تازہ اسپیشل فیچر

آزاد جموں و کشمیر کے وزراء کو محکمے دینے سے وزراء بلاک کی رونقیں بحال

مظفر آباد: (محمد اسلم میر) آزاد جموں و کشمیر میں اتحادی حکومت کی طرف سے وزراء کو محکمے دینے کے بعد وزراء بلاک کی رونقیں بحال ہونا شروع ہو گئی ہیں، لوگ اپنے اپنے علاقوں سے تعلق رکھنے والے وزراء کے دفاتر پہنچ کر نہ صرف اپنے کام کروا رہے ہیں بلکہ انہیں رُکے ترقیاتی منصوبوں کی بحالی کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے پر بھی زور دے رہے ہیں۔

گزشتہ ہفتے وزیراعظم چودھری انوارالحق نے بھی دارالحکومت میں قیام کیا، متعدد اجلاس بلائے اور مختلف محکموں سے بریفنگ بھی لی، وزیراعظم چودھری انوارالحق نے آزاد جموں و کشمیر میں جنگلات کی کٹائی کے حوالے سے زیرو ٹالرنس اپنانے کے عزم کا اعادہ کیا جس میں کافی حد تک حکومت کامیاب نظر آئی۔

آزاد جموں و کشمیر میں جب سے چودھری انوارالحق کی سربراہی میں اتحادی جماعتوں مسلم لیگ نواز، پاکستان پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کے منحرف ارکان قانون ساز اسمبلی پر مشتمل حکومت بنی اس کے بعد سے جنگلات کی کٹائی مکمل طور پر رکی ہوئی ہے، جنگلات کی لکڑی کی صنعت سے وابستہ کاروباری لوگ بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ 1947ء کے بعد پہلی بار کسی حکمران کے احکامات پر جنگلات کی کٹائی واقعتاً مکمل طور پر رک گئی ہے۔

ایک طرف وزیراعظم آزاد جموں و کشمیر چودھری انوارالحق کو گڈ گورننس سے لیکر جنگلات کی کٹائی کے روکنے کے عمل سے جہاں عوام میں پذیرائی مل رہی ہے وہاں مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلزپارٹی اپنے اپنے ارکان اسمبلی سے بعض محکموں کے حوالے سے تحفظات کا اظہار بھی کر رہے ہیں، مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی بڑی وزارتوں کے خواہش مند تھے تاہم اس معاملہ پر وزیراعظم چودھری انوار الحق نے کسی کی ایک نہ سنی۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے اندر بھی جماعت کے سیکرٹری جنرل فیصل راٹھور کو بلدیات و دیہی ترقی کی وزارت ملنے پر بھی دھڑا بندی شروع ہو گئی تھی، پاکستان پیپلزپارٹی کی مرکزی رہنما و آزاد جموں وکشمیر کے سیاسی امور کی نگران فریال تالپور نے واضح کیا کہ وزارت بلدیات و دیہی ترقی کا محکمہ تبدیل نہیں ہو گا، فریال تالپور کی طرف سے فیصل راٹھور کی وزارت کے حق میں بولنے سے جہاں پاکستان پیپلزپارٹی آزاد جموں و کشمیر میں فیصل راٹھور کی اہمیت بڑھ گی ہے وہاں مستقبل میں انہیں جماعت کی طرف سے کوئی اور بڑی ذمہ داری دینے کے امکانات کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔

دوسری طرف سابق وزیراعظم آزاد جموں و کشمیر و صدر استحکام پاکستان پارٹی سردار تنویر الیاس خان نے کہا ہے کہ وہ بہت جلد پاکستان میں عام انتخابات کے بعد آزاد جموں و کشمیر میں تنظیم سازی یونین کونسل کی سطح سے شروع کریں گے، اس میں کوئی شک نہیں کہ سردار تنویر الیاس خان ملک کی بڑی کاروباری شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان اور آزاد جموں و کشمیر کی عوام میں آج بھی مقبول ہیں، وہ اپنے انتخابی حلقے سے باہر بھی لوگوں کی مشکل مواقعوں پر مدد کرتے ہیں، گزشتہ ہفتے امبور مظفرآباد میں کشمیری مہاجرین 1989 کے 16 گھروں میں اچانک آگ لگ گی جس میں وہ خاکستر ہو گئے، سابق وزیر اعظم سردار تنویر الیاس نے سب سے پہلے ان متاثرین کی نقد امداد کی۔

گو کہ استحکام پاکستان پارٹی آزاد جموں و کشمیر کے سیاسی میدان میں ایک نومولود جماعت کی حیثیت رکھتی ہے، تاہم سابق وزیراعظم سردار تنویر الیاس خان کی ذاتی شہرت کے باعث اس جماعت کے ساتھ سیاسی کارکنان کی ایک بڑی تعداد جڑ سکتی ہے۔

استحکام پاکستان پارٹی کو عوامی سطح پر مقبول بنانے کے لئے سردار تنویر الیاس خان اُڑان بھرنے کے لئے تیار ہیں، تاہم اس کے لئے انہیں چاہئے کہ وہ عوام کے ساتھ زیادہ سے زیادہ رابطے میں رہیں، ماضی میں جب وہ آزاد جموں و کشمیر کی وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز تھے تو اس وقت بھی بعض سیاسی کارکنان کی شکایت تھی کہ وہ عوام کے ساتھ روابط رکھنے میں سرعت سے کام نہیں لے رہے تھے، سیاست دان چاہے بڑا ہو یا چھوٹا وہ اسی وقت عوامی مقبولیت کی بلندیوں کو چھو سکتا ہے جب وہ لوگوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ روابط استوار کر ے۔

سابق وزیراعظم سردار تنویر الیاس خان کے قریبی ذرائع نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ مستقبل میں وہ باغ کے آبائی حلقے کے ساتھ ساتھ دارالحکومت مظفرآباد سے بھی انتخابات میں حصہ لیں گے، لیکن دوسری جانب سیاسی مبصرین اس حوالے سے تذبذب کا شکار ہیں کہ سردار تنویر الیاس خان وفاقی دارالحکومت میں موجود ہونے کے باوجود قومی سیاسی افق پر نظر کیوں نہیں آرہے، انہیں آزاد جموں و کشمیر کی سیاست کے بجائے اب قومی سیاست میں آگے آنا چاہئے، جہاں وہ اپنے تجربات اور ویژن کے مطابق ملک کی خدمت کر سکیں۔

تاہم یہ بات قبل از وقت ہے کہ وہ آزاد جموں کشمیر کی سیاست چھوڑ کر مستقبل میں قومی سیاست میں قسمت آزمائی کریں گے یا نہیں، سردار تنویر الیاس خان کے خاندان کے میاں برادران اور آصف علی زرداری کے ساتھ بھی گہرے ذاتی مراسم ہیں اور بعید نہیں کہ وہ کسی بھی وقت قومی سیاست میں اپنا کردار ادا کرنے کے لئے متحرک ہو جائیں۔