ایمان شاہ کا ویژن
گلگت بلتستان: (محمد ایوب) ایمان شاہ وہ نام ہے جس سے گلگت بلتستان کا بچہ بچہ واقف ہے، موصوف نے کم و بیش 30 برس شعبہ صحافت میں خدمات سرانجام دی ہیں، ان تین دھائیوں کے دوران انہوں نے بلا رنگ و نسل معیاری صحافت کی اور صحافت جیسے مقدس پیشے کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا۔
سنئیر صحافی ایمان شاہ نے اپنی صحافتی زندگی میں نہ صرف عوام کے مسائل کو اجاگر کیا بلکہ اپنے سینکڑوں کالموں کے ذریعے ان مسائل کا حل بھی بتا دیا، وہ نہ صرف مظلوم و محکوم لوگوں کی توانا آواز بنے بلکہ ہر فورم پر صحافتی برداری کو درپیش مشکلات پر بھی آواز بلند کیا۔
پاکستان اور گلگت بلتستان میں حقیقی معنوں میں صحافت کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے لیکن اگر انسان اپنے پیشے سے مخلص ہو تو وہ اس ناممکن کو بھی ممکن بناتا ہے، بے شک اس کی زندگی میں مشکلات کیوں نہ پیش آئے، ایمان شاہ نے ہر اس مشکل کا خندہ پیشانی کے ساتھ مقابلہ کیا جو اس کی راہ میں کھڑی کردی گئیں، انہوں نے ہمشہ صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہا، اس سچ کے سفر میں ان کو قید و بند کی صحبتیں بھی برداشت کرنی پڑیں، لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہارا، موصوف نے گلگت بلتستان میں ہمیشہ سے حکمرانوں کی غلط پالیسوں پر صدا بلند کی۔
ان کی سنجیدہ صحافت اور مستقل مزاج شخصیت کی بدولت آج ان کو وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کا معاون خصوصی مقرر کیا گیا ہے اور ان کو گلگت بلتستان کا اہم ترین محکمہ، محکمہ اطلاعات کا قلمدان سونپا گیا ہے، گزشتہ روز ان کو مبارک باد دینے کے لئے ان کے دفتر گیا اس دوران نئی ذمہ داریوں کے حوالے سے تفصیلی گفتگو ہوئی۔
اس دوران حسب روایت حکمرانوں کے پروٹوکول پر بات ہوئی تو ایمان شاہ نے کہا کہ ہمارے لئے سرکاری دفتر، گاڑی اور پروٹوکول کوئی اہمیت نہیں رکھتا، مجھے جو ذمہ داری ملی ہے یہ میرے لئے امتحان ہے، ہم نے پوری صحافتی زندگی میں پروٹوکول اور غیر ضروری مراعات کے خلاف لکھا ہے اور بولا ہے، آج میرا ضمیر گوارہ نہیں کررہا ہے کہ میں وہ طرز اپنا لوں جس پر ہمیشہ سے خود تنقید کرتا رہا ہوں۔
انہوں نے مزید کہا کہ گلگت بلتستان کے لوگ مجھے یہ عہدہ ملنے پر مبارک بادیاں دیتے ہیں یہ ان کی میرے ساتھ محبت ہے جس کا میں مقروض ہوں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ میں اس وقت مبارک بادی کا مستحق سمجھا جاونگا جب میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر اس محکمے میں کوئی بہتری لاؤں، صحافتی برادری اور عوام کی فلاح کے لئے اپنا حصہ ڈال دوں، میں کل بھی عوام کے درمیان تھا آج بھی ہوں اور آئندہ بھی رہوں گا۔
ایمان شاہ کی یہ گفتگو یقیناً اس کی علاقے اور عوام کے ساتھ اس کی مخلصی ظاہر کرتی ہے، وہ اس نظام حکومت اور عوام کے ساتھ کتنا مخلص ہے، ایمان شاہ مشیر بننے کے بعد بجائے گھر بیٹھ کر مبارک بادیاں وصول کرنے کے وہ سیدھے اپنے ڈیوٹی پر حاضر ہوا اور رات گئے تک اپنی ذمہ داریاں نبھاتا رہا ورنہ ہم نے دیکھا ہے الیکشن سے قبل در در جاکر ووٹ مانگ کر منتخب ہونے والے عوامی نمائندوں کو جب اقتدار مل جاتا ہے تو پہلے چھ ماہ دعوتوں میں گزار دیتے ہیں، وہ عوام تو دور کی بات خود اپنی ذات کا بھی بھول جاتے ہیں کہ وہ کہاں سے کس طرح اس منصب تک پہنچے ہیں۔
ہم نے بہت سارے نمائندوں کو دیکھا ہے جو پانچ سالہ دور اقتدار میں ایسا سمجھتے ہیں جیسے وہ زندگی بھر کے لئے اس منصب پر فائز ہوچکے ہیں، یہ بات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ عوامی نمائندے کس طرح وسائل کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ بیوروکریسی کو لگام نہیں دے سکتے کیوںکہ وہ خود کفایت شعاری اور عاجزی نہیں اپناتے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں نظام بگڑا ہوا ہے۔
کاش ہمارے تمام عوامی نمائندے اس بات کو سمجھتے کہ وہ کچھ عرصے کے لئے اقتدار میں آتے ہیں اور وہ اقتدار ایک بہت بڑی امانت ہے اور ذمہ داری ہے، پھر لوٹ کر عوام کے پاس جانا ہے، اس کی اگر تازہ مثال دوں تو آج ہم سن رہے ہیں کہ ہمارے سابقہ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان جو غرور اور تکبر کی اس سطح پر پہنچ چکے تھے کہ وہ پریس کانفرنسز میں صحافیوں کو سوال کرنے پر نہ صرف جھاڑ دیتے تھے بلکہ طنز اور مذاق بھی اڑاتے تھے۔
وہ منتخب ہوئے اور مڑ کر کبھی اپنے حلقے کی طرف نہیں دیکھا، آج ان کے حلقے میں کبھی چپل پھینکنے کی باتیں ہورہی ہیں تو کبھی ان کی گاڑی پر پتھراؤ کی خبریں آرہی ہیں، ان کی گاڑی پر پتھراؤ قابل مذمت ہے لیکن انسان وہی کاٹتا ہے جس کا اس نے بیج بویا ہو۔
امید ہے ایمان شاہ دوران اقتدار اپنے عمل سے ان تمام سیاستدانوں کے لئے ایک نمونہ پیش کریں جو پروٹوکول کو اپنی عزت اور وقار سمجھتے ہیں، امید ہے ایمان شاہ کو اس کے اپنے ویژن کے مطابق کام کرنے کا پورا موقع ملے اور وہ اپنے وسیع تر تجربے اور اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر نہ صرف محکمہ اطلاعات بلکہ صحافی برادری کے لئے بہترین پالیسیاں دیں اور وسیع تر عوامی مفاد میں بھی وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حاجی گلبر خان کی بھرپور مدد کریں۔