تازہ اسپیشل فیچر

کافی کہانی۔۔۔

لاہور: (محمد علی) بہت سے لوگ یہ مانیں گے کہ آج کل کافی ہماری روزمرہ زندگی کا لازمی جزو ہے، مگر کیا آپ نے کبھی سوچا کہ ’’کافی ‘‘ اصل میں آئی کہاں سے؟ اس تحریر میں ہم اسی کا جائزہ لیں گے اور دنیا میں کافی کی سرگزشت اور روایت کا احاطہ کریں گے۔

کافی کی حقیقت، ایتھوپیا کا افسانہ

ایتھوپیا کو کافی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے، اگر آپ نے بھی کافی کی سرگزشت کو گوگل کیا ہے تو آپ کو یہ مشہور کہانی ضرور ملے گی کہ کس طرح ایتھوپیا میں کلدی نامی ایک چرواہے نے 800 عیسوی کے قریب کافی تلاش کی تھی، کہتے ہیں کہ وہ اپنی بکریوں کے ساتھ تھا کہ اس نے انہیں عجیب و غریب سی حرکتیں کرتے ہوئے دیکھا، وہ ایک درخت سے کچھ بیر جیسا پھل کھانے کے بعد توانا اور پرجوش ہوگئی تھیں، کلدی نے خود بھی ان بیروں کا ذائقہ چکھا تو خود بھی توانا محسوس کرنے لگا، کلدی ان بیروں کو ایک راہب کے پاس لے کر گیا، راہبوں نے اسے ’شیطان کا کام‘ قرار دے دیا اور اُن بیروں کو آگ میں پھینک دیا۔

ایسا کرتے ہوئے بھینی بھینی اور خوش ذائقہ خوشبو آنے لگی تو ان بیروں کو آگ سے نکال کر انگاروں میں کچل دیا گیا، راہبوں نے کچلے ہوئے بیروں پر پانی چھڑکا تو خوشبو کا احساس مزید زور پکڑ گیا تو راہب اس پانی کا ذائقہ چکھنے پر مجبور ہو گئے، پھر یہ سلسلہ چل نکلا کیونکہ یہ سفوف ملا پانی جو دراصل کافی تھا، راہبوں کو رات کی عبادتوں اور دعاؤں کیلئے بیدار رہنے میں مدد دے رہا تھا، مگر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ ایک حیرت انگیز افسانہ ہو کیونکہ کافی کی تاریخ کو اورمو/گال (Oromo/Galla) کے خانہ بدوش قبیلے سے بھی ملایا جاتا ہے۔

کافی کا یمن سے آغاز؟
کافی کی روایت میں یمن کے بارے بھی کچھ مشہور کہانیاں ہیں، کافی کی ابتدا کے بارے میں یمن کا سب سے مشہور افسانہ ایتھوپیا کی کہانی سے کچھ کچھ ملتا ہے، وہ اس طرح کہ ایک یمنی صوفی ایتھوپیا کا سفر کر رہا تھا جہاں اسے کچھ بہت متحرک اور پرجوش پرندے دکھائی دیئے جو ایک پودے سے پھل کھا رہے تھے، سفر کے تھکے ہوئے صوفی نے بھی ان بیروں کو کھانے کا فیصلہ کیا اور اسے محسوس ہوا کہ ان سے خاصی توانائی ملتی ہے، تاہم عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ کافی کی پھلیاں اصل میں ایتھوپیا سے یمن برآمد کی گئی تھیں۔

یمنی تاجر کافی کے پودوں کو اپنے وطن لائے اور وہاں ان کی کاشت شروع کی، جیسا کہ خیال کیا جاتا ہے کہ کافی کی ابتدا ایتھوپیا میں ہوئی تھی، یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے 15 ویں صدی میں بحیرہ احمر کے پار شمال کی طرف یمن کی جانب اپنا راستہ بنایا اور پھر یہ یمنی علاقے میں بھی اگائی جانے لگی اور 16 ویں صدی تک یہ فارس، مصر، شام اور ترکی تک پہنچ چکی تھی، یہ مشروب چوکنا رہنے میں مدد کرنے کیلئے اپنی خصوصیات کیلئے بے حد مقبول ہوا، جس سے لوگوں کو روحانی معاملات اور دعاؤں میں زیادہ وقت لگانے کی آسانی بھی ملی۔

دنیا کا پہلا کافی ہاؤس 1475 میں قسطنطنیہ(استنبول) میں کھولا گیا تھا، کافی روزانہ کے معمول کے طور پر گھر میں اور مہمان نوازی کیلئے پیش کی جانے لگی، بیرون ِخانہ لوگوں نے نہ صرف کافی پینے بلکہ گپ شپ، موسیقی ، شطرنج کھیلنے اور اطلاعات حاصل کرنے کیلئے کافی ہاؤسز کا دورہ کرنا شروع کر دیا، کافی ہاؤسز تیزی سے معلومات کے تبادلے اور حصول کا مرکز بن گئے، انہیں اکثر ’’دانشمندوں کے مدرسے‘‘ کہا جاتا تھا۔

کافی یورپ کیسے پہنچی؟
پھر کافی کی تاریخ کا رُخ بدلنا شروع ہوا، دراصل اس مشروب نے یورپی مسافروں میں کافی مقبولیت حاصل کر لی تھی، 17 ویں صدی تک کافی نے یورپ کا راستہ بنا لیا تھا اور پورے یورپی براعظم میں تیزی سے مقبول ہو رہی تھی، یورپی کافی کی تاریخ اٹلی سے شروع ہوتی ہے جہاں اسے سلطنت ِعثمانیہ سے درآمد کیا گیا تھا، وینس کے تاجروں نے یورپی علاقوں میں کافی کی وسیع پیمانے پر مقبولیت میں اہم کردار ادا کیا اور 1645 میں وینس میں پہلا یورپی کافی ہاؤس کھولا گیا۔

ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے انگلینڈ میں بھی کافی بہت مقبول ہوئی، انگلینڈ میں پہلا کافی ہاؤس 1651ء میں آکسفورڈ میں کھولا گیا، یہ کافی ہاؤسز صرف مردوں کیلئے ہوا کرتے تھے جہاں وہ کاروبار اور خبروں پر تبادلۂ خیال کرتے تھے، کہا جاتا ہے کہ بہت سے کاروباری منصوبے اور آئیڈیاز لندن کے کافی ہاؤسز میں تخلیق ہوئے۔

اس کے بعد فرانس کے بادشاہ لوئس XIV کے دربار میں ترک سفیر سلیمان آغا نے 1669ء میں فرانس میں کافی متعارف کروائی، وہاں کافی کو ’’جادوئی مشروب‘‘کا نام دیا گیا، دو سال بعد 1671 میں پاسکل نامی ایک آرمینیائی باشندے نے سینٹ گرمین کے میلے میں کافی کا ڈھابہ کھولا، اگلے 30 سالوں میں کافی آسٹریا، جرمنی، سپین اور باقی یورپ میں ثقافتی مشرو ب بن چکی تھی۔

کافی کا بحر اوقیانوس کو عبور کرنا
ورجینیا کی کالونی کے بانی کیپٹن جان سمتھ نے 1607 میں جیمز ٹاؤن کے دیگر آباد کاروں کو کافی متعارف کروائی، تاہم پہلے اسے خوشدلی سے قبول نہیں کیا گیا اور اس کے مقابلے میں چائے کو ترجیح دی گئی، 1670ء میں ڈوروتی جونز بوسٹن میں کافی فروخت کرنے کا لائسنس حاصل کرنے والی پہلی دکاندار تھیں، 1700ء کی دہائی کے وسط تک بہت سے شراب خانوں کو بھی کافی ہاؤس کہا جاتا تھا لیکن چائے اب بھی لوگوں کا پسندیدہ مشروب تھی، چائے پر زوال اُس وقت آیا جب برطانیہ کے خلاف بغاوت کی وجہ سے اسے پینا غیر محب وطن ہونے کی علامت سمجھا جانے لگا اور چائے سمندر میں پھینکی جانے لگی، اس کے بعد کافی تیزی سے مقبول ہوئی۔

’’نئی دنیا‘‘ کا گرم مرطوب موسم کافی کی کاشت کیلئے آئیڈئیل خیال کیا گیا اور کافی کے پودے تیزی سے پورے وسطی امریکہ میں پھیل گئے، امریکہ میں کافی کی پہلی فصل کی چنائی 1726 میں ہوئی، لاطینی امریکی ممالک میں بھی کافی کی کاشت کیلئے مثالی حالات تھے، جیسا کہ دھوپ اور بارش کا اچھا توازن اور مرطوب درجہ حرارت۔ اٹھارہویں صدی کے وسط تک لاطینی امریکہ کے ممالک جنگلات کو صاف کر کے کافی اگانے والے کچھ سرکردہ ممالک بن گئے، آج بھی برازیل دنیا کا سب سے بڑا کافی پروڈیوسر ہے۔

محمد علی تاریخی موضوعات میں دلچسپی رکھتے ہیں، ان کے مضامین مختلف جرائد اور اردو ویب سائٹس پر شائع ہوتے ہیں۔