تازہ اسپیشل فیچر

جدید دور کے سائنسی و علمی تقاضے

لاہور: (وقاص ریاض) دور حاضر میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں مغربی ممالک کے ساتھ ساتھ عوامی جمہوریہ چین ، جنوبی کوریا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کا سکہ رائج ہے۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کی دوڑ میں نہ صرف پیچھے ہے بلکہ مکمل طور پر ترقی یافتہ ممالک کے رحم و کرم پر ہے۔ اس کی وجہ جاننے کے لیے نظر دوڑائی جائے تو پاکستان کے پاس مقامی طور پرجدید لیبارٹریوں کا فقدان، عوامی عدم دلچسپی اور حکومتی عدم تو جہ عیاں نظر آئے گی۔

کبھی کبھار کسی پاکستانی سائنسدان کا سائنس وٹیکنالوجی کے میدان میں کوئی نیا کارنامہ دیکھنے کو ملے تو امید کی ایک کرن دل و دماغ میں پھوٹتی ہے لیکن یہ کرن بہت جلد مدھم ہوجاتی ہے کیونکہ اس کارنامے کے پیچھے مغربی ممالک کی جامعات کا ہی کردار ہوتا ہے ۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے نوجوان بھلا کتنے ہی ذہین اور تعمیری سوچ کے حامل ہوں ان کی صلاحیتوں کو نکھار تب ہی ملے گا جب ان کی رسائی ترقی یافتہ ممالک کی جامعات اور لیبارٹریوں تک ہوگی۔ پاکستان کے چوٹی کے پروفیسر ، ایٹمی سائنسدان یا ماہر اقتصادیات کبھی بھی کسی قابل قدر مقام تک نہ پہنچتے اگر انہیں مغربی دنیا کے اعلیٰ تعلیمی اداروں تک رسائی حاصل نہ ہوتی۔

پاکستان کے ایٹمی اورنوبل انعام یافتہ سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام بھی مشہور زمانہ برطانوی اعلیٰ تعلیمی ادارے کیمرج یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھے ۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی پاکستان آنے سے قبل ہالینڈ کی جدید لیبارٹری میں تحقیق کرتے رہے اور اگر یہ کہا جائے کہ پاکستانی ایٹمی پروگرام کے پیچھے بھی ہالینڈ کا کردار ہے تو غلط نہ ہوگا کیونکہ ڈاکٹر اے کیو خان ہالینڈ سے تربیت لئے بغیر شاید یہ اہم سنگ میل عبور نہ کر پاتے۔

تمام ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کی وجوہات کو گہرائی میں پرکھا جائے تو ایک عنصر عام نظر آئے گا اور وہ ہے جدید نظام تعلیم۔ اس جدید نظام تعلیم کی بدولت ہی مغربی دنیا نے عروج پایا اور بوسیدہ نظام تعلیم کی بدولت ہی آج پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر ممالک کی عوام کسمپرسی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں ۔

بوسیدہ اور ناقص نظام تعلیم کی موجودگی میں کسی بھی قوم کا ترقی کرنا ناممکن ہے کیونکہ ایسا نظام نوجوانوں میں تعمیری سوچ اور لگن پیدا نہیں کرسکتا اور ان عناصر کی عدم موجودگی میں نوجوانوں کے لیے مستقبل کی درست سمت کا تعین مشکل ہے۔

آج بھی لگ بھگ دو لاکھ سے زائد پاکستانی نوجوان طلباء سات سمندر پار موجود جامعات میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے موجود ہیں جن میں سے نصف سے زائد وطن کی موجودہ غیر یقینی سیاسی و معاشی صورتحال کے پیش نظر واپس پاکستان آنے کا ارادہ نہیں رکھتے جو کہ پاکستان کے مستقبل کے لیے خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں کیونکہ پاکستان کا مستقبل ان ہنرمند اور پیشہ ور نوجوانوں سے وابستہ ہے اور مستقبل میں ان کی صلاحیتوں سے پاکستان کی بجائے دنیا کے دیگر ممالک فائدہ اٹھائیں گے۔

تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین سے بندہ ناچیز کی گزارش ہے کہ ملک کے وسیع تر قومی مفاد میں آپس کے اختلافات کو پس پردہ ڈال کر پاکستان کے رخ کو درست سمت موڑا جائے جس میں غریب کے لئے خوشحالی کی نوید ، امیر کے دل میں غریب کا درد موجود ہونے کے ساتھ ساتھ نوجوان نسل کے لئے شاندار مستقبل کی نوید بھی ہو۔

ملک کے تمام اداروں میں میرٹ کو یقینی بنایا جائے اور اساتذہ کو بھی معاشرے میں وہی مقام دیا جائے جس کے وہ حقدار ہیں۔عوام الناس سے بھی اپیل ہے کہ اپنی ترجیحات پر نظر ثانی کی جائے اور اس امر کو سمجھا جائے کہ قوموں کی عظمت اور عزت کا دارومدار صرف تعلیم اور سازگار ہنر سے وابستہ ہے۔

پاکستانی طلباء میں موجود سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ یہ نصابی عمل میں شارٹ کٹ انداز اپنانے کے عادی ہوچکے ہیں یعنی کسی بھی اسائمنٹ کو نقل کر کے چھاپ دینا ، بغیر سوچے سمجھے ر ٹے رٹائے جوابات امتحان میں لکھ آنا وغیرہ ۔جدید نظام تعلیم کے متعارف کروانے سے پاکستان کے مستقبل کے لیے امید سحر کی تازہ کرن نظر آئے گی جو اس قوم کے موجودہ انتظامی ڈھانچے میں تازہ روح پھونک سکتی ہے۔

جس سے پاکستان بین الاقوامی سطح پر اپنا کھویا ہوا مقام واپس حاصل کر کے دنیا کی بہتری کے لیے مؤثر کردار ادا کرنے کے قابل بن سکتا ہے۔ اللہ کی بارگاہ میں دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری حالت پر اپنی رحمت کی بارش کا نزول فرمائے اور ہمیں اپنے فرامین کی روشنی میں جدید دور کے تقاضوں کومد نظر رکھتے ہوئے زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

بقول شاعر
حیرت ہے کہ تعلیم وترقی میں ہے پیچھے
جس قوم کا آغاز ہی اقراء سے ہوا تھا

وقاص ریاض سرکاری یونیورسٹی کے شعبہ فزکس میں ریسرچر ہیں، ان کے تحقیقی مضامین ملک کے موقر جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔