپوں کی تعداد اور ان کے مقامات بھی شامل ہیں۔
2020ء میں ایک سابق عسکری تنظیم کے سربراہ کو لاہور کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے ممنوعہ فنڈنگ اور کالعدم تنظیم کا رکن ہونے پر 11 سال قید کی سزا سنائی تھی۔ یہ پاکستان میں پہلی بار ہوا تھا کہ کسی کالعدم جماعت کے سربراہ کو غیر قانونی فنڈنگ کے الزام میں سزا ہوئی ہو۔ دہشت گردی کے مقاصد کے لیے چندہ اکٹھا کرنا پاکستان کے انسدادِ دہشت گردی ایکٹ 1997ء کی شق 11 ایچ کے تحت قابلِ سزا جرم ہے۔ دہشت گردی کے لیے بالواسطہ یا بلاواسطہ پیسے، اشیا یا پراپرٹی جمع کرنا اور پیسے جمع کرنے کی ترغیب دینا اس جرم کے زمرے میں آتا ہے۔ اس شق کے تحت کوئی شخص‘ جو دوسروں کو رقم اور دیگر اشیا فراہم کرنے کی ترغیب دے اور اسے معلوم ہو یا اس کا ارادہ ہو کہ یہ رقم اور جائیداد کو دہشت گردی کے لیے استعمال کیا جائے گا‘ تو وہ مجرم تصور ہو گا۔ اسی طرح ان مقاصد کے لیے کوئی شخص اگر چندہ اکٹھا کرے تو اس پر بھی دہشت گردی ایکٹ کی اس دفعہ کا اطلاق ہو گا۔ دفتر خارجہ نے اس حوالے سے بھارتی مطالبے کی تصدیق کی ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ بھارت کی جانب سے درخواست موصول ہوئی ہے جس میں مبینہ منی لانڈرنگ کیس میں حافظ محمد سعید کی حوالگی کا کہا گیا ہے لیکن پاکستان اور بھارت کے درمیان ملزمان کی دوطرفہ حوالگی کا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔
2023ء کے دوران پاکستان میں ٹیرر فنانسنگ کیسز میں اضافہ ہوا ہے۔ خیبر پختونخوا میں 2022ء کے دوران 90 جبکہ 2023ء میں 298 ٹیرر فنانسنگ کیسز درج ہوئے۔ سی ٹی ڈی دستاویزات کے مطابق دہشت گردوں کی مالی معاونت کے مقدمات میں 960 افراد نامزد ہوئے جن میں 311 کو گرفتارکیا جبکہ 44 ہلاک ہو چکے ہیں۔ دستاویزات کے مطابق ٹیرر فنانسنگ کی مد میں 13 کروڑ 46 لاکھ ریکوریاں کی گئیں۔ پشاور ریجن میں 2022ء میں 46 اور 2023ء میں ٹیرر فنانسنگ کے179 مقدمات درج ہوئے۔ گزشتہ سال مردان میں 48، بنوں میں 21 اور ڈی آئی خان میں 13 مقدمات درج ہوئے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2022ء اور 2023ء کے دوران 16، 16 مقدمات میں ملزمان کو سزائیں بھی ہوئیں۔ 2022ء میں کُل 20 ملزمان کو سزائیں ہوئیں جبکہ گزشتہ سال صوبہ بھر میں 21 ملزمان کو سزائیں سنائی گئیں۔ گزشتہ سال پشاور ریجن میں ٹیرر فنانسنگ کے 179 کیسز میں صرف ایک ملزم کو سزا ہوئی۔ واضح رہے کہ مذکورہ مقدمات حوالہ ہنڈی، بینک، سمگلنگ یا چندہ کے نام پر دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے پردرج کیے گئے تھے۔ ایک دوسری رپورٹ میں انسدادِ دہشت گردی فورس (سی ٹی ڈی) نے انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ نو برس کے دوران 51 خواتین دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث رہی ہیں۔ خیبر پختونخوا میں 2014ء سے لے کر اب تک 51 خواتین دہشت گردی میں ملوث پائی گئیں جن میں سے 30 خواتین دہشت گردی، 13 اغوا اور 3 ٹارگٹ کلنگ میں ملوث رہی ہیں۔ 2 خواتین بھتہ خوری جبکہ 3 دہشت گردوں کی مالی معاونت میں بھی ملوث پائی گئی ہیں۔ پشاور میں 2 خواتین دہشت گردی، 2 اغوا اور بھتہ خوری کے مقدمات میں مطلوب ہیں۔ حساس اداروں کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق حال ہی میں بھارت کی بدنام زمانہ انٹیلی جنس ایجنسی 'را‘ نے پاکستان میں دہشت گردی کے لیے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے چار دیگر دہشت گرد گروپوں کے ساتھ انضمام کے لیے 10لاکھ ڈالرز (لگ بھگ 29 کروڑ روپے) کی خطیر رقم خرچ کی ہے۔ بھارت افغانستان میں تھنک ٹینکس اور دیگر ذرائع سے بلوچستان میں شرپسندوں کو بھی رقم فراہم کرکے ان کی مالی اعانت کرتا رہا، اور اب بھی کر رہا ہے۔ بھارتی ایجنسی 'را‘ مختلف سی پیک منصوبوں پر حملے کروا کے ان منصوبوں کی پیش رفت رکوانے کے لیے بھاری سرمایہ کاری کر رہی ہے۔
پاکستان طویل عرصہ سے دہشت گردی کو ختم کرنے اور دہشت گردوں کو کچلنے کے لیے سخت جنگ لڑ رہا ہے، اس مقصد کے حصول کے لیے کالعدم تنظیموں، شر پسندوں اور ملک کے اندر ریاست گریز عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرنے اور ان کے گٹھ جوڑ کو توڑنے کے اقدامات بھی ضروری ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ دہشت گردانہ واقعات میں خیبر پختونخوا میں سب سے زیادہ شہادتیں ہوئیں جبکہ دوسرے نمبر پر بلوچستان ہے۔ 2023ء میں ستمبر تک دہشت گردی کے واقعات میں 333 شہری اور 386 سکیورٹی اہلکار شہید ہوئے جبکہ 368 دہشت گردوں کو مختلف آپریشنز میں ہلاک کیا گیا۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ ہمارا روایتی حریف بھارت پاکستان میں دہشت گردوں کی مالی معاونت میں سب سے آگے ہے اور 'را‘ کا سب سے پہلا ایجنڈا ہی پاک سرزمین میں بدامنی پھیلانا ہے جبکہ یہاں سب سے زیادہ دہشت گردی کی کارروائیوں میں ہمسایہ ملک افغانستان کے باشندے ملوث رہے ہیں۔ پاکستان اور ایران گزشتہ چار دہائیوں سے لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی میزبانی اور خدمت کر رہے ہیں جبکہ ان دونوں برادر مسلم ممالک میں ہونے والی دہشت گردی میں سب سے زیادہ افغان باشندے ہی ملوث پائے گئے۔ گزشتہ روز ایران کے شہر کرمان میں قبرستان کے قریب 2 دھماکوں میں سو سے زائد افراد جاں بحق اور170 کے قریب زخمی ہو گئے، ایرانی میڈیا کے مطابق دھماکا خیر مواد سے بھرے دو تھیلے قبرستان کے باہر رکھے گئے تھے۔
دو روز قبل پاک افغان جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا اجلاس ہوا، افغان وفد نے پاک افغان جوائنٹ کوآرڈی نیشن کمیٹی کے چھٹے اجلاس میں شرکت کی۔ اجلاس میں پاک افغان سرحد پر نقل و حمل کے لائحہ عمل کو مربوط کرنے پر تبادلہ خیال کیا گیا، پاک افغان دو طرفہ تعلقات اور سکیورٹی کے امور پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ افغانستان میں طالبان حکومت آنے کے بعد مسلسل یہ کہا جاتا رہا کہ افغان سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دی جائے گی لیکن گزشتہ چند ماہ کے دوران یہاں دہشت گردی اور تخریب کاری کے جتنے بھی واقعات رونما ہوئے ان میں زیادہ تر افغان باشندے ہی ملوث پائے گئے۔ اب وقت آگیا ہے کہ افغانوں کے پاک سرزمین پر مستقبل کو دہشت گردوں کی حوالگی اور سخت اقدامات سے مشروط کرتے ہوئے غیر قانونی افغانیوں کی واپسی کے عمل کو مزید تیز کیاجائے۔