برطانوی وزیراعظم مخالفت کے طوفان سے دوچار
ٹرمپ کے دورہ لندن سے قبل ارکان پارلیمان کو اچانک طلب کیا،ہنگامی اجلاس پارٹی ارکان سے حمایت کی اپیل کی ،اسٹارمر کو ہٹانا انتہائی مشکل ہے :ناقدین واقعے نے اسٹارمر کی قیادت پر نئے سوالات کھڑے کر دئیے :لیبر ارکان پارلیمان
لندن (رائٹرز)امریکی صدر ٹرمپ کے لندن دورے سے ایک دن قبل،برطانوی وزیراعظم کیر اسٹارمر نے اپنی لیبر پارٹی کے ارکان پارلیمان کو اچانک طلب کر کے ایک ہنگامی اجلاس منعقد کیا، تاکہ پارٹی کے اندر بڑھتی ہوئے اختلافات اور قیادت پر سوالات کے بعد اپنی اتھارٹی بحال کر سکیں۔جولائی 2024 کے انتخابات میں تاریخی کامیابی کے بعد اسٹارمر کی مقبولیت میں نمایاں کمی آئی ہے ۔ اجلاس میں انہوں نے پارٹی ارکان سے وفاداری اور حمایت کی اپیل کی۔آٹھ ہفتے بعد یہ اختلافات اس وقت کھل کر سامنے آ گئے جب اسٹارمر کے بعض نامعلوم قریبی ساتھیوں نے چند میڈیا اداروں کو یہ اطلاع دی کہ وزیراعظم کسی ممکنہ قیادت کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں ، حالانکہ فی الحال ایسا کوئی چیلنج سامنے نہیں آیا تھا۔اس بیان نے پارٹی کے متعدد ارکان کو مشتعل کر دیا۔
پانچ لیبر ارکانِ پارلیمان نے نام نہ بتانے کی شرط پر رائٹرز کو بتایا کہ اس واقعے نے اسٹارمر کی قیادت پر نئے سوالات کھڑے کر دئیے ہیں۔پارلیمان میں اسٹارمر نے وضاحت دی کہ انہوں نے اپنے وزیروں کے خلاف کسی بھی حملے کی اجازت نہیں دی اور کہا کہ ان کی ٹیم مکمل طور پر متحدہے ۔اس دوران وزیرِ صحت ویس اسٹریٹنگ جنہیں مبینہ طور پر قیادت کی دوڑ سے جوڑا گیا ، نے ایسے کسی بھی منصوبے کی سختی سے تردید کی اور اسے غلط قرار دیا۔اگرچہ پارٹی میں مایوسی بڑھ رہی ہے ، ناقدین کے مطابق اسٹارمر کو ہٹانا انتہائی مشکل ہے کیونکہ لیبر پارٹی کے اندر اس کے لیے کوئی واضح طریقہ کار موجود نہیں۔فی الحال وہ آئندہ 26 نومبر کے بجٹ اور مئی 2025 کے مقامی انتخابات تک اپنی پوزیشن برقرار رکھنے کی کوشش کریں گے ۔دوسری جانب برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے بی بی سی کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنی غلطیوں کی فوری اصلاح کرے ۔
پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے اسٹارمر نے کہا کہ وہ آزاد اور مضبوط بی بی سی کے حامی ہیں مگر ادارے کو اعلیٰ صحافتی معیار برقرار رکھتے ہوئے اپنی غلطیوں کا ازالہ کرنا چاہیے ۔ ان کا بیان اس وقت سامنے آیا جب ٹرمپ نے اپنی تقریر کی غلط ایڈیٹنگ پر بی بی سی کے خلاف ایک ارب ڈالر ہرجانے کا مقدمہ دائر کرنے کا عندیہ دیا ہے ۔ بی بی سی نے ایڈیٹنگ کی غلطی تسلیم کرتے ہوئے معذرت کرلی ہے جبکہ ادارے کے دو اعلیٰ عہدیدار مستعفی ہوچکے ۔