تازہ اسپیشل فیچر

9 دسمبر: کرپشن کے خاتمے کا عالمی دن

لاہور: (اختر سردار چودھری) کرپشن کیا ہے؟ ہم رشوت لینے اور دینے کو کرپشن کہتے ہیں، ہر عمل جو قانونی، سماجی، معاشرتی، اخلاقی اور مذہبی قوانین و ضوابط سے ہٹ کر ہو وہ کرپشن کے زمرے میں آتا ہے، کرپشن ایک بیماری ہے اور یہ معمولی نہیں ایک خاص قسم کی چھوت کی بیماری ہے جو کسی ایک سے دوسرے کو منتقل ہو جاتی ہے اور بڑھتی ہوئی پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔

اس بیماری کا علاج کیسے ممکن ہے؟ کرپشن صرف پاکستان کا نہیں بلکہ ایک عالمی مسئلہ ہے، اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے جہاں ہر ملک مختلف اقدامات اور قانون سازی کرتا ہے وہیں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ہر سال 9 دسمبر کو ’’اینٹی کرپشن ڈے‘‘ منایا جاتا ہے، اس دن کو منانے کا مقصد معاشرے کو کرپشن سے پاک کرنے کے عزم کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ ایسے اقدامات اٹھانا ہے جس سے کرپشن کی روک تھام ممکن ہو سکے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 31 اکتوبر 2003ء میں اعلان کیا تھا کہ ہر سال 9 دسمبر کو ’’اینٹی کرپشن ڈے‘‘ منایا جائے، پہلی بار یہ دن 9 دسمبر 2004 ء کو میکسیکو میں منایا گیا، جو اب ہر سال کرپشن کے خلاف جنگ کے عزم کی ازسرنو تجدید کے ساتھ دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔

اس دن پوری دنیا میں محکمہ اینٹی کرپشن اپنے سرکاری اداروں کا محاسبہ کر کے میڈیا کے ذریعے عوام کے سامنے اپنی کارکردگی پیش کرتے ہیں، ہمارے ملک میں اس دن سچائی کہیں دور سسکتی رہتی ہے، سچائی یہ ہے کہ ہمارا ملک پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا کے اکثر سرکاری محکموں کے دفاتر کی دیوار پر لکھا ہوتا ہے ’’رشوت لینے اور دینے والا جہنمی ہے ‘‘ اور یہ ہی محکمے کرپشن کے حوالے سے ملک کے کرپٹ ترین ہوتے ہیں۔

’’نیشنل کرپشن پرسیپشن سروے 2022ء‘‘ (National Corruption Perception Survey 2022) کی کرپشن کے حوالے سے جاری کردہ فہرست میں پولیس پہلے، سرکاری دفاتر دوسرے، سیاسی پارٹیاں تیسرے، پارلیمنٹ چوتھے، صحت کا شعبہ پانچویں، عدلیہ چھٹے اور تعلیم کا شعبہ ساتویں نمبر پر ہے، ہمارے ملک میں صحت، عدل و انصاف، تعلیم اور کھانے پینے کی اشیاء میں کرپشن موجود ہے۔

جائیداد و دیگر رجسٹریشن کے شعبے، یوٹیلیٹی بلز، بجلی، گیس، پانی، ٹیلی فون وغیرہ، ٹیکس، مزارات وغیرہ پر کرپشن کا راج ہے، قانون نافذ کرنے والے حکام معاشرے میں افراد کے حقوق کے تحفظ اور خدمات پر مامور ہوتے ہیں، یہ قانون کی حکمرانی کو یقینی بناتے ہیں، یہ ہی وہ ادارے ہیں جنہوں نے کرپشن کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے اگر یہ ادارے خود ہی کرپشن میں ملوث ہوں گے تو کرپشن کو کنٹرول کرنا کس طرح ممکن ہے، ان اداروں میں اختیارات کا غلط استعمال عام سی بات بن چکا ہے۔

اخبارات بڑے پیمانے پر قومی خزانے کی لوٹ مار کی کہانیوں سے بھرے پڑے ہیں، کرپشن جو ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے، جس کا تدارک ناگزیر ہے، پاکستان میں کرپشن کی تحقیقات کرنے والا سب سے بڑا ادارہ قومی احتساب بیورو (نیب) کا جو حال ہے وہ سب کے سامنے ہے، قومی احتساب بیورو کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو ایسا لگتا ہے جیسے انہوں نے ملک میں کوئی کرپشن کرنے والا نہیں چھوڑا لیکن حقیقت میں وہ صرف ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں، کرپشن، بدعنوانی کے بڑھتے ہوئے اس ناسور کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اب لوگ بدعنوانی کے مرتکب ہو کر بھی شرمندگی محسوس نہیں کرتے بلکہ اس پر فخر محسوس کرتے ہیں، اسے عقل، عیاری، چالاکی،ذہانت، ہنر سمجھتے ہیں۔

ماہرین اس امر پر بھی متفق ہیں کہ بدعنوانی منظم جرائم اور دہشت گردی کے فروغ کا باعث ہے، کرپشن کی جڑیں ملک میں بہت مضبوط ہو چکی ہیں، اتنی کہ ان کو اب برائی ہی نہیں سمجھا جاتا، رشوت کو حق سمجھ لیا گیا ہے اور ملاوٹ کو کاروبار ۔اس لیے اب ان جڑوں کو کاٹنے کی اشد ضرورت ہے، یہ جڑیں کاٹنے کیلئے نوجوان نسل کے اندر جذبہ موجود ہے۔

خاص کر ان میں جو مڈل طبقے سے تعلق رکھتے ہیں وہ کرپشن کے خاتمے کیلئے کافی متحرک ہیں لیکن ان کے سامنے کوئی پلیٹ فارم نہیں ہے، کرپشن سے پاک کوئی جماعت نہیں ہے، ایسا کوئی لیڈر نہیں ہے جس کے قوم و فعل میں تضاد نہ ہو، اکثریت ایسے رہنماؤں کی ہے، وہ جن کے خلاف دھواں دار تقریر کرتے ہیں ان کو ہی دوسری جگہ اپنا بھائی کہہ رہے ہوتے ہیں اور اسے سیاست کا نام دیتے ہیں، یہ تضاد ہی کرپشن ہے۔

کرپشن کے خاتمے کیلئے دو رائے پائی جاتی ہیں، ایک یہ کہ بد عنوانی کی لعنت کا خاتمہ صرف قوانین سے نہیں بلکہ معاشرے میں اس کے خلاف ہر فرد میں اس کی ذمہ داری کا احساس اجاگر کرنے سے ہوگا، اساتذہ، سول سوسائٹی اور میڈیا جس میں کالم نگار، اینکر بھی شامل ہیں کو مل کر کرپشن کے خلاف تحریک آگاہی چلانی چاہئے۔

دوسری رائے یہ ہے کہ ملک میں کرپشن کے خاتمے کیلئے قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا جائے، بے شک کہ یہ دونوں باتیں اپنی جگہ درست ہیں لیکن میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے ملک کے موجودہ حالات کی سب سے بڑی وجہ کرپشن ہے، کرپشن کی وجہ قانون کی حکمرانی کا نہ ہونا ہے، جس کی وجہ سے ہمارا ملک ترقی کی راہوں پر گامزن نہیں ہو پا رہا۔

ملک میں کرپشن اور ناانصافی کے خاتمہ اور ہر کام میرٹ کے مطابق چلانے کیلئے ضروری ہے سب سے پہلے ہمیں خود کا احتساب کرنا ہوگا کیونکہ ہم کسی نہ کسی حوالے سے اس کا حصہ ہیں، دوسرا عوام میں بڑھتی ہوئی مایوسی اور ناامیدی کو ختم کیا جائے، قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا جائے تاکہ کرپشن کا خاتمہ ہو۔

اختر سردار چودھری فیچر رائٹر و بلاگر ہیں، انہیں ملکی و غیر ملکی شخصیات اور اہم ایام پر تحریرین لکھنے کا ملکہ حاصل ہے۔