غیر محفوظ انتقال خون سے ایچ آئی وی پھیلنے کا انکشاف
انتقال خون سے 15 فیصد مریض اس کا شکار ہوئے ، سفلس، ملیریا اور ڈینگی بھی خون کے ذریعے پھیل سکتے ہیں،طبی ماہرین بعض اوقات وائرس اتنی کم مقدار میں موجود ہوتا ہے کہ سیرولوجی ٹیسٹس میں ظاہر نہیں ہوتا ،صدرپاکستان سوسائٹی آف ہیماٹولوجی
کراچی(این این آئی)طبی ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ ملک بھر میں ایچ آئی وی کے 15 فیصد مریض غیر محفوظ انتقالِ خون کے باعث اس وائرس کا شکار ہوئے جبکہ سفلس، ملیریا اور ڈینگی بھی خون کے ذریعے پھیل سکتے ہیں جس کے پیشِ نظر نیشنل بلڈ ٹرانسفیوژن پالیسی متعارف کروائی گئی ہے۔ نیشنل بلڈ ٹرانسفیوژن پالیسی کے تحت محفوظ انتقال خون کو یقینی بنانے کے لیے سی ایل آئی اے اور نیوکلک ایسڈ ٹیسٹنگ کو لازمی قرار دیا گیا ہے ، ڈاکٹرز کے مطابق اس نظام کو موثر بنانے میں سب سے بڑا چیلنج رضاکارانہ خون عطیہ کرنے کے رجحان کی کمی ہے اس حوالے سے آغا خان یونیورسٹی اسپتال (اے کے یو ایچ) کے سیکشن آف ہیماٹولوجی اینڈ ٹرانسفیوژن میڈیسن کی سربراہ اور پاکستان سوسائٹی آف ہیماٹولوجی کی صدر پروفیسر ڈاکٹر بشریٰ معیز نے بتایا کہ پاکستان کا بلڈ بینک سسٹم طویل عرصے تک فریگمینٹڈ رہا کیونکہ ملک میں مختلف معیار کے بلڈ بینکس کام کر رہے تھے۔
کچھ بلڈ بینکس بین الاقوامی معیار پر پورا اترتے تھے جبکہ کئی نچلی سطح پر کام کر رہے تھے ۔ انہوں نے بتایا کہ اب 2030 تک کے لیے قومی بلڈ ٹرانسفیوژن پالیسی تیار کی گئی ہے جس میں مجموعی طور پر 15 اہداف شامل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں اس وقت بلڈ اسکریننگ کے دوران پانچ بیماریوں کی جانچ کی جاتی ہے جن میں ایچ آئی وی، ہپاٹائٹس بی، ہپاٹائٹس سی، سفلس اور ملیریا شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں زیادہ تر بلڈ بینکس کِٹ بیسڈ یا ریپڈ ٹیسٹنگ پر انحصار کرتے تھے جس کے نتیجے میں بعض اوقات ہیپاٹائٹس بی اور سی جیسے وائرس تشخیص سے رہ جاتے تھے اور آگے پھیلنے کا خطرہ موجود رہتا تھا۔
نئی پالیسی کے تحت تمام بلڈ بینکس کو سی ایل آئی اے بیسڈ ٹیسٹنگ کا پابند بنایا جائے گا۔ اس کے ساتھ نیوکلک ایسڈ ٹیسٹنگ کو بھی شامل کیا گیا ہے ، جو پی سی آر بیسڈ طریقہ ہے ۔انہوں نے کہا کہ بعض اوقات وائرس اتنی کم مقدار میں موجود ہوتا ہے کہ سیرولوجی ٹیسٹس میں ظاہر نہیں ہوتا مگر وہ انتقالِ خون کے ذریعے انفیکشن کا سبب بن سکتا ہے ، ایسے کیسز کی نشاندہی نیوکلک ایسڈ ٹیسٹنگ سے ممکن ہوگی۔انہوں نے کہا کہ 2022 میں ریجنل بلڈ سینٹرز کے ڈیٹا کے مطابق شمالی پاکستان میں ہیپاٹائٹس سی کے کیسز زیادہ پائے گئے ، جبکہ اندرونِ سندھ میں ہیپاٹائٹس سی کی شرح 8 سے 9 فیصد تک رپورٹ ہوئی۔ کراچی میں ہیپاٹائٹس بی کی شرح تقریباً 5 فیصد ہے ۔