سیاست اور اخلاقیات

دورِ حاضر میں سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ لوگوں نے رابطے کے ان ذرائع کو ترقی، تیز رفتاری اور مثبت سرگرمیوں کے بجائے منفی سرگرمیوں اور دوسروں پر کیچڑ اچھالنے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ جب سے لوگوں کو معلوم ہوا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے بھی ڈالر کمائے جا سکتے ہیں‘ اس وقت سے سوشل میڈیا کے ''دانشوروں‘‘ نے اپنی پوسٹیں وائرل کرنے کیلئے دوسروں پر بے جا تنقید، غیر اخلاقی و غیر قانونی مواد، توہین آمیز اور بیہودہ چیزیں شیئر کرنا شروع کر رکھی ہیں جبکہ شخصی آزادی اور رازداری بھی غیر محفوظ ہونے لگی ہے۔ اگرچہ سوشل میڈیا کے بعض اچھے پہلو بھی ہیں اور یہ آج کے مصروف ترین دور میں رابطے اور معلومات کا ایک سستا، تیز اور آسان ترین ذریعہ ہے۔ فیس بک کے ذریعے ایک دوسرے کی خیر خیریت ملتی رہتی ہے، غمی و خوشی اور آمد و رفت کی معلومات کے ساتھ ساتھ ہماری سالہا سال کی یادداشتیں بھی اس میں محفوظ رہتی ہیں، اسی طرح وٹس ایپ کے ذریعے پیغام رسانی کا عمل نہایت ارزاں و سہل ہو گیا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک ایکس (ٹویٹر) زیادہ تر سنجیدہ لوگ استعمال کرتے تھے، جو سماجی رابطے کی اس ویب سائٹ کے ذریعے اپنی بے شمار مصروفیات کے باوجود اپنی تصویر، وڈیو، کسی تقریب یا مختصرپیغام کو بہ آسانی دوسروں کے ساتھ شیئر کر سکتے تھے لیکن اب اس ایپ کا بھی غیر سنجیدہ استعمال شروع ہو گیا ہے‘ خصوصاً ہمارے ملک میں سیاسی مخالفین پر کیچڑ اچھالنے اور تنقید کا یہ سب سے سستا ، آسان اور تیز ترین ذریعہ بنتا جا رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم صرف اپنی بات اور پیغام کو سوشل میڈیا پر شیئر کریں اور اخلاقیات کا دامن کبھی نہ چھوڑیں۔ اگر ایسا ہو جائے تو پھر سوشل میڈیا کے فوائد اس کے نقصانات پر غالب آ جائیں گے لیکن موجودہ حالات میں اس امر کی توقع بے معنی محسوس ہوتی ہے۔ بالخصوص سوشل میڈیا پر اس وقت جو سیاسی لڑائیاں دیکھنے کو ملتی ہیں ان سے ملک و قوم کا منفی تشخص اجاگر ہوتا ہے۔ ان حالات میں سیاسی قیادت ہی اپنے کارکنوں کی تربیت کر سکتی ہے اور انہیں دوسروں کی عزتِ نفس کا خیال رکھنے اور مثبت سرگرمیوں کا درس دے سکتی ہے لیکن تقریباً سبھی سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے سوشل میڈیا ونگز بنا رکھے ہیں اور ایسے کارکنوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے جو دوسروں پر تنقید کے ماہر ہوں اور جن کی پوسٹیں زیادہ وائرل ہوتی ہوں۔
وطن عزیز کی مجموعی صورتحال پر نظر دوڑائی جائے تو محب وطن اور سنجیدہ طبقات پریشان ہو جاتے اور سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ وہ سیاست‘ جو ایک عبادت کا درجہ رکھتی تھی جسے خلفائے راشدین کے دور میں ملک و قوم کی خدمت کے لیے استعمال کیا گیا جسے بانیانِ پاکستان کے دور میں شرافت اور نجابت کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا‘ پتا نہیں آج ایک گالی اور طعنہ کیوں بن گئی ہے۔ اس بات کاجواب اس لیے میرے پاس نہیں کیونکہ بلوغت کی عمر کو پہنچنے کے بعد گزشتہ ساڑھے تین دہائیوں میں جو سیاست دیکھی اس میں مفاد پرستی، اقربا پروری، اقتدار پسندی، جھوٹ، فراڈ اور انتقام سمیت وہ تمام منفی عناصر بدرجہ اتم پائے گئے جن کا عبادت، خدمت اور شرافت سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ اب وہ زمانے گئے جب طلبہ یونین سے سیاسی تربیت کا آغاز ہوتا تھا اور تعلیم سے فراغت کے بعد کونسلر کی نشست سے عملی سیاست کا آغاز ہوتا تھا۔ آج ملک میں ایسے کئی سینئر سیاستدان موجود ہیں جنہوں نے زمانۂ طالب علمی میں سیاست شروع کی، پہلا الیکشن کونسلر کی حیثیت سے لڑا اور پھر درجہ بدرجہ سیاسی سیڑھیاں عبور کرتے ہوئے اقتدار کی مسند تک پہنچے، ان میں اکثریت ایسے رہنمائوں کی ہے جن کا پولیٹکل کیریئر اسی کی دہائی کے آغاز میں یا اس کے فوری بعد شروع ہوا۔ مشرف دور میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں میں اضافہ ہوا اور خواتین سمیت مخصوص سیٹیں شامل کی گئیں تو یہ مخصوص نشستیں عوام کے بجائے خواص کے حصے میں آئیں۔ ایسے گھرانے جن کا تعلق یا تو کسی بڑے سیاسی خاندان سے تھا یا وہ کسی بڑے صنعتی و کاروباری خاندان سے تھے‘ مخصوص نشستوں کو ان کا حق سمجھا گیا۔ اس کے بعد سے قومی سیاست میں دولت کا اثر و رسوخ بڑھنے لگا۔ ایوانِ بالا کے انتخابات میں تو پہلے بھی ووٹ خریدنے کی باتیں سننے کو ملتی تھیں لیکن 2000ء کے بعد ہم نے پہلی بار یونین کونسل کے الیکشن میں بھی کروڑوں روپے کے اخراجات دیکھے، اگر یونین کونسل کا ناظم یا چیئرمین بننے کے لیے بھی پانچ سے دس کروڑ روپے خرچ ہونے لگیں تو پھر آپ خود اندازہ لگا لیں کہ صوبائی یا قومی اسمبلی کا رکن بننے کے لیے کتنا سرمایہ خرچ ہوتا ہو گا۔ امیر ہونا کوئی برائی نہیں‘ ملک میں ہزاروں سرمایہ دار ایسے ہیں جو عوامی فلاح و بہبود میں اپنی مثال آپ ہیں، کئی بڑے بڑے سرمایہ دار اور رئوسا ایسے بھی ہیں جو لوگوں کی خدمت کی غرض سے سیاست میں آئے، شرافت ان افراد کی پہچان تھی لیکن جب موجودہ سیاست کا رنگ غالب آنے لگا، خدمت اور شرافت جیسے عناصر کہیں پیچھے رہ گئے تو پھر یہ شرفا اور رئوسا بھی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے لگے۔
مسائل اس وقت پیدا ہوئے جب دولت کی طاقت سے غیر تربیت یافتہ لوگ سیاست میں آنے لگے، جنہوں نے کبھی کونسلر تک کا الیکشن نہیں لڑا تھا‘ وہ براہِ راست قومی و صوبائی اسمبلیوں حتیٰ کہ ایوانِ بالا کے رکن منتخب ہونے لگے۔ ان میں سے جو سیاستدان‘ بھلے سرمائے کی بدولت‘ کسی حلقے سے منتخب ہوکر آتے ہیں، انہیں پھر بھی تھوڑا بہت عوام کا خیال ہوتا ہے کہ پانچ سال بعد دوبارہ عوامی عدالت میں جانا ہے لیکن جو لوگ بغیر کسی محنت کے‘ صرف اور صرف دولت کے بل بوتے کوئی اہم سیاسی یا آئینی عہدہ حاصل کر لیتے ہیں‘ ان کی عادات و اطوار اور قول و فعل میں غرور و تکبر کی جھلک نمایاں ہوتی ہے۔ وہ نہ تو سیاسی کارکنوں کو عزت دیتے ہیں اور نہ ہی انہیں عوام کے جان و مال کی پروا ہوتی ہے۔ وہ مہنگائی و بیروزگاری جیسے مسائل سے بھی بے خبر ہوتے ہیں۔ عوامی خدمت اور شرافت کی سیاست ان کی تربیت ہی میں شامل نہیں ہوتی حتیٰ کہ میڈیا سے گفتگو کے دوران بھی انہیں تہذیب و اقدار اور سیاسی روایات کا خیال اور پاس نہیں ہوتا۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران ایسی کئی نام نہاد دولتمند شخصیات اہم عہدوں یا اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ گئیں جن کی پرورش اور تربیت دیارِ غیر میں ہوئی، جو کہنے کو تو پاکستانی شہریت رکھتی ہیں لیکن پاکستانی ثقافت، تہذیب و تمدن، اخلاقی اقدار اور یہاں کی معاشرتی روایات ان کے لیے کچھ معنی نہیں رکھتیں۔ سرمائے کا رعب ان کے ہر فعل میں نمایاں ہوتا ہے اور اخلاقی اقدار و شرافت کو وہ شاید کوئی کمزوری سمجھتی ہیں۔ سیاسی تربیت کے فقدان کے باعث جب ایسے افراد کے پاس کسی بات کا جواب نہیں ہوتا تو فوراً اخلاق کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتے اور بدتہذیبی پر اتر آتے ہیں، یہی رویہ آہستہ آہستہ ہماری قومی سیاست میں تشدد اور انتقام کا باعث بنتا جا رہا ہے جو ہماری سماجی بُنت کو بھی نقصان پہنچا رہا ہے۔
اس وقت عام انتخابات میں محض 23 دن باقی ہیں‘ سیاسی سرگرمیاں اور انتخابی مہم عروج پر ہے، ہر کوئی اپنی ذات کو ملک کیلئے ناگزیر اور اپنے مخالفین کو نقصان دہ ثابت کرنے کیلئے تمام ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے۔ سیاسی مخالفت تو ہمیشہ سے ہوتی تھی اور ہوتی رہے گی لیکن ماضی میں انتخابات کے دوران بھی اخلاقیات کا دامن نہیں چھوڑا جاتا تھا‘ ایک دوسرے پر تنقید کے دوران کسی کی عزتِ نفس مجروح نہیں کی جاتی تھی لیکن اب تو معمولی سی بات کو بھی سوشل میڈیا پر انتہائی غلط رنگ دے کر مخالفین کو نیچا دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی جماعتوں کی قیادت اپنے کارکنوں کو اخلاقی اقدار کا پابند بنائے۔ خدارا! سیاسی مخالفت کو دشمنی میں نہ بدلیں اور نہ ہی نوجوان نسل کا اخلاق تباہ کریں ۔ سینئر سیاستدان اگر اپنے بیانات اور تقاریر میں اخلاقیات کا دامن تھامے رکھیں تو کارکنان اور نوجوان بھی ان کی پیروی کریں گے، بصورتِ دیگر آج دوسروں کی عزتِ نفس مجروح کرنے والا کل کو خود بھی اس کی زد میں آ سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں