نڈھال بدن ،علاج نہ خوراک ،غزہ کے زخمی سسکتے بچوں کی کہانی

نڈھال بدن ،علاج نہ خوراک ،غزہ کے زخمی سسکتے بچوں کی کہانی

غزہ (مانیٹرنگ ڈیسک)غزہ میں اسرائیلی بربریت کا شکار فلسطینی بچے کیلئے خوراک مسئلہ بن گئی ،غزہ کے ہسپتال میں نڈھال بدن، ہاتھوں پر چھالے اور خوراک کی قلت کا شکار لاغرا ور خوفزدہ فلسطینی بچے ایک خوفناک کہانی کا منظر پیش کررہے ہیں ۔

خان یونس میں یورپی ہسپتال کی پارکنگ پر اسرائیلی بمباری میں درجنوں افرادشہید اور زخمی ہوئے ،حملے کے وقت غزہ کی پٹی سے آئے بیماربچوں کواکٹھا کیا جارہاتھااورکئی خاندان ایسے تھے جو بیرون ملک سے اپنے بچوں کا علاج کروا کرواپس آئے تھے ۔بی بی سی نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایاکہ ایک 5ماہ کی فلسطینی بچی سوار آشور جو بہت کمزور ہو چکی ہے ، ان کی بڑی اور بھوری آنکھیں ان کے دبلے پتلے نڈھال بدن پر حاوی ہوتی جا رہی ہیں جو ہر وقت اپنی والدہ کے ساتھ رہتی ہے ۔ا س کی والد ہ نجویٰ نے جنوبی غزہ میں نصر ہسپتال سے ایک ویڈیو پیغام بھجوایا جس میں انہوں نے کہا کہ میں چاہتی ہوں کہ میری بیٹی کو وہ علاج میسر ہو جس کی اسے ضرورت ہے ، وہ صحت یاب ہو اور پہلے جیسی ہو جائے ، باقی بچوں کی طرح کھیلے ، بڑی ہو۔ وہ میری پہلی اولاد ہے اور میرا دل اس کیلئے ٹوٹا جا رہا ہے ۔گزشتہ چند دن کے دوران سوار کی جلد میں انفیکشن ہو گیا، اس کے ہاتھوں پر چھالے بن چکے ہیں،اس کا پیٹ اور آنتیں بھی شدید متاثر ہیں۔ اس وقت کوشش کی جا رہی ہے کہ اسے غذائیت ملتی رہے ۔ اسرائیلی پابندیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورت حال میں اس کا جسمانی دفاعی نظام ہی بھرپور طریقے سے اس کیلئے لڑ رہا ہے ۔ اس کے رونے کی آواز بھی مدھم ہوتی جا رہی ہے لیکن اس میں ایک ایسی زندگی کی آواز آتی ہے جو خود کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے ۔ مختلف امراض کی وجہ سے وہ صرف ایک مخصوص فارمولا دودھ ہی پی سکتی ہے جودستیاب نہیں ،اردن کے ایک فیلڈ ہسپتال سے محدود تعداد میں یہ دودھ ملالیکن یہ بہت تھوڑا ہے ۔ نجویٰ نے کہا کہ ہر طرف راکٹ ہیں، ہمارے سر کے اوپر سے گولیاں چلتی ہیں، کھانا اور زندگی کے بہت برے حالات ہیں،آٹا نہیں، قیمتیں بہت بڑھ چکی ہیں۔دوسری طرف عمان میں پہلے ہی غزہ کی پٹی کے بہت سے خاندان ہیں جن کے بچوں کی بیماری یا زخموں کا علاج ہو رہا ہے ، ان کو غزہ سے باہر نکالنے کیلئے اسرائیلی حکام سے رابطہ کرنا پڑتا ہے جو بچوں کے والدین کے بارے میں جانچ پڑتال کرتے ہیں۔جنوری میں ایک بچے عبدالرحمن کی ٹانگ ضائع ہو گئی تھی،چار ماہ سے وہ ایک ایسی جگہ پر موجود ہیں جو محفوظ بھی ہے اور جہاں خوراک بھی میسر ہے ۔عبدالرحمن کی والدہ عصمیٰ نے غزہ میں اپنے بچوں اور والدین سے ویڈیوکال پر بات کی ، بچوں نے ان کو دیکھ کر ہاتھ ہلائے اور بوسے دئیے ۔ عصمیٰ کا کہناتھاکہ میں چاہتی ہوں کہ واپس جاؤں تو سب ٹھیک ہو۔عصمیٰ اپنے خوفزدہ اور بھوکے بچوں کو جنگ میں پھنسے ہوئے دیکھ رہی ہے اور خود ایک محفوظ مقام پر موجود ہے ، اس کیلئے یہ تصور کرنا ممکن ہو سکتا ہے کہ ایسا ہر شخص غزہ واپس کیوں جانا چاہے گا۔جنگ کی بربریت بڑھتی جا رہی ہے ، ہلاک ہونے والے ، ہلاک ہونے والوں کے جسم کے ٹکڑے ، مرنے والے اور فاقہ کرنے والے مناظرروزانہ دیکھنے کو مل رہے ہیں ۔

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں