کلبھوشن یادیو کون ؟ مکمل تفصیلات طشت ازبام
ایرانی صوبے سیستان بلوچستان کے پہاڑوں اور جنگلوں کے سائے میں کرائے کی ایک گاڑی 6 گھنٹے تک چلتی رہی
(پراوین سوامی) ایرانی صوبے سیستان بلوچستان کے پہاڑوں اور جنگلوں کے سائے میں کرائے کی ایک گاڑی 6 گھنٹے تک چلتی رہی، یہ علاقہ ایک عرصہ سے سمگلروں، باغیوں اور جاسوسوں کی پناہ گاہ رہا ہے ۔ گاڑی سراوان کی طرف جا رہی تھی جوکہ پاکستان بارڈر سے 20کلو میٹر دور 50ہزار کی آبادی کا قصبہ ہے ،گاڑی میں ممبئی کا تاجر اہم ملاقات کیلئے جا رہا تھا۔ جن لوگوں کیساتھ اس نے ملاقات کرنا تھی وہ اس کے منتظر تھے ، مگر ساتھ کچھ اور لوگ بھی تھے ، کسی بھی جاسوسی کہانی کی طرح اس کا انجام بھی دغابازی نکلا۔ بھارت جانتا ہے کہ اس کے بعد کیا ہواکلبھوشن یادیو اس وقت پھانسی کا انتظار کر رہا ہے ، یہ سزا اسے پاکستان کی فوجی عدالت نے جاسوسی کے جرم میں سنائی۔ اس سے قبل جنوری میں کلبھوشن پاکستانی ٹی وی پر دیکھا گیا، وہ اصرار کر رہا تھا کہ وہ اب بھی بھارتی نیوی کا کمیشنڈ آفیسر ہے ،اس کا یہ بیان بھارتی حکومت کے بیانات کی نفی اور بھارت کو اس کی سرگرمیوں میں براہ راست ملوث کرتا ہے ۔یادیو کون تھا اور اس کا کیوں یہ انجام ہوا ؟ جہاں اس کے بارے میں کچھ واضح نہیں تھا۔ بنیادی سوالات کاکوئی جواب نہیں مل سکا، سرکاری دستاویزات سیل ہو چکی ہیں۔ تاہم تین ملکوں کے 10سفارتکاروں، انٹیلی جنس اور نیول حکام کے انٹرویو واضح کرتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت دونوں کی حکومتوں سچائی سے مطمئن ہیں۔ سوالوں کے مضمرات یادیو کے انجام سے بہت آگے جاتے ہیں، اس کیس کے پیچھے ایک خفیہ جنگ ہے جو ممکن ہے کہ سینکڑوں حتیٰ کہ ہزاروں جانیں لے چکی ہے ۔ 2013کے بعد سے بھارت نے پاکستان کے خلاف خفیہ ایکشن پروگرام تشکیل دیا ۔ قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول ،بعد ازاں ‘‘را’’ کے موجودہ چیف انیل کمار کی قیادت میں چلنے والے اس پروگرام نے کافی کامیابی حاصل کی ہے ۔ کلبھوش کی کہانی ایک مثال ہے کہ ایسی خفیہ جنگ خطرات سے خالی نہیں ہوتی۔ طریقہ کار اور فیصلے میں غلطیاں کسی بھی انسانی مہم کا ناگزیر حصہ ہیں، جو اہداف کے حصول میں کامیابی کی نسبت کہیں زیادہ نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ نیوی میں ملازمت: اصولی طور پر ان دعوؤں کی سچائی طے کرنا مشکل نہیں کہ کلبھوشن ابھی تک بھارتی نیوی کا ملازم ہے ۔ بھارت کے سرکاری ریکارڈ کے گزٹ میں فوجی اور سول افسروں کے کمیشن ، ترقی اور ریٹائرمنٹ کی مکمل تفصیلات درج ہوتی ہیں۔ کلبھوشن سدھیر یادیو نے 1987میں نیوی میں شمولیت اختیار کی، اس کا سروس نمبر 41558Zہے ، امکان ہے کہ 13سالہ سروس کے بعد 2000میں اسے کمانڈر کے عہدے پر ترقی ملی ہو۔مگر گزٹ آف انڈیا جوکہ سرکاری دستاویز ہے ، کے ڈیجیٹل ریکارڈ میں وزارت دفاع کی 2000کے مہینوں کی فائلیں اڑا دی گئی ہیں۔ بعدکے سالوں کی فائلوں میں کلبھوشن کی ریٹائرمنٹ کا کوئی ریکارڈ نہیں، حالانکہ گزٹ میں بھول چوک جیسی کئی غلطیاں ہو سکتی ہیں ۔ بھارتی حکومت کا عالمی عدالت انصاف کو یہ بتانا کہ کلبھوشن ایک ریٹائرڈ نیول افسر تھا، مقدمے کی کارروائی میں ایک غیر متعلقہ بات تھی، جبکہ یہ بتانے سے گریز کیا گیا کہ کلبھوشن کب ریٹائر ہوا۔ مضمون نگار کے سوال کے جواب میں نیول ہیڈکوارٹرز نے تصدیق کرنے سے انکار کر دیا کہ کلبھوشن حاضر سروس نیول افسر تھا کہ نہیں۔ اس کے بجائے مضمون نگار کو وزارت داخلہ سے رابطہ کرنے کا کہا گیا جس سے جواب ملا کہ جوکچھ اس وقت زبان زد عام ہے ، اس میں اضافے کیلئے ان کے پاس کچھ نہیں ۔ عام طور پر قومی ریاستیں جاسوسی کے الزام میں گرفتار افراد کیساتھ تعلق سے انکار کر دیتی ہیں۔ پاکستان میں 13بھارتی جاسوسی کے الزام میں گرفتار ہیں جبکہ 30 پاکستانی بھارتی جیلوں میں ہیں، ان میں کسی ایک کیس میں بھی دونوں ملکوں نے سرکاری سطح پر اپنے ایجنٹ کے انجام پر تشویش ظاہر نہیں کی۔کلبھوشن کے حاضر سروس نیول افسر ہونے کا امکان اس مقدمے کو منفرد بناتا ہے ۔ پاکستانی اور بھارتی حکومتوں کو یقیناًسچائی کا علم ہے ، جس کی صرف جھلکیاں سرکاری ریکارڈ سے باہردیکھی جا سکتی ہیں۔ کلبھوشن کیساتھ کام کرنیوالے 2نیول افسروں کے بیانات سے لگتا ہے کہ کمانڈر یادیو کا جاسوسی کی دنیا کا سفر اس وقت شروع ہوا جب 2001میں بھارتی پارلیمنٹ پر جیش محمد کے حملے کے بعد دونوں ملک جنگ کے قریب پہنچ چکے تھے ، یہی دعویٰ کلبھوشن کے ابتدائی اقبالی بیانات کی ویڈیو ز میں بھی موجود ہے جوکہ ممکنہ طور پر دباؤ کا نتیجہ ہو سکتے ہیں۔ 2001کے آخر میں بھارتی نیوی نے ساحلی شہروں کو لاحق جہادی گروپوں کے خطرے کے پیش نظر گجرات اور مہاراشٹر کے ساحلوں کی مانیٹرنگ کیلئے 9 نیول جہاز مختص کئے ۔ ان دنوں یہ انٹیلی جنس اطلاعات ملنا شروع ہوئی تھیں کہ لشکر طیبہ اپنے جہادیوں کو منگلا ڈیم کی جھیل میں سمندری کارروائی کی تربیت دے رہی ہے ۔اس پر بھارتی نیوی کو تشویش تھی۔ بھارتی نیوی کو اس وقت ایک اہم مسئلے یعنی اپنی انٹیلی جنس صلاحیت کے فقدان کا شدت سے احساس ہوا جوکہ منظم جرائم کے گروپوں کی مانیٹرنگ کرے ، جوکہ سمندری راستے سے کسی بھی دہشت گرد کارروائی میں معاونت کر سکتے تھے ۔ کلبھوشن کے ساتھیوں کے مطابق اس نے خفیہ سروس کیلئے رضاکارانہ طور پر خود کو پیش کیا۔ ایک سینئر انٹیلی جنس افسر جوکہ ایک موقع پر کلبھوشن سے ملا تھا، کا کہنا تھا کہ صرف چند افسر سخت خطرات کے باوجود اپنی خدمات پیش کرتے ہیں،غیر معمولی جرأت کے باعث کلبھوشن اچھی چوائس تھا۔ تاہم اس کا اصرار تھا کہ اسے نیوی کے سروس میں رہنے دیا جائے ، تاکہ اسے تنخواہ او رترقی ملتی رہے ۔ نیوی میں بیرون ملک ایسے ایجنٹ رکھنے کا سسٹم نہیں جن کا کوئی ریکارڈ نہ ہو، اس لئے کلبھوشن کی بات مان لی گئی۔دسمبر 2003میں کلبھوشن نے پاسپورٹ نمبر E6934766 پر پونا سے ایران کا سفر کیاجس پر اس کا نام حسین مبارک پٹیل درج تھا۔ اس پاسپورٹ کے مطابق پٹیل مارٹنڈ کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی کا رہائشی مگر اپارٹمنٹ نمبر کا ذکر نہیں تھا۔سرکاری سطح پر اس بات کی تحقیقات نہیں ہوئیں کہ وہ پاسپورٹ جاری کیسے ہوا؟پونا پاسپورٹ آفس کے ریکارڈ کے مطابق پہلے وہ پاسپورٹ کسی اور شخص کے نام تھا مگر فائلوں میں کوئی پتہ درج نہیں۔ بھارتی حکومت نے بھی وضاحت نہیں کہ کلبھوشن نے وہ پاسپورٹ کیسے حاصل کیا۔ذرائع کے مطابق کلبھوشن کو فنڈنگ نیول انٹیلی جنس کی جانب سے کی جاتی تھی۔ ایرانی تحقیقات اور سفارتی ذرائع نے بتایا کہ کلبھوشن نے کامینڈا ٹریڈنگ کمپنی قائم کرنے کیلئے کیش ادائیگی کی تھی جوکہ بحری انجنوں کی مرمت کا کام کرتی تھی۔ بعدازاں اس نے کامینڈا کے نام سے چاہ بہار بندرگاہ سے بادبانی جہاز چلایا۔ریکارڈ ز کے مطابق کلبھوشن کی کمپنی نے جپسم کی سپلائی کے معاہدوں کی کوشش کی جوکہ بھارت سیمنٹ کی تیاری کیلئے درآمد کرتا ہے ۔ مارچ 2015میں جپسم کے سالانہ کنٹریکٹ پر عمل کیلئے کلبھوشن مقامی پارٹنرز تلاش کرتا رہا۔ پاک فوج کی طرف سے جاری کلبھوشن کے اعترافی بیان میں اس نے تسلیم کیا ‘‘میں نے چاہ بہار ایران میں کاروبار شروع کر رکھا تھا، 2003اور 2004کے دوران میں کئی مرتبہ نئی شناخت کیساتھ کراچی گیا’’۔ ایک سینئر سفارتکار نے بتایا کہ تہران کی تحقیقات کے مطابق کامینڈا کمپنی کا خاص کاروبارنہیں تھا جس سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ کلبھوشن اتنے سال ایران میں کیونکر رہا۔ سفارت کار نے مزید بتایا کہ ایران میں ایسا کوئی ریکارڈ نہیں جوکہ ظاہر کرے کہ کامینڈا کمپنی نے کبھی بینک سے قرضہ لیا ہو ،جوکہ کاروباری معمولات کا حصہ ہے ۔کلبھوشن کے والد سے قریبی تعلق رکھنے والے پولیس افسر نے بتایا کہ یادیو خاندان کو زرمبادلہ کی صورت میں باقاعدگی سے کبھی کوئی رقم نہیں ملی۔ یادیو فیملی بارہا میڈیا سے ملاقات کرنے سے سختی سے انکار کر چکی ہے ۔ 26/11 کے بعد ایرانی شہر زاہدان کے راستے بڑی تعدا دمیں بھارتی عسکریت پسندوں کو تربیت کیلئے پاکستان لے جایا جا رہا تھا جن میں لشکر طیبہ کا بھارت میں مبینہ ٹاپ ایجنٹ فہیم ارشد انصاری اور مفرور بم ساز فیاض قاضی شامل تھے ۔ 2006میں بلوچوں کی شورش نے زور پکڑا، جس کے بارے میں بھارتی انٹیلی جنس کو افغانستان میں اپنے سٹیشنوں سے بھرپور معلومات ملتی تھیں، انٹیلی جنس کمیونٹی کی طرف سے داخلی دباؤ تھا کہ خطے میں روابط کو مزید بہتر بنایا جائے ۔ دو نیول افسروں نے بتایا کہ نیول انٹیلی جنس کیلئے یہ بات مایوس کن تھی کہ چاہ بہار میں ان کے اثاثے کو انٹیلی بیوروجلد انسداد دہشت گردی کیلئے استعمال کرنا شروع کر دے گا، یہ حقیقت ان کیلئے تشویش کا باعث بن رہی تھی کہ کلبھوشن ابھی تک نیوی کے پے رول پر ہے ، جوکہ پریشانی کا باعث بن سکتی تھی۔ ذرائع کے مطابق نیول چیف ایڈمرل ارون پرکاش نے اگرچہ انٹیلی جنس بیورو کے فیصلے کی مزاحمت کرنے کی کوششیں کیں، ان کے خدشات انٹیلی جنس چیفس نے نظر انداز کر دیئے جو خطے میں قابل بھروسہ اثاثوں کی تلاش میں تھے ۔ ایک افسر نے بتایا کہ انٹیلی بیورو کے کلبھوشن کو ذمہ داری دینے کے فیصلے کے ممکنہ نتائج کے پیش نظر نیوی سخت تشویش کا شکار تھی۔انہیں یہ کہا گیا کہ کلبھوشن کی ضرورت کی وجہ اس کی وہاں موجودگی ہے ۔ ‘‘را’’کے سابق افسر وں کا دعویٰ ہے کہ کلبھوشن کو فرنٹ لائن پر لانے کی وجہ انٹیلی جنس بیورو کی بیرون ملک آزادانہ کردار ادا کرنے کی خواہش تھی، حالانکہ ابھرتے خطرات سے نمٹنے کیلئے ‘‘را’’کی خطے میں انٹیلی جنس گنجائش کہیں زیادہ تھی۔ انٹیلی جنس بیورو کے اس وقت کے حکام ‘‘را’’افسروں کے دعوے سے اتفاق نہیں کرتے ،وہ اپنے فیصلے کی کئی کامیابیاں گنواتے ہیں۔ مثلاً مارچ 2007میں آٹھ پاکستانی جن کی قیادت لشکر طیبہ کے جمیل اعوان اور عبدالمجید ارائیں کر رہے تھے ، ممبئی پہنچے ، انہوں نے مہاراشٹر اور گجرات میں مختلف اہداف کو نشانہ بنانا تھا، انٹیلی جنس بیورو نے ان کی کوشش ناکام بنا دی۔بعض ذرائع کے مطابق ممبئی حملوں کے بعد کلبھوشن اپنے کردار میں اضافہ چاہتا تھا،اس نے دوبارہ ممبئی پر حملے کی صورت میں کراچی پر جوابی حملے کا منصوبہ بھی تیار کیا تھا جس کیلئے اس نے کامینڈا کوا ستعمال کرنا تھا۔ اس کے منصوبے کو پذیرائی نہ ملی، تاہم اعلیٰ انٹیلی جنس حکام اس بات کے قائل ہو چکے تھے کہ پاکستان کو باز رکھنے کیلئے مزید خفیہ سرگرمیوں کی ضرورت ہے ۔ 2010میں جب پہلی بارکلبھوشن کا تعارف کرایا گیا تو ‘‘را’’میں سخت اضطراب کا اظہار کیا گیا۔ذرائع کے مطابق ‘‘را’’پاکستان ڈیسک کے سربراہ انند ارنی نے کلبھوشن کی تنظیم میں شمولیت کی تجویز مسترد کر دی۔ ان کے مطابق کلبھوشن میں وہ مطلوبہ قابلیت نہیں تھی۔ چار ملاقاتوں کے دوران کلبھوشن کے مختلف ٹیسٹ لئے گئے ، جن میں وہ قابل ذکر کارکردگی دکھا نے میں ناکام رہا ۔ ذرائع نے بتایا کہ ‘‘را’’ کے مختلف سربراہوں نے کلبھوشن کو کچھ کیش ادائیگیاں کی تھیں، جوکہ متوقع سورسز کیساتھ ورکنگ ریلشن شپ رکھنے کا ایک معمول ہے ۔ کے سی ورما کے بعد جتنے بھی ‘‘را’’ کے سربراہ بنے ، انہوں نے کلبھوشن کو کیش دینے کا سلسلہ جاری رکھا، جن میں سنجیو ترپاٹھی اور الوک جوشی شامل ہیں۔ اس پورے عرصہ میں کسی نے کلبھوشن کی ملازمت کے ڈھانچے کا جائزہ نہ لیا، جس کا مطلب ہے کہ بیوروکریسی کی غلطی کے باعث وہ کاغذوں میں نیول افسر ہی رہا۔ ‘‘را’’کا معمول فوجی افسر بھرتی کرنا ہے ، وہ عارضی تبادلے کی صورت میں فرنٹ لائن پر آپریشنل ذمہ داریاں کبھی نہیں دیتی تاکہ ایجنٹوں کی سرگرمیوں اور حکومت کے انکشاف کے درمیان ایک دیوار یقینی بنائی جا سکے ۔ اعترافی بیان میں کلبھوشن نے کہا کہ اس نے 2013میں ‘‘را’’ کیلئے کام کرنا شروع کیا، وہ انیل کمار گپتا نامی افسر کو رپورٹ کیا کرتا تھا۔ مگر اس نام کا کوئی افسر ‘‘را’’ کیلئے کام نہیں کرتا تھا۔ بعد کی اعترافی ویڈیوز میں اس نے را چیف کا نام انیل دھسمانا اور جوشی لیا۔ ورما اور جوشی دونوں انٹیلی جنس بیورو کے سابق افسر تھے ، موجودہ قومی سلامتی کے مشیر دوول ممکن ہے کہ ممبئی حملوں سے قبل کلبھوشن کے کام کے بارے میں جانتے ہوں۔ 2014میں کلبھوشن نے پاسپورٹ نمبر L9630722حاصل کیا ،جوکہ ضلع تھانہ سے جاری کیا گیا تھا ، بعدازاں وہ پاکستان میں گرفتار ہو گیا۔ نئے پاسپورٹ میں اس نے اپنی رہائش گاہ پرانی ممبئی پونا روڈ پر واقع جاسدنوالا کمپلیکس کو ظاہر کیا تھا۔میونسپل ریکارڈ کے مطابق اس فلیٹ کی مالک کلبھوشن کی والدہ ایوانتی یادیو تھیں۔اگر اس وقت تک کلبھوشن خفیہ ادارے کی ملازمت میں تھا،تب پاسپورٹ پر درست پتہ دینا سنگین پیسہ ورانہ غلطی تھی ۔ ‘‘را’’کے ایک افسر کے مطابق بھارت کیلئے یہ ناممکن ہے کہ کلبھوشن سے لاتعلقی اختیار کرے ، جوکہ ایسے معاملات میں ایک معمول کا طریقہ کار ہے ۔ یہ ایک مجرمانہ غیر ذمہ داری ہے کہ ایک جاسوس کی شناخت اس کی حقیقی زندگی کے قریب تر ہو۔ ذرائع نے بتایا کہ 2014کے بعد سے کلبھوشن کراچی کے گینگسٹر عزیر بلوچ کے بہت قریب ہو گیا تھا، جو کبھی پاکستانی ادارے کا اہم آدمی تھا مگر 2013میں اسے مجبوراً ملک سے فرار ہونا پڑا۔ چونکہ 1987سے اس کے پاس ایرانی پاسپورٹ تھا، اس لئے عزیر بلوچ چاہ بہار سے باآسانی کہیں بھی آ جا سکتا تھا۔ عزیز کے بھتیجے جلیل بلوچ کا ہمسایہ ہونے کے باعث کلبھوشن نے معلومات کیلئے اسے کچھ کیش دیا۔ پاکستانی فوجی ذرائع کا اصرار ہے کہ کلبھوشن نے 2014کے بعد ‘‘را’’ کی طرف سے بلوچ شرپسندوں کو پانچ مرتبہ ہتھیار فراہم کئے پاکستان کی ایک سرکاری تحقیقاتی دستاویز کے مطابق پاکستانی ادارے کے ساتھ مراسم ختم ہونے کے بعد عزیر بلوچ کو ایران کی جانب سے ‘‘ محفوظ ٹھکانہ ’’ فراہم کردیا گیا، ایران کی اس نوازش کے جواب میں عزیر بلوچ نے جاسوسی شروع کردی، اس نے پاکستانی فوج کی خفیہ معلومات ہی نہیں بلکہ پاکستانی فوج کی تنصیبات کے نقشے بھی غیر ملکی ایجنٹوں کو فراہم کیے ، گزشتہ سال یہ اندازہ ہوا کہ عزیر بلوچ نے جو خفیہ مواد غیر ملکی ایجنٹوں کو فراہم کیا تھا وہ بظاہر کمتر اہمیت کا حامل تھا،بعد ازاں انٹرپول کی جانب سے جاری کیے گئے وارنٹ کی بنیاد پر عزیر بلوچ کو دبئی میں گرفتار کرکے واپس پاکستان بھیج دیا گیا، پاکستانی حکام کے مطابق عزیر بلوچ کی وطن واپسی کے بعد اس سے کی گئی تفتیش سے آئی ایس آئی پر یہ انکشاف ہوا کہ چاہ بہار میں موجود ایک بھارتی10سال سے زائد عرصے سے وہاں بیٹھا ہوا پاکستان کیخلاف سرگرموں میں ملوث ہے ، کراچی میں ایک مجسٹریٹ کی عدالت میں عزیر بلوچ یہ بیان دے چکا ہے کہ وہ ایرانی انٹیلی جنس اور یادیو دونوں کے ساتھ رابطے میں تھا،عزیر بلوچ کے انکشافات ہی سے اندازہ ہوتا ہے کہ یادیو جو کردار ادا کررہا تھا اس کا خاتمہ کیسے ہوا۔ پاکستان کے ذرائع ابلاغ نے یادیو پر دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے ، لیکن جس فوجی عدالت نے یادیو کو سزائے موت سنائی اس نے سرکاری رازوں کو افشا کرنے سے متعلق قانون آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت یادیو پر مقدمہ چلایا، واضح رہے کہ اس قانون کے تحت عدالت ایسے ہر شخص کو سزائے موت سناسکتی ہے جو ایسی کوئی معلومات دشمن کے حوالے کرے جو براہ راست یا بالواسطہ طور پردشمن کیلئے فائدہ مند ہو یا ممکنہ طور پر فائدہ مند ہوسکتی ہو، سراوان سے یادیو کے اغوا کے بعد پاکستانی ذرائع نے بتایا کہ اعلیٰ سطح پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ یادیو کو دہشت گردی میں ملوث قرار دیا جائے ،یہ ایک اہم بات ہے کہ پاکستانی فوج نے یادیو کے پہلے اعترافی بیان کی جو ویڈیو جاری کی تھی اس میں یادیو نے عمومی انداز میں پاکستان کے اندر دہشت گردی کرانے میں بھارت کے کردار کا تو ذکر کیا تھا لیکن اس نے کہیں یہ نہیں کہا کہ وہ خود بھی اس میں ملوث تھا ، اپریل 2017 میں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کے مشیر برائے خارجہ پالیسی سرتاج عزیز نے سینیٹ میں بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ انٹیلی جنس اداروں نے اس معاملے میں حکومت کیلئے جو دستاویز تیار کی ہے اس میں ‘‘حتمی شواہد’’ نہیں ہیں ، سرتاج عزیز نے یہ بھی کہا تھا کہ انٹیلی جنس اداروں کی اس دستاویز میں جو مواد درج ہے وہ کافی نہیں ہے ۔ لیکن اس کے برعکس عالمی عدالت انصاف میں پاکستان نے اپنا جو خفیہ بیان جمع کرایا اس میں بھارت کے 13سینئرافسران کے نام درج کرکے یہ دعویٰ کیا گیا کہ یہ لوگ یادیو کی سرگرمیوں میں اس کی معاونت کرتے تھے ، اس سے قبل پاکستان نے بھارتی حکومت کے نام اپنے ایک خط میں اس پر زور دیا تھا کہ وہ یادیو کے معاملے میں تحقیقاتی عمل اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے کیلئے پاکستان کے ساتھ تعاون کرے ، اس خط میں پاکستان نے وہی الفاظ اور لب و لہجہ استعمال کیا جو بھارت نے 26 نومبر اور پٹھان کوٹ واقعے کے بعد پاکستان کو بھیجے گئے خط میں استعمال کیا تھا، سینئر سرکاری افسران کے مطابق پاکستان نے یادیو کے حوالے سے بھارت کو جو خط لکھا اس میں دیگر بھارتی افسران کے علاوہ بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول اور بھارتی خفیہ ایجنسی را کے سابق سربراہ جوشی کے نام بھی شامل تھے ، ذرائع کے مطابق اس طرح پاکستان نے بھارت کے اس الزام کا جواب دیا کہ اس کے ملک میں جہادیوں کی کارروائیوں میں پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیوں کا ہاتھ ہے ، ایک سابق انٹیلی جنس افسر نے بتایا کہ بھارت میں ہونے والے واقعات اور یادیو کے معاملے میں ایک نمایاں فرق یہ ہے کہ وہ بھارتی بحریہ کا ایک حاضر سروس سینئر افسر ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ بھارت کی جانب سے کی جانے والی خفیہ کارروائیوں میں کوئی نہ کوئی نقص یا مسئلہ ہے ،یہاں یہ ذکر بے جا نہ ہوگا کہ 1948 کے دوران امریکا نے سی آئی اے کے اندر ایک نیا شعبہ کھولا تھا ، اس کا نام آفس آف سپیشل پراجیکٹس تھا، اس شعبے کی یہ ذمے داری تھی کہ امریکا کی جانب سے دنیا بھر میں کی جانے والی خفیہ کارروائیوں کی نگرانی کرے ،امریکی نیشنل سکیورٹی کونسل کے مطابق ان میں سی آئی اے کی وہ کارروائیاں شامل تھیں جو وہ سخت گیر مخالف ممالک اور امریکا کے دوست ممالک کو نقصان پہنچانے والے گروپوں کے خلاف کرتی تھی، عملی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو اس کا واضح مطلب یہ تھا کہ کمیونسٹوں کی مخالف قوتوں کی مالی امداد کی جائے ،ان میں اٹلی اور اس جیسے ممالک کے سابق فاشسٹ عناصر بھی شامل تھے ، امریکا کی اس حکمت عملی میں ان سیاسی رہنمائوں کا قتل بھی شامل تھا جو امریکا کے کٹر مخالف تھے ، امریکا کے اس خفیہ حکمنامے میں بطور خاص یہ انتباہ شامل تھا کہ تمام کارروائیوں کی منصوبہ بندی اور ان پر عملدرآمد اس احتیاط کے ساتھ کیا جائے کہ کسی بھی غیر مجاز شخص کو کسی بھی صورت میں یہ معلوم نہ ہوسکے کہ ان معاملات میں امریکی حکومت کا کوئی کردار ہے ، یہ ہدایت بھی دی گئی تھی کہ یہ کام اس قدر مہارت سے کیا جائے کہ اگر کبھی کسی واقعے کا الزام امریکا پر عائد کیا جائے تو امریکی حکومت اس کی تردید کرسکے ۔ یہ ثبوت اب بھی واضح نہیں ہے کہ یادیو اس وقت بھی بھارتی بحریہ کا افسر ہے یا نہیں؟ لیکن اب تک جو باتیں معلوم ہوئی ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں آئی ایس آئی کے جن افسران نے یادیو سے تفتیش کی انہوں نے یادیو سے اس قدر باتیں تو اگلوالی ہیں جو بھارت کیلئے شرمندگی اور سبکی کا باعث بن سکتی ہیں،اسی لیے یہ ضروری ہے کہ کسی بھی خفیہ آپریشن میں اس بات کا ضرور خیال رکھا جائے کہ اگر یہ راز افشا ہوجائے تو بھارت اس میں ملوث ہونے سے صاف انکار کرسکے اور اسی نوعیت کے وہ خفیہ پروگرام متاثر نہ ہوسکیں جن پر بھارت مستقبل میں عملدرآمد کرنا چاہتا ہے ، اگر غور کیا جائے تو یہ ایک افسوسناک بات ہے کہ اس معاملے پر بھارت میں حقائق کی بنیاد پرکوئی مباحثہ یا تبادلہ خیال نہیں ہوا، یہ صورتحال نہ صرف یہ کہ دوسرے ممالک میں خفیہ کارروائیوں کے مخالفین بلکہ ان کے حامیوں کیلئے بھی باعث تشویش ہونی چاہیے ، کیونکہ بہر حال سیاسی اتفاق رائے ہی وہ بنیاد ہے جس پر امریکا ، روس ، برطانیہ اور اسرائیل دیگر ممالک میں خفیہ کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں، جہاں تک بھارت کا تعلق ہے تو ایسی مثالیں موجود ہیں مثلاً اسٹیبلشمنٹ 22 جس کی قیادت میجر جنرل سرجیت سنگھ اوبان نے کی تھی، انہوں نے بنگلہ دیش میں ایک خفیہ جنگ کی قیادت کی تھی، اسی طرح ایک خفیہ آپریشن سکم کے بھارت کے ساتھ الحاق کیلئے کیا گیا، میانمار میں چین کی حامی حکومت کے خلاف بر سر جنگ مسلح باغیوں کو تربیت دینے کا کام بھی‘‘ را ’’ نے انجام دیا تھا، 1980 کی دہائی کے آغاز میں ‘‘ را ’’ نے خفیہ کارروائیوں کیلئے 2 گروپ تشکیل دیئے ،ان دونوں کا مقصد پاکستان کے حمایت یافتہ خالصتان گروپوں کو ہدف بنانا تھا، خالصتان گروپ جب بھی بھارت کے کسی شہر میں دہشت گردی کرتے اس کے جواب میں یہ گروپ کراچی،لاہور یا کسی اور پاکستانی شہر میں دہشت گردی کرتے ، ‘‘را’’ کے سابق سینئر افسر رامن نے 2002 میں لکھا کہ ہمارے خفیہ گروپوں نے پاکستانی شہروں میں جو کارروائیاں کیں ان کی بدولت بھارتی پنجاب میں پاکستانی مداخلت ختم کرنے میں بہت مدد ملی،سابق بھارتی وزیر اعظم آئی کے گجرال نے پاکستان کیخلاف ‘‘را’’ کے جارحانہ آپریشز کا خاتمہ کیا ، اس سے قبل سابق وزیر اعظم نرسمہا رائو بھی مشرقی سرحد پر یہ کارروائیاں بند کراچکے تھے ، 26/11 کے بعد بھارت کے سینئر انٹیلی جنس افسران بشمول نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر ایم کے نرائنن نے پورا زور لگایا کہ حکومت پاکستان کی آئی ایس آئی کے خلاف خفیہ کارروائیوں میں کمی کے بجائے اسے زیادہ و سعت دے ،ان کی یہ کوشش کامیاب رہی، بھارتی انٹیلی جنس افسران کی اکثریت کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کے خلاف ‘‘را’’ کی کارروائیوں میں اضافے کے بہترین نتائج حاصل ہوئے ،بالخصوص پاکستان میں موجود جہادی گروپوں کے خلاف را کی یہ کارروائیاں بہت مؤثر ثابت ہوئیں،2013 کے دوران لشکرطیبہ کے سربراہ حافظ سعید کے سکیورٹی انچارج خالد بشر کا قتل، جیش محمد تنظیم کی جانب سے سرحد پار دہشت گردی کی روک تھام، بلوچ علیحدگی پسندوں کو مسلح کرنا اور اس طرح کشمیر میں آئی ایس آئی کی سرگرمیوں میں رکاوٹیں پیدا کرنا وہ واقعات ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ‘‘را’’ کی نئی قیادت اور اس کی پالیسیوں کا ثمر ہے ۔ (کلبھوشن کو بھارتی جاسو س ثابت کر نے کا یہ مضمون وہاں کے کسی بھی میڈیا نے شائع کرنے سے انکار کر دیا ، مذکورہ بھارتی صحافی کو انڈین ایکسپریس کی ملازمت بھی چھوڑنا پڑ گئی ۔ بعدازاں frontline.in پر یہ آرٹیکل آیا ۔جسکا اردو ترجمہ کیا گیا )۔