اقوام متحدہ:پاکستان کا موقف تسلیم،بھارت کا مسترد:سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ معطلی غیر قانونی:رپورٹ
پہلگام واقعہ میں پاکستان کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد نہیں، بھارت سندھ طاس معاہدے پر خلوص نیت سے عمل کرے ، آپریشن سندور عالمی قانون کی خلاف ورزی :ماہرین،بھارت نے سوالنامہ کا جواب نہ دیا نیلم، جہلم دریاؤں کا پانی بھی روک دیا، وضاحت طلب،بھارت کے اقدامات امن و استحکام کیلئے خطرناک :صدر زرداری ، انسانی بحران جنم لے سکتا،عالمی برادری پانی کو ہتھیار بنانے سے روکے :اسحق ڈار
نیویارک(نیوز ایجنسیاں،مانیٹرنگ ڈیسک) اقوام متحدہ کے خصوصی ماہرین نے پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی، پہلگام حملے اور 7 مئی کو بھارتی فوجی کارروائی سے متعلق اپنی رپورٹ میں پاکستان کے موقف تسلیم اور بھارت کا مسترد کرتے ہوئے کہا آپریشن سندور عالمی قانون کی خلاف ورزی تھا، بھارت پہلگام واقعہ میں پاکستان کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد نہ دے سکا،سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ معطلی غیر قانونی ہے ، پانی کو دباؤ کا ہتھیار نہیں بنایا جاسکتا،بھارت خلوص نیت سے سندھ طاس معاہدے پر عمل کرے ۔ماہرین نے بھارت کو رپورٹ کی شفافیت اور انسانی حقوق سے متعلق سوالنامہ بھیجتے ہوئے بھارتی اقدامات پر متعدد سوالات اٹھائے تھے اور جواب کیلئے 60دن کا وقت دیا تھا لیکن بھارتی حکومت جواب دینے میں ناکام رہی، جس پر ماہرین نے رپورٹ جاری کردی۔ اقوام متحدہ کے ماہرین نے کہا سندھ طاس معاہدے کومعطل کرنے کے بھارتی اعلان پر گہری تشویش ہے ، پانی کے بہا ؤ میں رکاوٹ یا اس کی دھمکی کروڑوں پاکستانیوں کے بنیادی حقوق متاثر کرتی ہے ، پانی، خوراک، روزگار، صحت، ماحول اور ترقی کے حقوق اس فیصلے کی زد میں آتے ہیں۔
سرحد پار حق آب میں مداخلت سے اجتناب لازم ہے ، پانی کو سیاسی یا معاشی دبا ؤکا آلہ نہیں بنایا جا سکتا، کوئی فریق یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدے کو معطل نہیں کر سکتا، جب تک فریقین نئے معاہدے سے اسے ختم نہ کریں اس وقت تک معاہدہ نافذ رہتا ہے ،معاہدے کی معطلی(ہیلڈ ان ابینس)کی بھارتی اصطلاح مبہم ہے ۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ معاہداتی قانون کی معطلی سے متعلق دفعات کو بھارت واضح طور پر بروئے کار نہیں لایا، معاہدے کے طے شدہ طریقہ کار کو بائی پاس کر کے یکطرفہ معطلی غیر قانونی ہے ، تنازعات کا حل معاہدے میں درج تصفیہ کے طریقہ کار کے تحت ہونا چاہیے ، بھارت کی معاہدے کی سنگین خلاف ورزی(میٹیریل بریچ )کی دلیل کمزور ہے ۔پاکستان کی جانب سے معاہدے کی کسی شق کی خلاف ورزی ظاہر نہیں ہوئی، بھارت کا مبینہ سرحد پار دہشتگردی کے الزامات کو آبی معاہدے کی خلاف ورزی بنانا قانوناً غیر متعلق ہے ، بنیادی حالات کی تبدیلی کی دلیل کا معیار انتہائی سخت ہے ، دلیل کے لیے صرف آبادی یا توانائی کی ضروریات کافی نہیں، بھارت نے کاؤ نٹر اقدامات کے جواز کیلئے قابل اعتبار اور مربوط شواہد نہیں دئیے ۔پانی روکنا یا معاہدہ معطل کرنا غیر مناسب قدم ہے ، پانی روکنے کا بوجھ براہِ راست عام پاکستانیوں کے حقوق پر پڑتا ہے ، کاؤنٹرمیژرزبنیادی انسانی حقوق سے متعلق ذمہ داریوں سے استثنیٰ نہیں دیتے ، کاؤنٹر میژرز کیلئے نوٹس، مذاکرات کی پیشکش اور طریقہ کار کی قانونی شرائط پوری ہونی چاہئیں، کاؤنٹر میژرز عارضی اور قابل واپسی ہوتے ہیں، انہیں مستقل خاتمے یا معطلی کا جواز نہیں بنایا جا سکتا۔
خصوصی ماہرین کی رپورٹ میں بھارت کی وجہ سے سندھ طاس معاہدے میں بگاڑ کی نشاندہی بھی کی گئی ہے کہ انڈس کمیشن کے سالانہ اجلاس 2022 کے بعد نہیں ہوئے ، ڈیٹا تبادلے میں رکاوٹ اور تصفیہ جاتی شقوں پر تنازع معاہدے کی روح کے خلاف ہے ، بھارت نے ثالثی کارروائیوں میں شرکت سے گریز کیا، اور سندھ طاس معاہدے کے دائرہ اختیار کو چیلنج کیا۔ بھارت سے وضاحت، ممکنہ تلافی و معذرت پر باضابطہ جواب طلب کیا جائے ، سندھ طاس معاہدے پر نیک نیتی سے عمل درآمد پر باضابطہ جواب بھی مانگا جائے ۔ ماہرین نے بھارت سے انسانی نقصان روکنے کے اقدامات پر باضابطہ جواب طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت سندھ طاس معاہدے پر نیک نیتی سے عمل کرے ، پاکستان کے حقوق کی خلاف ورزی سے بھارت باز رہے ۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بھارت پانی میں رکاوٹ سے پیدا ہونے والی انسانی حقوق کی پامالی اور نقصانات روکنے کے لیے عملی اقدامات واضح کرے ۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ پاکستان نے پہلگام حملے میں کسی بھی قسم کے ملوث ہونے کی سختی سے تردید کی ہے اور واقعے کی شفاف اور غیرجانبدار تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے ۔یو این ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت پہلگام حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کے کوئی ٹھوس شواہد پیش نہیں کر سکا۔
دہشتگردی کے نام پر یکطرفہ فوجی طاقت کے استعمال کا کوئی الگ حق تسلیم شدہ نہیں،بھارت نے اقوامِ متحدہ چارٹر کے آرٹیکل 51کے تحت سکیورٹی کونسل کو باضابطہ اطلاع نہیں دی، جوکہ مطلوبہ طریقہ کار کی خلاف ورزی ہے ، پاکستانی حدود میں بھارتی حملوں سے شہری جاں بحق اور زخمی ہوئے ۔ اگر طاقت کا استعمال غیر قانونی ہو تو یہ حق زندگی کی خلاف ورزی بن سکتا ہے ، بھارت کا یہ طرزِ عمل بڑے تصادم کا خطرہ پیدا کر سکتا ہے ۔ بھارتی اقدام مسلح حملہ سمجھا جائے تو پاکستان کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے ، بھارتی اقدامات پاکستان کی خودمختاری، اور عدم مداخلت کے اصولوں کی سنگین خلاف ورزی ہیں۔ بھارت پاکستان کے حقوق کی خلاف ورزی سے باز رہے اورپانی روکنے سے پیدا ہونے والے انسانی حقوق کی پامالی سے گریزکرے ۔اقوام متحدہ کے سپیشل رپوٹیورز نے بھارت کا جھوٹ بے نقاب کرتے ہوئے 5سوالات پر مبنی سوالنامہ مودی سرکار کوبھیجاہے ، جس میں پوچھا گیا ہے کہ کیا بھارت کے پاس اپنے لگائے ہوئے الزامات کا کوئی ثبوت موجود ہے ؟،کیا بھارت طاقت کے غیرقانونی استعمال سے انسانی زندگیوں کے نقصان کا ازالہ کرے گا؟،اس پرمعافی مانگے گا؟، بھارت سندھ طاس معاہدے کی ذمہ داریاں ادا کرے گا؟، پاکستان کے قانونی، بنیادی، انسانی حقوق کی پاسداری کرے گا؟،کیا بھارت سندھ طاس معاہدے کی \"ڈسپیوٹ ریزولوشن\" کی شقوں کی پاسداری کا ارادہ رکھتا ہے ؟،بتایا جائے بھارت جموں کشمیر تنازع کے پرامن حل اور کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینے کا ارادہ رکھتا ہے ؟ ،بھارت نے اقوام متحدہ کے کسی بھی سوال کا جواب نہیں دیا۔ سوالات کے جواب نہ آنے پر اقوام متحدہ کے خصوصی ماہرین نے رپورٹ جاری کر دی۔
اسلام آباد (وقائع نگار، نیوز ایجنسیاں، مانیٹرنگ ڈیسک)صدر آصف علی زرداری نے کہا بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدہ تسلیم نہ کرنا اور پانی روکنا سنگین نتائج پیدا کر سکتا ہے ،اقوام متحدہ کی رپورٹ نے سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے بھارتی ہٹ دھرمی بے نقاب کی،ر پورٹ میں مئی میں پاکستان پر بھارتی حملے کے حوالے سے گہری تشویش ظاہر کی گئی ہے ، جو پاکستان کے موقف کی تائید بھی کرتی ہے ۔ پاکستان نے بھارتی حملے کو یو این منشور کی خلاف ورزی اور اپنی خود مختاری پر حملہ قرار دیا ہے ۔نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے مختلف سفارتکاروں کو بھارت کی جانب سے سند ھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا دریائے چناب میں اچانک اتار چڑھاؤ اور یکطرفہ اخراج تشویشناک ہے ، بھارتی اقدامات سے ملکی سلامتی ،ہمارے شہریوں کی زندگیوں اور معاش کے ساتھ ساتھ خوراک اور معاشی تحفظ کو براہ راست خطرہ ہے ۔ہم نے اس سال اپریل میں بین الاقوامی قانون، خاص طور پر معاہدوں کے قانون سے متعلق ویانا کنونشن کے آرٹیکل 26 کی سراسر خلاف ورزی کرتے ہوئے سندھ آبی معاہدے کے یکطرفہ تعطل کا مشاہدہ کیا لیکن اب ہم جس چیز کا مشاہدہ کر رہے ہیں وہ بھارت کی طرف سے بنیادی اور سنگین خلاف ورزیاں ہیں جو سندھ طاس معاہدے کی روح پرحملہ ہیں،جو کہ علاقائی استحکام اور بین الاقوامی قانون کے خلاف ہیں۔
ہم نے اس سال 30 اپریل سے 21 مئی 2025 کے دوران دریائے چناب کے بہاؤ میں غیر معمولی، اچانک تغیرات کا مشاہدہ کیا ہے اور گزشتہ ہفتے 7 سے 15 دسمبر 2025 تک پانی کے بہاؤ میں یہ تغیرات پاکستان کے لیے انتہائی تشویشناک ہیں، کیونکہ یہ بھارت کی طرف سے دریائے چناب میں یکطرفہ طور پر پانی چھوڑنے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ بھارت نے یہ پانی بغیر کسی پیشگی اطلاع یا پاکستان کے ساتھ کسی ڈیٹا یا معلومات کے اشتراک کے ، جیسا کہ معاہدے کے تحت ضروری ہے ، چھوڑا ہے ۔پانی کے بہائو میں غیر معمولی تبدیلی کے بھارتی اقدامات نے ہمارے انڈس واٹر کمشنر کو اس معاملے پر وضاحت طلب کرنے کے لیے اپنے بھارتی ہم منصب کو خط لکھنے پر مجبور کیا ہے ۔ بھارت کی حالیہ کارروائی واضح طور پر پانی کو ہتھیار بنانے کی مثال دیتی ہے ، جس کی طرف پاکستان مسلسل عالمی برادری کی توجہ مبذول کر رہا ہے ۔ ہندوستان کی جانب سے پانی کے بہائومیں خلل سے ہمارے شہریوں کی زندگیوں اور معاش کے ساتھ ساتھ خوراک اور معاشی تحفظ کو براہ راست خطرہ ہے ۔ہم امید کرتے ہیں کہ ہندوستان پاکستان کے انڈس واٹر کمشنر کے سوالات کا جواب دے گا، دریا کے بہاؤ میں کسی بھی یکطرفہ ہیرا پھیری سے باز رہے گا، اور معاہدے کی دفعات کے تحت اپنی تمام ذمہ داریوں کو مکمل طور پر پورا کرے گا۔
بھارت کی طرف سے معاہدے کی حالیہ خلاف ورزی صرف ایک مثال ہے ۔ بھارت نے مسلسل ایک منظم طریقے سے معاہدے کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہے ۔بھارت کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس جیسے کشن گنگا اور رتلے کی تعمیر میں ڈیزائن کی خصوصیات شامل ہیں جو معاہدے کی تکنیکی خصوصیات کی صریح خلاف ورزی کرتی ہیں۔ڈیموں کی تعمیر کے ساتھ، پانی کو ذخیرہ کرنے اور اس میں ہیرا پھیری کرنے کی بھارتی صلاحیت بھی بڑھ رہی ہے ، جس سے پاکستان کی سلامتی، معیشت اور پاکستان کے 240 ملین لوگوں کا معاش بھی خطرے میں پڑ رہا ہے ۔ہندوستان نے معاہدے کے لیے درکار پیشگی معلومات، ہائیڈرولوجیکل ڈیٹا اور مشترکہ نگرانی کا اشتراک بھی روک دیا ہے ، جس نے پاکستان کو سیلاب اور خشک سالی سے دوچار کر دیا ہے ۔اس طرح کے غیر قانونی اور غیر ذمہ دارانہ بھارتی طرز عمل سے پاکستان میں انسانی بحران جنم لے سکتا ہے ۔ بھارت کی طرف سے جاری پانی کی ہیرا پھیری بین الاقوامی انسانی حقوق اور بین الاقوامی انسانی قانون کی سنگین خلاف ورزی کرتی ہے ، جبکہ غربت اور بھوک پر پائیدار ترقی کے اہداف پر پیشرفت میں رکاوٹ ہے ۔اگر بھارت کو معاہدے کی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کرنے کی اجازت دی جاتی ہے ، تو ہم ایک خطرناک مثال قائم کر رہے ہیں۔تشویشناک بات یہ ہے کہ بھارت اب معاہدے کے اپنے تنازعات کے حل کے طریقہ کار کو توڑ رہا ہے ۔
ثالثی اور غیر جانبدار ماہرانہ کارروائیوں کی عدالت میں حصہ لینے سے انکار کر کے بھارت معاہدے کی دفعات کے تحت اچھی طرح سے قائم ثالثی کے عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے دانستہ حکمت عملی پر عمل پیرا ہے ۔خیال رہے بھارت نے چناب کے بعد دریائے جہلم اور دریائے نیلم کا پانی بھی روک دیا ہے ، ذرائع کے مطابق دریائے جہلم اور نیلم میں پانی کی آمد کم ہوکر صرف 3 ہزار کیوسک رہ گئی ہے ۔ چار روز پہلے پانی کی آمد 5 ہزار کیوسک سے زائد تھی۔انڈس واٹر کمیشن کے ذرائع کا کہنا ہے کہ دریاؤ ں کا پانی روکنا سندھ طاس معاہدے کی صریحاً خلاف ورزی ہے ۔انڈس واٹر کمیشن کے ذرائع کے مطابق دریائے چناب اور جہلم میں پانی کا بہائو تاریخ کی کم ترین سطح پر آگیا ہے ۔دریائے چناب میں چار روز پہلے پانی 10 ہزار کیوسک تھا جو 5 ہزار کیوسک رہ گیا ہے ۔ چناب میں ہیڈ مرالہ کے مقام پر پانی کا اخراج صفر رہ گیا۔انڈس واٹر کمشنر مہر علی شاہ نے ایک انٹرویو میں کہا کہ دریائے چناب اور جہلم میں پانی کے بہائو میں 90 فیصد کمی ہوئی۔ دریاؤں میں پانی کا بہاؤ صرف 10 فیصد رہ گیا۔ بھارتی واٹر کمشنر کو باضابطہ خط لکھا جا چکا ہے ، تاہم ابھی تک اس خط کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔