تازہ اسپیشل فیچر

23 مارچ تجدید عہدِ وفا کا دن

لاہور: (ارشاد احمد ارشد) یہ 47-1946ء کا دور تھا، قیام پاکستان کے مطالبے نے ہندوستان کے طول و عرض میں بسنے والے مسلمانوں کو ایک عجب ایمانی اور روحانی کیفیت سے سرشار کر رکھا تھا، ہندوستان کا آخری کونا جو نیپال سے جا ملتا ہے تعلیمی اور معاشی اعتبارسے بہت پسماندہ سمجھا جاتا تھا۔

لاہور سے تعلق رکھنے والا ایک شخص تحریک پاکستان کے ایام میں نیپال سے متصل ہندوستان کے آخری سرحدی علاقے میں جا نکلا، اس نے ایک مقامی کسان سے پوچھا، ہندوستان تقسیم ہونے والا ہے، ایک طرف بھارت ہوگا دوسری طرف پاکستان آپ دونوں میں سے کس کے ساتھ رہنا چاہو گے؟ کسان نے پہلے تو سائل کو غورسے دیکھا پھر لاٹھی بڑھا کر چل پڑا، پیچھے سے آواز پڑی بھائی کچھ تو کہہ جائو، کسان ایک لمحے کیلئے رکا، مڑ کر پیچھے دیکھا اور یوں گویا ہوا ’’میاں ہم کلمہ طیبہ کے ساتھ ہیں؟ پوچھنے والے نے دوسرا سوال داغا ’’بابا جی کلمے سے کیا مراد ہے؟‘‘ جواب ملا ’’پاکستان‘‘۔

23 مارچ 1940ء کے لاہور کے اجلاس میں میرٹھ سے تعلق رکھنے والے ایک نمائندے سید رؤف شاہ نے مسلم اکثریتی صوبوں سے آئے ہوئے وفود کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا ’’جان سے عزیز بھائیو! جب آپ آزاد اور خود مختار ہو جائیں گے تو بھارت کے ہندو ہمیں نیست و نابود کر دیں گے، ہمیں پاکستان کے ساتھ محبت کی سزا دی جائے گی، ہمیں شودروں کی طرح زندگی بسر کرنا ہوگی، اس کے باوجود ہم خوش ہوں گے کہ کم از کم آپ تو آزاد فضا میں سانس لیں گے، جب آپ آزاد ہو جائیں اور آزاد مملکت میں زندگی بسر کرنے لگیں تو کبھی کبھی ہمارے لئے بھی دعائے مغفرت کر لیا کرنا‘‘۔

سید رؤف شاہ اپنی ساری تقریر کے دوران روتے رہے اور ہزاروں شرکائے اجلاس کو بھی رولا دیا، آخر میں کہنے لگے ’’بھائیو! میرے آنسو اس لئے نہیں کہ ہندو ہمارے ساتھ کیا سلوک کریں گے، ہمیں چیریں پھاڑیں گے بلکہ یہ تو خوشی کے آنسو ہیں کہ آپ ایک ایسے ملک میں زندگی بسر کریں گے جو آزاد ہو گا اور جس کی بنیاد کلمہ طیبہ پر ہو گی۔‘‘سید رؤف شاہ نے جب یہ بات کہی تو مجمع پر عجب کیفیت طاری ہوگئی، آنسو بے قابو ہوگئے، ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے اور ہچکیاں بندھ گئیں، تب حاضرینِ اجلاس میں سے بعض اٹھے اور کہا ’’پاکستان صرف ہمارا ہی نہیں آپ کا بھی ہوگا، یہ اسلام اور قرآن کا ملک ہو گا، ہم بھارت میں رہ جانے والے اپنے بھائیوں کو بھولیں گے نہ بے یارومددگار چھوڑیں گے، آپ کا تحفظ اور مدد ہمارا اولین فرض ہو گا‘‘۔

علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ تحریک پاکستان کے سلسلہ میں امرتسر کے دورے پرآئے، پروگرام کے بعد سوال و جواب کی نشست ہوئی ،ایک آدمی نے کہا ’’ہم مشرقی پنجاب کے رہنے والے ہیں ہمیں یقین ہے کہ ہمارے بہت سے علاقے پاکستان میں شامل ہوں گے اگرہمارے علاقے پاکستان میں شامل نہ ہوسکے تب بھی ہم فجرسے پہلے اپنے گھروں سے نکلیں گے، سورج طلوع ہونے تک پاکستان پہنچ جائیں گے لیکن آپ لوگوں کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے آپ میں سے کوئی یوپی کا باسی ہے، کوئی سی پی کا، کوئی پٹنہ کا اور کوئی دوسرے دوردرازخطے کا، آپ کے علاقوں اور صوبوں کا پاکستان میں شامل ہونا خارج ازامکان ہے۔

مزید یہ کہ جب آپ لوگ ہجرت کے لئے گھروں سے نکلو گے تو سفر اتنا لمبا اور دشوار گزار ہوگا کہ بحفاظت پاکستان پہنچنا ممکن نہ ہوگا، ایسے حالات میں جب آپ کے علاقے پاکستان کاحصہ نہیں بن سکتے، آپ پاکستان پہنچ نہیں سکتے پھر کیوں ہر اول دستہ بن کر پاکستان کے قیام کی تحریک چلارہے ہو؟‘‘

یونیورسٹی کے طلبہ کا جواب تھا ’’یہ درست ہے کہ ہمارے علاقے پاکستان کا حصہ نہیں بن سکیں گے یہ بھی درست ہے ہم میں سے بہت کم لوگ بحفاظت پاکستان پہنچ پائیں گے، زیادہ تر اپنے گھروں، علاقوں اور راستوں میں ہی کاٹ دیئے جائیں گے، ذبح کر دیئے جائیں گے، بچے نیزوں میں پرو دیئے جائیں گے، کرپانوں پر اچھالے جائیں گے، آگ میں جلائے جائیں گے اورہماری عفت ماب ماؤں بہنوں کے دامان عصمت تارتار کئے جائیں گے، یہ سب حقائق روزروشن کی طرح عیاں ہیں۔

ہم جانتے ہیں ہمارے علاقے، ہمارے صوبے، ہمارے شہر پاکستان کاحصہ نہیں بن سکتے، اس کے باوجود ہم قیام پاکستان کی تحریک جاری رکھیں گے ،اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، اس لئے کہ ہمیں یقین ہے پاکستان ہمارے لئے اسلام کا قلعہ ثابت ہوگا، ہمیں یقین ہے پاکستان سے ایک بار پھر محمدبن قاسم اٹھے گا، محمود غزنوی پیدا ہوگا جو ہمیں اورہماری ماؤں بہنوں کو ہندؤوں کی غلامی سے آزاد کروائے گا، بُت کدہِ ہند کو ایک بار پھر توحید کے نغموں اور زمزموں سے آشنا کرے گا‘‘۔

آج کے دن لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے منعقدہ ستائیسویں سالانہ اجلاس میں مسلمانوں نے اپنے لئے راہ عمل و منزل کا انتخاب کیا اور پھر بے مثال جدوجہد کے بعد صرف 7 سال کے عرصے میں پاکستان معرضِ وجود میں آیا، بقول شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ ’’ماضی قوموں کے لئے، قوت متحرکہ کی حیثیت رکھتا ہے، جو قوم اپنے ماضی کو بھول جائے وہ یادداشت کھو بیٹھتی ہے‘‘، لہٰذا پاکستان کے استحکام، دوست دشمن کی پہچان کے لئے ضروری ہے کہ ماضی کو یاد رکھا جائے۔

ماضی کو نہ بھولنے والا ایک سبق وہ دورہے جب مسلمانوں نے سرزمین ہند پر قدم رکھا تھا، مسلمانوں نے جب قیامِ پاکستان کا مطالبہ کیا تو اس مطالبے کی بنیاد اس بات پر تھی کہ ہم ہندوستان میں اجنبی اور نووارد نہیں، اس سرزمین کے ساتھ ہمارے رشتے بہت پرانے اور گہرے ہیں، ہم یہاں کے مالک و مختار رہے ہیں، اس چمن کو ہم نے اپنے خون سے سینچا ہے،جب ہم یہاں آئے تو جہالت وتاریکی تھی،غربت و پسماندگی تھی، علم و حکمت کا فقدان تھا، ظلم و جبر کا دور دورہ تھا، پس اس سرزمین کی گود کو ہم نے علم، عدل، انصاف ،ہنر، صنعت، حرفت ،تجارت ،تہذیب، شرافت اور تمدن سے اس طرح بھر دیا کہ یہ اپنے وقت کا خوشحال ترین ملک بن گیا تھا۔

اسی پس منظرمیں قائداعظم محمدعلی جنا حؒ نے کہا تھا پاکستان اسی دن معرضِ وجود میں آگیا تھا جب یہاں پہلے مسلمان نے قدم رکھا تھا، محمدبن قاسم پہلا مسلمان جرنیل تھا جو 93 ہجری 712ء میں ایک مسلمان بیٹی کی عزت بچانے کے لئے 15 ہزار کے لشکر کے ساتھ سندھ میں داخل ہوا۔

23 مارچ کی مناسبت سے ایک اور بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے اور وہ ہے مسلمان دور کے ہندوستان کی پہچان اور شناخت، ہم بچپن سے کتابوں میں پڑھتے اور سنتے چلے آ رہے ہیں کہ یہاں جس خطے پر مسلمانوں نے 10 صدیاں حکومت کی اس کا نام ہندوستان تھا، پاکستان میں سرکاری سطح پر طبع کی جانے والی تاریخ اور مطالعہ پاکستان کی کتب میں بھی یہی لکھا گیا ہے کہ انگریز نے ہندوستان پر قبضہ کیا، بات اس حد تک تو درست ہے کہ مسلمانوں کی آمد سے پہلے اس خطے کا نام ہندوستان تھا لیکن جب یہ خطہ اسلام کی روشنی سے منور ہوا اور مسلمانوں نے اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی تو پھر یہ ہندوستان نہیں بلکہ ’’بلاد اسلامیہ ہند‘‘کے نام سے پوری دنیا میں معروف ہوا تھا۔

گویا اس کی پہچان اور شناخت اسلام کے حوالے سے تھی، یہ ملک اسلام کی جاگیر تھا اور اس کی بنیاد کلمہ طیبہ پر تھی، مشہور مورخ محمد بن فرشتہ اور عرب سیاح ابن بطوطہ نے لکھا ہے کہ ’’ بلاد اسلامیہ ہند کے مسلمان سلاطین عباسی خلفا سے سندِ حکومت حاصل کیا کرتے تھے، باہم نامہ و پیام اور تحفے تحائف کے تبادلے ہوتے، محمود غزنوی نے 410 ہجری میں اپنی فتوحات کا ایک مفصل خط نہایت ہی عزت و تکریم اور قیمتی تحائف کے ساتھ عباسی خلیفہ القادر باللہ کو بھیجا، جواب میں خلیفہ نے محمود کو بیش قیمت خلعتِ فاخرہ اور’’ امین الملہ یمین الدولہ‘‘ کا خطاب دیا۔

مشہور مسلمان حکمران ابوالمجاہد سلطان بن محمد شاہ تغلق کی دعوت پر خلیفہ کے بیٹے بلاد اسلامیہ ہند کے دورے پر آئے‘‘، عباسی خلفا اس وقت کے ہندوستان کو سرکاری سطح پر’’ بلاد اسلامیہ ہند‘‘ہی لکھتے تھے، الغرض انگریز نے ہندوستان نہیں بلکہ ’’بلاد اسلامیہ ہند‘‘ پر قبضہ کیا تھا، قبضہ وتسلط کے بعد انگریز نے جہاں مسلمانوں کی ہزار سالہ میراث اورتہذیب وثقافت کو تاراج و پامال کیا وہاں بلاد اسلامیہ ہند کی اسلامی پہچان اور شناخت کو بھی حرفِ غلط کی طرح مٹا دیا، ہندوستان سے انگریز کا انخلا یقینی ہوگیا تو وہ زمام اقتدار مسلمانوں کو سونپنے کی بجائے مسلمانوں کو ہندو نیتاؤں کی غلامی میں دینے کا فیصلہ کر چکے تھے۔

ان حالات میں مسلمانوں کے لئے دو ہی راستے تھے زندگی یا موت ،آزادی یا غلامی۔ مسلمان ایمان سے دستبردار ہو کر ہندوئوں کے سامنے سر جھکا دیتے تو یہ یقینی موت اور غلامی کا راستہ تھا، انہوں نے زندگی اور آزادی کا راستہ چنا جو بالآخر قیام پاکستان پر منتج ہوا، یہ بات سمجھنے کی ہے کہ پاکستان ہمارے پاس اللہ کی نعمت اور شہدا کی امانت ہے۔

ارشاد احمد ارشد مختلف موضوعات پر متعدد مقالہ جات لکھ چکے ہیں، ان کی تحاریر اخبارات اور جرائد میں شائع ہوتی رہتی ہیں، وہ ایک اشاعتی ادارے سے بھی منسلک ہیں۔