اسرائیلی فوج اور حکومت میں کشیدگی ،آرمی چیف کی سرزنش
یروشلم،غزہ (اے ایف پی)غزہ جنگ میں توسیع سے قبل اسرائیلی فوج اور حکومت میں کشیدگی برقرار ہے ۔ اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے آرمی چیف لیفٹیننٹ جنرل ایال زامیر کو افسروں کی تقرری ان کی منظوری کے بغیر کرنے پر سرزنش کی ہے ۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق غزہ میں جنگ کے اگلے مرحلے پر فوج اور حکومت میں دو ہفتوں سے اختلافات جاری ہیں۔ زامیر غزہ سٹی پر مکمل قبضے کے خلاف لیکن محاصرے کے حق میں ہیں۔ اسرائیلی حزب اختلاف کے سربراہ یائر لاپیڈ نے غزہ میں یرغمال افراد کے حق میں اتوار کو عام ہڑتال کی حمایت کی ہے ۔ یورپی انسانی حقوق کونسل کے کمشنر مائیکل او فلیہری نے رکن ممالک سے کہا ہے کہ وہ اسرائیل کو ایسے ہتھیار فراہم نہ کریں جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں استعمال ہو سکیں۔ دوسری جانب منگل کو غزہ پر اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں مزید 43 افراد شہید اور 100 سے زائد زخمی ہو گئے ۔ غذائی قلت کے باعث دو بچوں سمیت مزید پانچ افراد شہید ہوگئے ۔ ادھر غزہ جنگ بندی مذاکرات میں شرکت کیلئے حماس کی اعلیٰ قیادت مصر پہنچ گئی،60 روزہ جنگ بندی اور تمام اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کا معاملہ زیر بحث آئے گا۔ اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ ہم کسی کو زبردستی غزہ سے نہیں نکال رہے ، انہیں لڑائی سے بچنے کا موقع دے رہے ہیں جیسے شام، یوکرین اور افغانستان میں لوگ جنگ سے بچنے کیلئے نکلے ۔علاوہ ازیں اسرائیلی وزیراعظم نے ایرانی عوام پر زور دیا ہے کہ وہ بجلی و پانی کی قلت پر حکومت سے جواب طلب کریں اور سڑکوں پر نکلیں۔ انہوں نے کہا کہ ایران کی آزادی کے بعد اسرائیلی ماہرین ہر شہر میں جدید پانی کی ٹیکنالوجی فراہم کریں گے ۔سکیورٹی ماہرین کے مطابق غزہ کو اسرائیلی فوج کیلئے فتح کرنا ایک مشکل اور مہنگا آپریشن ہوگا ، ہزاروں حماس جنگجو مضبوط مزاحمت کیلئے تیار ہیں۔ ممتاز عالمی شخصیات پر مشتمل ’ایلڈرز‘ گروپ نے غزہ کی صورتحال کو نسل کشی قرار دیا۔ نیوزی لینڈ کی سابق وزیر اعظم ہیلن کلارک اور آئرلینڈ کی سابق صدر میری روبنسن نے مصر میں سرحدی مقامات کا دورہ کیا۔ کلارک نے عالمی رہنماؤں سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل پر دباؤ ڈالیں تاکہ یہ ظلم و بربریت ختم ہو۔ ہسپانوی وزیرِ ہجرت ایلما سائز نے کہا گزشتہ چند مہینوں کے دوران غزہ سے 44 زخمی یا بیمار بچوں اور ان کے 100 رشتہ داروں کو بحفاظت نکال لیا ہے ۔