تازہ اسپیشل فیچر

رمضان کی سوغاتیں ڈبوں میں بند ہوں یا کھلی، آپ کا انتخاب کیا ہے؟

لاہور: (سمیعہ اطہر) رمضان المبارک، جس کی ہر ہر گھڑی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔ بندے اپنے رب کو راضی کرنے کیلئے فرائض و نوافل کا خاص اہتمام کرتے ہیں تو مساجد کی رونقیں بڑھ جاتی ہیں۔

اسی ماہ گھروں، گلیوں، بازاروں میں روایتی گہما گہمی بھی اسے دوسرے مہینوں سے ممتاز بناتی ہے، گھروں میں سحر و افطار کے لیے خاص پکوان تیار ہوتے ہیں تو بازار بھی کھانے پینے کی خصوصی چیزوں سے سج جاتے ہیں۔

مختلف قسم کی کھجوریں اور کھجلہ پھینی ان میں سب سے زیادہ منفرد ہیں، رمضان میں ان اشیا کا استعمال تو اسی طرح جاری ہے لیکن اب اس کے ڈھنگ بدلتے جا رہے ہیں، پہلے جو کھجور ٹھیلوں اور پتھاروں پر فروخت ہوتی تھی، اب پیکٹ میں عام ہو گئی ہے جن کا پہلے پہل تو صرف پوش علاقوں میں ہی رجحان تھا لیکن اب یہ ہر دکان اور سٹور پر دستیاب ہیں، اسی طرح پھینی بھی ہے۔

جیسے ہی رمضان شروع ہوتا ہے، حلوائیوں کی دکانیں سج جاتی ہیں، کڑاہیوں میں گول گول لچھے دار خوب صورت پھینیاں تلی جانے لگتی ہیں تو لوگ بھی ان پر ٹوٹ پڑتے ہیں، اس بار پھینی بھی پیکٹ میں آگئی ہے۔

یوں تو پیکٹ میں چیزوں کا آنا کچھ بری بات نہیں لیکن ایک عام تاثر یہ ہے کہ اس سے چیزوں کی مقدار کم اور خرچہ زیادہ ہوتا ہے، کسی حد تک یہ خیال درست ہے لیکن زیادہ تر لوگ اس کے حق میں ہیں۔

کئی لوگ کہتے ہیں پیکٹ میں اشیاء کا معیار اچھا اور صاف ستھرا ہوتا ہے، اس کے علاوہ جو اجزاء ان مصنوعات کی تیاری میں استعمال کیے گئے ہوتے ہیں وہ پیکٹ پر ظاہر بھی ہوتے ہیں، ناقص مٹیریل، خراب معیار یا کسی جعلسازی کی صورت میں اُس کمپنی سے براہ راست شکایت بھی ہو سکتی ہے یا محکمہ خوراک میں شکایت بھی درج کرائی جاسکتی ہے جبکہ ٹھیلے پر یا دکانوں پر کھلی ملنے والی اشیاء کے معیار کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

کھلی کھجور پر ہزاروں مکھیاں ان میں کروڑوں جراثیم کی موجودگی کا پتہ دے رہی ہوتی ہیں، ان کو رگڑ کر دھونے سے سارا گودا نکل آتا ہے، دکاندار بھی بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں، سارا سال جس قیمت پر کھجور فروخت ہوتی ہے، رمضان آتے ہی دکاندار قیمتیں ڈبل کر دیتے ہیں، اسی طرح کھجلہ پھینی وغیرہ ہیں، ان میں کیسا تیل استعمال ہوا اور دیگر اجزاء معیاری ہیں یا نہیں ان سب کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا، حفظان صحت کے اصولوں کا تو نام و نشان نہیں، یہ کھلی جگہ رکھی ہوتی ہیں جہاں گرد اور جراثیم کی بھرمار ذائقہ خراب کرتے ہیں لیکن پیک شدہ پھینی میں یہ مسئلہ نہیں ایک اور خاص بات یہ ہے کہ ان اشیاء کی قیمتیں ڈبوں پر درج ہوتی ہیں، موقع کا فائدہ اٹھا کر ان کی قیمت بڑھائی نہیں جاتی۔

اس کے برعکس بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ پیکٹ میں بند اشیاء کو جانچا نہیں جا سکتا اور بعض دفعہ ان کی کوالٹی بہت خراب نکل آتی ہے، اسی طرح سے ان اشیاء کو کمرشلائز کر کے پیکنگ کی مد میں زیادہ قیمت وصول کی جاتی ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر چیز میں خرابی نکل آئے یا بھاؤ زیادہ لگے تو وہ سامنے موجود دکاندار سے بات کر سکتے ہیں، بار گین کرسکتے ہیں، لیکن پیکٹ کی اشیاء میں یہ ممکن نہیں، اسی طرح جو دکاندار خراب کوالٹی کی اشیاء فروخت کرتا ہے گاہک اس سے دوبدو شکایت کر سکتا ہے وہ اپنی کوالٹی بہتر بنا لے گا لیکن پیکٹ کی اشیاء میں مینو فیکچرر تک رسائی ایک مشکل کام ہے۔

ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ سٹالز، دکان یا ٹھیلے پر بکنے والی اشیاء اکثر صبح صبح کم قیمت میں مل جاتی ہے کیونکہ دکاندار بونی کرنے کی خاطر یہ قربانی دے دیتے ہیں، اسی طرح اکثر شام کو گھر جاتے ہوئے سارا مال ختم کرنے کے چکر میں لوگ کم قیمت میں اشیاء فروخت کر دیتے ہیں۔ ایسے میں سفید پوش اور کم آمدنی والے لوگ انہی اوقات میں زیادہ خریداری کرتے ہیں۔

اس سب میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ پیکٹ میں بند برانڈڈ اشیاء کی فروخت سے عام کاری گروں اور دکانداروں کا نقصان ہو گا اور غریب محنت کش بے روزگار ہو جائیں گے، اس لئے پیکٹ کی اشیاء ضرور فروخت کی جائیں لیکن عام سٹالز اور ٹھیلے بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں، البتہ کوالٹی کنٹرول اور فوڈ انسپکٹرز کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا، ٹھیلے پر اشیاء کو کپڑے سے ڈھانپنا، دکانوں پر رکھی اشیاء کو ڈھک کر سجانا، ان سوغاتوں کی تیاری میں استعمال اجزا کی چیکنگ اور کچن کی صفائی پر خاص نظر رکھنا ہوگی۔