آج کل وطنِ عزیز میں ہر طرف ''لیول پلینگ فیلڈ‘‘ کی بات ہو رہی ہے۔ اس سے پہلے تو جب بھی فیلڈ کی بات ہوتی تھی تو عام طور پر کھیل کا میدان یا کھیت کھلیان ہی ذہن مین آتے تھے لیکن اس بار ملک میں عام انتخابات سے قبل بعض سیاسی جماعتوں کی طرف سے لیول پلینگ فیلڈ نہ ملنے کے بہت زیادہ شکوے سامنے آ رہے ہیں۔ اس لیے آج سوچا کہ اسی کو کالم کا موضوع بنایا جائے۔ لیول پلینگ فیلڈ کا مطلب کسی مخصوص صورتحال میں انصاف پسندی اور مساوی مواقع کی اہمیت پر زور دینا ہے۔ اس حوالے سے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر کسی کے پاس کامیاب ہونے یا مقابلہ کرنے کا یکساں موقع ہونا چاہیے۔ اس اصول کو کھیلوں اور کاروبار سے لے کر سماجی انصاف اور تعلیمی اصلاحات کے بارے میں بات چیت تک مختلف سیاق و سباق میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
لیول پلینگ کی واضح مثال کھیلوں سے دی جا سکتی ہے یعنی ہر ٹیم کو مخالف ٹیم کے برابر ہی کھلاڑی میدان میں اتارنے کی اجازت ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر کھلاڑی کے پاس کامیابی کا مساوی موقع ہے بلکہ یہ کہ وہ سب ایک ہی اصول کے مطابق کھیلتے ہیں۔ مثال کے طور پر فارمولہ وَن کاریں اور ان کے ڈرائیوروں کو ریس میں حصہ لینے سے پہلے ایک ہی سیٹ کے قوانین کا پابند بنایا جاتا ہے‘ یہاں تک کہ گاڑی اور ڈرائیور کے وزن کے امتزاج کو بھی درست کرکے ان کے مخالفین کے برابر کر دیا گیا ہے۔ باکسنگ اور مارشل آرٹس میں کھلاڑیوں اور کشتی کے مقابلے میں پہلوانوں کی کیٹیگریز بھی وزن کے حساب سے ترتیب دی جاتی ہیں۔ کھلے میدان میں کھیلے جانے والے کھیل مثلاً ہاکی‘ فٹ بال اور رگبی کے گراؤنڈ میں اگر ڈھلوان ہو تو ایک ٹیم کو غیرمنصفانہ فائدہ ہو گا‘ اس لیے ٹیموں کے لیے آدھے وقت کے بعد کھیل کے میدان کے سِروں کو تبدیل کرنے کا رواج ہے۔ جیسا کہ شروع میں کہا کہ یہی اصول کاروبار‘ تعلیم‘ صحت‘ سماجی انصاف اور سیاست سمیت زندگی کے ہر شعبے میں اپنایا جا سکتا ہے۔ کچھ حکومتی ضوابط کا مقصد بھی اس طرح انصاف فراہم کرنا ہے کیونکہ تمام شرکا کو یکساں قوانین کی پابندی کرنی چاہیے کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تو پھر کسی ایک فریق کو زیادہ فائدہ جبکہ دوسرے فریق کو نقصان کا اندیشہ ہو سکتا ہے۔
لیول پلینگ فیلڈ کا صحیح مطلب یہ ہے کہ کسی بھی مقابلے میں شامل تمام شرکا کے لیے قاعدے‘ قوانین اور اصول و ضوابط ایک جیسے ہونے چاہئیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس مقابلے کا نتیجہ بھی سب کے لیے برابر ہو۔ اس کی آسان مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ ایک اتھلیٹکس چیمپئن شپ میں 100یا 200میٹر دوڑ کا مقابلہ ہو رہا ہو تو اس میں جتنے بھی اتھلیٹس شریک ہوں گے‘ ان کے لیے اتھلیٹک ٹریک کی لمبائی‘ چوڑائی اور سطحی معیار ایک جیسا ہوتا ہے لیکن فاتح وہی قرار پاتا ہے جو سب سے کم وقت میں اپنی دوڑ مکمل کرتا ہے۔ یہ کبھی نہیں ہوتا کہ اصول و ضوابط اور ٹریک ایک جیسا ہونے کے ساتھ نتیجہ بھی ایک جیسا ہو۔ یہی اصول سیاست سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی میں پایا جاتا ہے یعنی ہر جگہ قواعد اور ضوابط تو ایک جیسے ہوتے ہیں لیکن نتائج ہمیشہ مختلف ہوتے ہیں۔
آج کل پاکستان میں آٹھ فروری 2024ء کو ہونے والے عام انتخابات کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ الیکشن شیڈول کے پانچ مراحل مکمل ہو چکے ہیں۔ پولنگ کی تاریخ میں صرف 25یوم باقی رہ گئے ہیں لیکن ابھی تک متعدد سیاسی جماعتیں لیول پلینگ فیلڈ نہ ملنے کا شکوہ کر رہی ہیں اور ایک پارٹی نے تو اس کے لیے عدالتِ عظمیٰ کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا ہے۔ کچھ عرصہ قبل سندھ میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تو کراچی میں جماعت اسلامی نے کافی نشستیں جیتیں مگر میئر کراچی کے الیکشن میں جماعت اسلامی لیول پلینگ فیلڈ نہ ملنے کی شکایت کرتی رہی اور اس کا مؤقف تھا کہ اس وقت کی صوبے میں حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے امیدوار کو ترجیح دی گئی۔ اسی طرح الیکشن سے قبل حکومت میں شامل جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین جو سابق حکومت میں خود ایک اہم وزیر تھے‘ وہ بھی اپنی سابق اتحادی حکمران جماعت کے مقابلے میں لیول پلینگ فیلڈ نہ ملنے کی شکایت متعدد بار کر چکے ہیں۔ سب سے پُر زور مطالبہ پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے سامنے آ رہا ہے‘ اس پارٹی کی جانب سے ہر جگہ یہی مطالبہ دہرایا جا رہاہے اور الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ ایک سیاسی جماعت کو الیکشن جتوانے کے لیے خصوصی مراعات اور سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں‘ جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت کا مؤقف ہے کہ انہیں کبھی لیول پلینگ فیلڈ ملی ہی نہیں اور 2018ء کے عام انتخابات سمیت ہمیشہ ان کے ساتھ نا انصافی ہوئی۔ لیول پلینگ فیلڈ کے حوالے سے نگران وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا ہے کہ ہر سیاسی جماعت کچھ اس طرح کی لیول پلینگ فیلڈ چاہتی ہے کہ سب کچھ اس کی مرضی کے مطابق ہو اور صرف اسی کے لیے ہو‘ اس کے تمام مخالفین کو سیاست سے باہر کر دیا جائے اور انہیں ہر قسم کی من مانی کرنے کی مکمل آزادی ہو اور آخر میں انتخابات کے نتائج بھی 100فیصد ان کی مرضی کے مطابق ہوں۔
ہمارے ملک میں مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے مختلف ادوار میں لیول پلینگ فیلڈ کے مطالبات سامنے آتے رہے ہیں۔ 2018ء کے عام انتخابات کے دوران مسلم لیگ (ن) کے شکوے اور شکایتیں کچھ اسی طرح کی تھیں جس طرح آج کل پاکستان تحریک انصاف کر رہی ہے۔ ہم ان شکایات اور مطالبات کے حوالے سے ہرگز میرٹ پر بات نہیں کر رہے بلکہ اپنے قارئین کو صرف یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ لیول پلینگ فیلڈ کیا ہے؟ پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو جب بھی کوئی جماعت برسراقتدار ہوتی ہے تو اس کا ایک عام کارکن بھی خود کو آئین و قانون سے بالاتر سمجھتا ہے۔ اس پارٹی کے سامنے سیاسی مخالفین کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی بلکہ انہیں مختلف مقدمات میں اُلجھا کر اپنے مفادات کا تحفظ کیا جاتا ہے۔ حزبِ اقتدار کو کبھی بھی لیول پلینگ فیلڈ کا خیال نہیں آتا اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ ملک میں تمام مراعات اور سہولیات سے استفادہ کرنا صرف حکمران جماعت کا حق ہے‘ لیکن جب وہی جماعت اقتدار سے محروم ہو جاتی ہے تو حزبِ اختلاف میں آکر اسے لیول پلینگ فیلڈ یاد آجاتی ہے اور پھر کہا جاتا ہے کہ آئین وقانون سب کے لیے یکساں ہے‘ یہ حقیقت بھی ہے لیکن کاش ہمارے سیاستدان اقتدار میں ہوتے ہوئے کبھی ایک عام آدمی کے لیے بھی ایسا سوچیں۔
لیول پلینگ فیلڈ سے مراد ایک ایسی صورتحال یا ماحول قرار دیا جا سکتا ہے جہاں کسی کو مقابلے میں دوسرے پر برتری حاصل نہ ہو‘ لیکن نتیجے کے وقت یہ برابری کا اصول قائم نہیں ہو گا کیونکہ کسی بھی مقابلے کا مقصد ہی اچھے یا برے‘ فتح یا شکست اور پہلے یا آخری کی تمیز یا تفریق کرنا ہوتا ہے۔ راقم الحروف سمیت پاکستان کا ہر شہری اس بات سے اتفاق کرتا ہے کہ کھیل‘ کاروبار‘ تعلیم‘ صحت‘ سماجی انصاف اور سیاست سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی میں سب کو لیول پلینگ فیلڈ ملنی چاہیے لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ جو شخص اپنے معاملے میں دوسروں سے یہ حق مانگتا ہے‘ اسے چاہیے کہ یہی اصول اپنے اوپر بھی لاگو کرے۔