ماہِ ذی قعدہ کی فضیلت
لاہور: (صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی) اسلامی سال کا گیارھواں مہینہ ذیقعدہ ہے جو بڑا مبارک اور حرمت والا پہلا مہینہ ہے، جس میں جنگ و قتال حرام ہے، اس ماہ میں عرب جنگ کو ترک کر دیتے تھے اور اپنے گھروں میں بیٹھے رہتے تھے، اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ قعود سے ماخوذ ہے جس کے معنی بھی بیٹھنے کے ہیں اور عرب کے لوگ اس مہینے گھروں میں بیٹھے رہتے تھے، اس لئے اس ماہ کا نام بھی ذیقعدہ رکھا گیا، اللہ نے سال کے 12 ماہ میں سے چار مہینوں کو حرمت والے مہینے قرار دیا ان میں سے پہلا یہ ماہ مقدس ہے۔
ماہِ ذی قعدہ (جسے حج کا دوسرا مہینہ اور چارعظمتوں والے مہینوں میں سے پہلا مہینہ کہا جاتا ہے جبکہ اسلامی تقویم کے اعتبار سے گیارہواں مہینہ کہلاتا ہے، اس مہینہ کی عظمت و فضیلت کیلئے یہ ہی کچھ کافی ہے کہ اس میں عام طور پر دُنیا بھر سے ’’حج‘‘ جیسی عظیم الشان عبادت ادا کرنے کیلئے حجاجِ کرام حرمین شریفین کی طرف رخت سفر باندھ کر وہاں کی حاضری کی سعادت حاصل کرتے ہیں، لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ نے ماہِ ذی قعدہ کو خصوصی شرف و فضیلت بخشی ہے اور اس کو اُن چار مہینوں میں شامل فرمایا ہے کہ جن کی عظمت و بزرگی اسلام سے پہلے بھی تھی اور اسلام کے بعد بھی ہے، وہ چار مہینے یہ ہیں: ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم، رجب۔
اسلام کے آغاز تک ان چاروں مہینوں میں جہاں عبادت و طاعت کی خاص فضیلت تسلیم کی جاتی تھی تو وہیں ان میں جہاد و قتال وغیرہ کرنا بھی منع سمجھا جاتا تھا اور اسلام میں تو اب بھی ان مہینوں میں عبادت و طاعت کی فضیلت برقرار ہے، چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’جب سے اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اُس وقت سے (لے کر آج تک) مہینوں کی تعداد اللہ تعالیٰ کے یہاں 12 ہے، ان میں سے 4 مہینے (ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب) عظمت و بزرگی والے ہیں، یہ ہی ہے سیدھا دین، لہٰذا ان مہینوں میں اپنے اوپر ظلم مت کرو‘‘ (سورۃ التوبہ:36)
حدیث شریف میں حضرت ابوبکرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’جس دن سے اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا، اُس دن سے لے کر آج تک زمانہ اُسی حالت پر گھوم پھر کر واپس آ گیا (یعنی اب اس کے دنوں اور مہینوں میں کمی و زیادتی نہیں ہے جو زمانۂ جاہلیت میں مشرک کیا کرتے تھے، بلکہ اب وہ ٹھیک ہو کر اُسی طرز پر واپس آگیا ہے جس طرز پر اپنی ابتدائی اصلی صورت میں تھا) ایک سال 12 مہینوں کا ہوتا ہے، ان میں 4 مہینے عزت و حرمت والے ہیں، جن میں تین مہینے تو مسلسل ہیں یعنی ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم ہیں، اور ایک مہینہ (جو اِن سے علیحدہ آتا ہے) وہ رجب کا ہے جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان واقع ہے۔ (صحیح بخاری:3197)
ایک مرتبہ رسول اللہﷺ نے ایک صحابی کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا کہ: ’’صبر یعنی رمضان کے مہینے کے روزے رکھو! اور ہر مہینے میں ایک دن کا روزہ رکھ لیا کرو‘‘ صحابی نے عرض کیا کہ: ’’مجھے اس سے زیادہ کی طاقت ہے، لہٰذا میرے لئے مزید اضافہ فرما دیجئے‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا ’’ہر مہینے میں دو دن روزہ رکھ لیا کرو‘‘ صحابیؓ نے عرض کیا: ’’میرے اندر اس سے بھی زیادہ کی طاقت ہے اس لئے مزید اضافہ فرما دیجئے!‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا ’’ہرمہینے میں تین دن روزے رکھ لیا کرو‘‘ صحابیؓ نے عرض کیا: ’’میرے اندر اس سے بھی زیادہ کی طاقت ہے اس لئے میرے لئے مزید اضافہ فرما دیجئے‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا ’’حرمت والے مہینوں (ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب) میں روزہ رکھو اور چھوڑو‘‘ اور آپ ﷺ نے اپنی تین انگلیوں سے اشارہ فرما کر ان کو ساتھ ملایا پھر چھوڑ دیا (مطلب یہ تھا کہ ان مہینوں میں تین دن روزہ رکھا کرو، پھر تین دن ناغہ کیا کرو) اور اسی طرح کرتے رہا کرو‘‘ (سنن ابوداؤد: 2428)
حضرت سالم رحمۃ اللہ سے روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ حرمت و عظمت والے چاروں مہینوں (ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب) میں روزے رکھا کرتے تھے‘‘ (مصنف عبد الرزاق: 7856)
امام نوویؒ نے بھی اپنے اصحاب کا یہ قول نقل کیا ہے کہ حرمت و عظمت والے ان 4 مہینوں (ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب) میں روزے رکھنا مستحب روزوں میں سے ہے۔ (المجموع شرح المہذب، ج6، ص386)
اسی طرح امام نوویؒ ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ: ’’ماہِ رمضان کے بعد سب سے زیادہ جن مہینوں میں روزے رکھنے کا ثواب ملتا ہے وہ یہ ہی چار مہینے (ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب) ہیں‘‘ (روضۃ الطالبین، ج02، ص388)
قرآنِ مجید میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا جو یہ واقعہ موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو نئی شریعت اور کتاب دینے کیلئے کوہِ طور پر پہلے 30 راتوں کا اعتکاف کرنے کا حکم فرمایا اور پھر مزید 10 راتوں کا اضافہ فرما کر کل 40 راتیں مکمل ہونے پر اُن کو شریعت اور کتاب (توریت) عطا فرمائی تو ان 40 راتوں کے بارے میں حضرات مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ 40 راتیں ذی قعدہ کے پورے مہینے اور ذی الحجہ کے پہلے عشرے کی تھیں، چنانچہ امام ابن کثیرؒ لکھتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اعتکاف کی میعاد عید الاضحیٰ کے دن پوری ہوئی تھی اور اسی دن آپؑ کو اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی کا شرف نصیب ہوا تھا‘‘ (تفسیر ابن کثیر، ج 3، ص421)
بعض جاہل اور اَن پڑھ لوگ ذی قعدہ کے مہینے کو خالی کا مہینہ کہتے ہیں تو وہ شاید اس وجہ سے کہ یہ مہینہ اپنے سے پہلے اور بعد کے مہینوں کے برعکس عید الفطر و عید الاضحیٰ وغیرہ سے خالی ہوتا ہے اور خالی کا مطلب وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس مہینے میں کسی نیک عمل و طاعت کی بالکل ضرورت نہیں، یہ خیال بالکل غلط، فاسد اور سراسر جہالت اور لاعلمی پر مبنی ہے اس سے بچنا چاہیے۔
اسی طرح بعض لوگوں کا یہ خیال بھی ہے کہ اس مہینہ میں نکاح اور شادی وغیرہ بھی نہیں کی جا سکتی کہ کہیں وہ خیر و برکت سے خالی نہ رہ جائے، چنانچہ اکثر و بیشتر دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ ماہ شوال میں جلدی جلدی شادیاں کر کے فارغ ہو جاتے ہیں تاکہ کہیں ذی قعدہ کا مہینہ شروع نہ ہو جائے، حالانکہ ماہِ ذی قعدہ 5 ہجری میں رسول اللہ ﷺ نے اُم المومنین حضرت زینبؓ سے نکاح فرمایا تھا۔ (البدایہ والنہایہ، ج 4، ص166)
اسی طرح ماہِ ذی قعدہ 7 ہجری میں آپ ﷺ نے حضرت میمونہؓ سے نکاح فرمایا تھا۔ (سیر اعلام النبلائ:ج 02ص239)۔
الغرض ماہِ ذی قعدہ میں نکاح و شادی وغیرہ اور عبادات کرنے کو خیر وبرکت سے خالی سمجھنا یہ سب زمانہ جاہلیت کی باتیں اور توہمات پرستیاں ہیں جن کا شریعت اور اسلام سے کوئی تعلق نہیں، اسی طرح بعض لوگوں میں یہ بات بھی مشہور ہے کہ اگر ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو ماہِ ذی قعدہ کے شروع ہونے پر مبارکباد دے تو اُس پر جنت واجب ہو جاتی ہے اور اس فضیلت کو سن کر بعض جاہل و ناداں لوگ ماہِ ذی قعدہ کے آغاز پر ایک دوسرے کو (سوشل میڈیا وغیرہ پر) مبارک باد دینا شروع کر دیتے ہیں، سو! یاد رکھناچاہیے کہ اس طرح کی کوئی بات بھی نہ شریعت میں وارد ہوئی ہے اور نہ ہی شریعت سے ثابت ہے۔
صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی عالم دین ہیں، 25 سال سے مختلف جرائد کیلئے اسلامی موضوعات پر لکھ رہے ہیں۔