پاک افغان کشیدگی،بھارت کا افغانستان کی تجارت پر قبضہ
بھارت تنازع کا فائدہ اٹھا کر کابل کیساتھ اقتصادی ، سٹریٹجک تعلقات مضبوط کر رہا
نئی دہلی(دنیامانیٹرنگ)پاک افغان کشیدگی، بھارت کا افغانستان کی تجارت پر قبضہ، کشیدگی اور سرحد کی بندش کے باعث بھارت تنازع کا فائدہ اٹھا کر کابل کے ساتھ اقتصادی اور سٹریٹجک تعلقات کو مضبوط کر رہا ۔طورخم اور چمن جیسے اہم تجارتی راستے بند ہیں، جس نے تجارت کو مفلوج کر دیا ہے ، بھارت فائدہ اٹھانے والا ملک بن کر ابھرا ہے ۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان تنازعات کے باعث تجارت تقریباً نصف تک گر گئی ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق مالی سال 2024-25 میں دو طرفہ تجارت میں 25 فیصد اضافہ ہوا، جو تقریباً دو ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ افغان چیمبر آف کامرس کے ممبر خان جان الکوزے کے مطابق سرحد کی بندش اور فوجی کشیدگی کے باعث یہ تقریباً ایک ارب ڈالر تک گر گیا ہے ۔ افغان طالبان متبادل تجارتی راستوں کی تلاش میں ہیں اور نئی دہلی نے اس کے لیے خود کو حل کے طور پر پیش کیا ہے ۔افغان وزیر تجارت نورالدین عزیزی نے حال ہی میں نئی دہلی کا سفر کیا تھا تاکہ توسیع شدہ اقتصادی تعلقات پر بات چیت کی جاسکے ۔دورے کے دوران دہلی، امرتسر اور ممبئی جیسے بھارتی شہروں سے کابل کیلئے کارگو پروازوں میں اضافے پر بھی بات چیت کی گئی ۔
دونوں ممالک نے تجارتی اتاشی بھی مقرر کیے ہیں۔بھارت کے نقطہ نظر کا مرکز ایران میں چابہار بندرگاہ ہے ،بھارت اس بندرگاہ میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کر رہا ہے ،جب سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات خراب ہوئے ہیں، افغان تاجر خوراک، تعمیراتی سامان اور اشیائے ضروریہ جو پہلے پاکستان کے راستے آتے تھے ، درآمد کرنے کے لیے بندرگاہ کو استعمال کرنے کے لیے منتقل ہو رہے ہیں۔بھارت کے سابق سفیر اجے بساریہ نے جرمن نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو کو بتایا بھارت کو چابہار بندرگاہ کی اپ گریڈیشن کو ترجیح دینی چاہیے ،انہوں نے کہا اسلام آباد اور کابل کے درمیان تنازعے نے بھارت کے لیے افغانستان کے بنیادی تجارتی گیٹ وے کے طور پر اپنی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے لیے ایک کھڑکی پیش کی ہے ۔پاکستان میں بھارت کے سابق ہائی کمشنر راگھون چابہار کے ساتھ بھارت کے مواقع کی کھڑکی کے بارے میں احتیاط برتنے کی بات کہتے ہیں۔راگھون نے کہا ہمیں یہ مانتے ہوئے محتاط رہنا چاہیے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارتی رکاوٹ خود بخود ہمارے لیے ایران کے راستے افغانستان کو برآمد کرنے کے مواقع پیدا کرتی ہے ۔بنیادی ڈھانچے کی شدید رکاوٹوں کے علاوہ امریکی پابندیوں جیسے مسائل ہیں۔