تازہ اسپیشل فیچر

25 ستمبر….. اخبار بینی کا عالمی دن

لاہور: (اختر سردار چودھری) ایک وقت تھا جب اخبار کا انتظار کیا جاتا تھا، اسے خبروں اور معلومات کا مستند ذریعہ سمجھا جاتا تھا، اخبار میں سب کی دلچسپی کو مد نظر رکھتے ہوئے مواد شامل کیا جاتا ہے۔

سیاست سے مذہب تک اور دنیا بھر کی معلومات کے ساتھ ساتھ بچوں، بڑوں کی دلچسپی، خواتین کے پکوان، کھیل، تعلیم، صحت، نوکری کی تلاش ہو یا رشتوں کی اخبار میں سب ملتا تھا، ناشتے کی میز پر یہ اخبار ہوتا اور صبح سویرے اس کے آنے کا انتظار بہت شدت سے کیا جاتا تھا، دیہات میں چوکوں پر بیٹھے لوگ، ہوٹل، حمام سے سکول، کالج، ہسپتال تک میں اخبار پڑھا جاتا اور خاص اہمیت کا حامل سمجھا جاتا تھا، اس وقت اخبار عوام و خواص میں بے پناہ مقبول تھا۔

پھر وقت نے کروٹ لی، دیگر چیزوں کی طرح پڑھنے کے طور طریقے بھی بدل گئے، ابلاغِ عامہ کا سب سے مستند و مقبول ذریعہ اخبار آج اپنے چاہنے والوں کو ترس رہا ہے، ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا کی آمد نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے، اس جدید دور میں زندگی بہت تیز رفتار ہوگئی ہے اور لوگوں نے اپنے آپ کو اس قدر مصروف کر لیا ہے کہ ان کے پاس پڑھنے کا وقت ہی نہیں، بیشتر لوگ ای پیپر پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

گیلپ پاکستان کے مطابق 2004ء میں روزنامہ اخبارات کی تعداد کے حوالے سے پاکستان دنیا کے 160 ممالک میں 7 ویں نمبر پر تھا، 2009ء تا 2018ء کی دہائی کے دوران تمام طرح کے طباعت شدہ اخبارات و رسائل کی تعداد میں آدھی کمی واقع ہوئی۔

اخبارپڑھنے کے رجحان میں اضافہ کیلئے خواندگی کی شرح میں بہتری مرکزی حیثیت کی حامل ہوتی ہے، بدقسمتی سے اکنامک سروے آف پاکستان 2018ء کے مطابق 2016ء تک ملک میں شرح خواندگی 58 فیصد تھی، وفاقی ادارہ شماریات کے اعدادوشمار کے تجزیہ سے ایک دلچسپ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ ملک کے آدھے سے زائد یعنی 52.3 فیصد اخبارات و رسائل کا تعلق بلوچستان سے ہے، ملک کے سب سے زیادہ روزنامے بھی بلوچستان سے نکلتے ہیں جن کی تعداد 176 ہے لیکن ملک میں خواندگی کی سب سے کم شرح بھی بلوچستان کی ہے جو 41 فیصد ہے۔

نسل نو اخبار کی اہمیت سے زیادہ آگاہ نہیں، وہ اپنا زیادہ تر وقت سوشل میڈیا پر گزارتی ہے، جبکہ سوشل میڈیا پر خبر کی وہ اہمیت نہیں ہوتی جو اخبار میں ہوتی ہے، اخبار کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں لیکن نوجوان نسل کو اخبارات متاثر و متوجہ نہیں کر پا رہے، اس کی بے شمار وجوہات ہیں جن میں سے بڑی وجہ سوشل میڈیا ہے۔

اب اخبارات میں شائع ہونے والا مواد کم اور اشتہارات زیادہ ہوتے ہیں، شاید اخبار خبروں اور معلومات کی بجائے اشتہارات کیلئے زیادہ شائع ہوتے ہیں، ان وجوہات کی بدولت اب خرید کر اخبار پڑھنے کا رجحان مرد اور خواتین دونوں میں کم ہو گیا ہے، اخبار ہی نہیں کتابوں کی بھی پہلے جیسی اہمیت نہیں رہی، کیونکہ اب ہمارے پاس ایک متبادل جو ہے، اب نہ صرف اخبار بلکہ ہر طرح کا مطالعہ زوال پذیر ہوگیا ہے، بلکہ لوگوں نے پڑھنا چھوڑ دیا ہے، نہ کتابیں پڑھتے ہیں نہ رسائل، بقول فرحت احساس کے

عشق اخبار کب کا بند ہوا
دل مرا آخری شمارہ ہے

پاکستان کے معروف ڈائجسٹ سب رنگ کے مدیر شکیل عادل زادہ کا اخبار مطالعے کے بارے میں کہنا ہے کہ مردوں میں اب بھی اخبار پڑھنے کا رجحان خواتین کے مقابلے میں زیادہ ہے، خواتین میں پہلے بھی کم تھا اور اب مزید کم ہوگیا ہے،اس کی سب سے بڑی وجہ سوشل میڈیا اور ٹیلی ویژن ہے۔

اخبار پڑھنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس سے ہماری زبان کی تربیت ہوتی ہے ہم لکھے ہوئے لفظوں سے زیادہ جلدی سیکھتے ہیں، اخبار کی مدد سے اپنی املاء درست کر سکتے ہیں، یہ لوگوں سے بات چیت کرنے کے آداب اور سلیقہ سکھاتا ہے، پرنٹ میڈیا کو متعارف ہوئے کئی صدیاں گزر گئی ہیں لیکن اس کی افادیت اور اہمیت کو آج بھی سراہا جاتا ہے۔

تحقیق سے ثابت ہے کہ دنیا بھر کی خبریں عوام تک پہنچانے کے جتنے بھی ذرائع ہیں، ان میں سب سے زیادہ قابل اعتبار اخبارات ہی ہیں، سوشل میڈیا، ٹی وی، ریڈیو اور ڈیجیٹل ویب سائٹس پر موجود خبروں پر اتنا زیادہ اعتبار نہیں کیا جاتا، صرف مشرقی دنیا میں نہیں بلکہ مغربی دنیا میں بھی یہ اہمیت کے حامل ہیں، اس کا مطالعہ انسانی نفسیات پر بھی مثبت اثرات مرتب کرتا ہے اور انسان کو صحیح اور غلط کی پہچان کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔

اخبار کی شکل میں صحافت کا آغاز 12 سو سال پہلے یورپ میں ہوا، اس کا پہلا اخبار ’’آگسں برگ‘‘ تھا جبکہ اُردو کا پہلا اخبار ’’جام جہاں نما‘‘ تھا جو فارسی کے ساتھ ساتھ اُردو میں بھی شائع ہونا شروع ہوا، پھر اخبار دنیا کی تمام معلومات کا مرکز بن گیا، اخبار کے مطالعے کے رجحان کو فروغ دینے کیلئے آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی (اے پی این ایس) کی جانب سے 25 ستمبر کو ’’نیشنل ریڈنگ نیوز پیپر ڈے‘‘ منانے کا اعلان کیا گیا۔

اس دن کا انتخاب 25 ستمبر 1690ء کو امریکہ سے شائع ہونے والے پہلے ’’ملٹی پیپر اخبار‘‘ کی اشاعت کی مناسبت سے کیا گیا تھا، اس دن کو منانے کا مقصد نوجوانوں میں مطالعہ اور اخبار بینی کے رجحان میں اضافہ کرنا اور ان کو اس جانب راغب کرنا ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں مطالعہ کا رحجان پایا جاتا ہے، سوشل میڈیا، پی ڈی ایف، آن لائن اخبار و رسائل ہونے کے باوجود وہاں کتابیں شائع ہو رہی ہیں، اخبار شائع ہو رہے ہیں، دراصل اچھی عادتوں میں کل اور آج بھی مطالعہ شامل ہے۔

بات اخبار بینی کی ہو رہی ہے، اخبار خبروں کے ایسے مجموعے کو کہتے ہیں جو کاغذ پر پرنٹ ہوا ہوتا ہے، اخبار معلومات کے تمام ذرائع میں سب سے سستا اور آسان ذریعہ ہے، اس کے علاوہ اخبار میں ہمہ اقسام دلچسپی کا سامان ہوتا ہے، چند صفحات پر مشتمل اخبار ملک کے طول و ارض کی خبریں لاتا اور معلومات مہیا کرتا ہے، اخبار پڑھنے سے انسان کی معلومات میں روز بہ روز اضافہ ہوتا ہے، اخبار صرف ہمیں ملکی و غیر ملکی حالات و واقعات سے ہی آگاہ نہیں کرتے بلکہ ان کے مختلف موضوعاتی مضامین ہماری بنیادی معلومات کے ساتھ ساتھ ذہنی صلاحیتوں کو بھی اُبھارتے ہیں، تعلیم و تربیت کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔

اخبار بینی سے سوچ کے انداز بدلتے ہیں، بہتر سوچنے، فیصلہ کرنے اور بہتر رائے قائم کرنے کی صلاحیت پیدا ہوگی، اس طرح آپ کا آئی کیو لیول بھی بڑھے گا، اخبارات معاشی، معاشرتی، سیاسی اور مذہبی میدانوں میں انسان کی رہنمائی کرتے ہیں، اس طرح ایک شخص خود بدلتے ہوئے زمانے کے ساتھ خود کو زندہ رکھنے میں کامیاب ہو پاتا ہے، یعنی اسے زمانہ کی بصیرت حاصل ہوتی ہے، اخبار بینی انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور بے شمار فوائد و ثمرات کا ذریعہ بھی بنتی ہے۔

اخبارات مختلف شعراء کا بھی موضوع کلام رہا ہے، اس حوالے سے چند اشعار قارئین کی نذر کئے جا رہے ہیں۔

ہمارے شہر کے لوگوں کا اب احوال اتنا ہے
کبھی اخبار پڑھ لینا کبھی اخبار ہو جانا
(ادا جعفری)

جو دل کو ہے خبر کہیں ملتی نہیں خبر
ہر صبح اک عذاب ہے اخبار دیکھنا
(عبید اللہ علیم)

دس بجے رات کو سو جاتے ہیں خبریں سن کر
آنکھ کھلتی ہے تو اخبار طلب کرتے ہیں
(شہزاد احمد)

سرخیاں خون میں ڈوبی ہیں سب اخباروں کی
آج کے دن کوئی اخبار نہ دیکھا جائے
(مخمور سعیدی)

بم پھٹے لوگ مرے خون بہا شہر لٹے
اور کیا لکھا ہے اخبار میں آگے پڑھیے
( ظہیرغازی پوری)

کھینچو نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو
جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو
(اکبر الہ آبادی)

اس وقت وہاں کون دھواں دیکھنے جائے
اخبار میں پڑھ لیں گے کہاں آگ لگی تھی
(انور مسعود)

رات کے لمحات خونی داستاں لکھتے رہے
صبح کے اخبار میں حالات بہتر ہو گئے
(نصرت گوالیاری)

چشم جہاں سے حالت اصلی چھپی نہیں
اخبار میں جو چاہئے وہ چھاپ دیجئے
(اکبر الہ آبادی)

ذرا سی چائے گری اور داغ داغ ورق
یہ زندگی ہے کہ اخبار کا تراشا ہے
(عامر سہیل)

گمنام ایک لاش کفن کو ترس گئی
کاغذ تمام شہر کے اخبار بن گئے
(عشرت دھولپور)

ایسے مر جائیں کوئی نقش نہ چھوڑیں اپنا
یاد دل میں نہ ہو اخبار میں تصویر نہ ہو
(خلیل مامون)

کوئی کالم نہیں ہے حادثوں پر
بچا کر آج کا اخبار رکھنا
(عبدالصمد تپش)

کوئی نہیں جو پتا دے دلوں کی حالت کا
کہ سارے شہر کے اخبار ہیں خبر کے بغیر
(سلیم احمد)

وہ خوش نصیب تھے جنہیں اپنی خبر نہ تھی
یاں جب بھی آنکھ کھولیے اخبار دیکھیے
(شہزاد احمد)

اختر سردار چودھری فیچر رائٹر اور بلاگر ہیں، انہیں ملکی و غیر ملکی شخصیات اور اہم ایام پر تحریریں لکھنے کا ملکہ حاصل ہے۔