حلقہ بندیاں کیسے ہوئیں ..... ؟
ملک بھر میں آئندہ عام انتخابات کے لیے نئی حلقہ بندیوں پر جزوی اعتراضات اپنی جگہ لیکن مجموعی طور پر یہ عمل طے شدہ فارمولے کے تحت ہوا ہے
(حبیب اکرم ) ملک بھر میں آئندہ عام انتخابات کے لیے نئی حلقہ بندیوں پر جزوی اعتراضات اپنی جگہ لیکن مجموعی طور پر یہ عمل طے شدہ فارمولے کے تحت ہوا ہے ۔ جس کے مطابق ہر صوبے کے لیے دستور میں مختص نشستوں کی تعداد پر آبادی کو تقسیم کرکے حاصل ہونے والے عدد کو کوٹہ کہا گیا،یعنی اتنی آبادی جو اوسطاً قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی کے ایک حلقہ کے لیے ضروری ہے ۔ اس طریق کار کے تحت صوبہ پنجاب میں قومی اسمبلی کی فی حلقہ آبادی 7 لاکھ80ہزار دو سو 66 ، خیبر پختونخوا کے لیے سات لاکھ 82 ہزار6سو 51، بلوچستان کے لیے سات لاکھ71ہزار پانچ سو 46 اور سندھ کے لیے سات لاکھ پچاسی ہزار ایک سو 35 قرار پائی۔ ہر صوبے کے لیے طے شدہ کوٹہ پر کسی بھی ضلع کی آبادی کو تقسیم کرنے سے جو عدد حاصل ہوتا ہے وہ دراصل اس ضلع میں صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستوں کا تعین کرتا ہے ۔ اگر اس طریقے سے حاصل ہونے والے عدد میں اعشاریہ بھی ہے تو اعشاریہ کے بعد پانچ کی صورت میں ایک مکمل نشست اس ضلع کو مل جائے گی اور اعشاریہ کے بعد پانچ سے کم عدد کی صورت میں نشست نہیں ملے گی۔ مثال کے طور پرضلع بنوں ( پختونخوا) کی آبادی کو صوبے میں فی نشست کوٹہ سے تقسیم کیا جائے تو حاصلِ تقسیم ایک اعشاریہ چار نو ہے جو اعشاریہ کے بعد پانچ تک نہیں پہنچتا اس لیے اسے قومی اسمبلی کی ایک نشست الاٹ کی گئی ہے ، گویا یہاں قومی اسمبلی کے حلقے کی آبادی گیارہ لاکھ 67ہزار ہوگی۔ اسی ضلع کی آبادی کو اگر صوبے کے لیے صوبائی اسمبلی کے کوٹہ یعنی 3 لاکھ آٹھ ہزار تین سو17سے تقسیم کیا جائے تو تین اعشاریہ سات نو کا عدد ملتا ہے ۔ اعشاریہ کے بعد آنے والا عدد پانچ سے زیادہ ہے اس لیے اس ضلع کو صوبائی اسمبلی کی چار مکمل نشستیں مل گئی ہیں۔ پنجاب میں قومی اسمبلی کے لیے طے کردہ آبادی کے کوٹہ پر جب لاہور کی آبادی کو تقسیم کیا گیا تو چودہ اعشاریہ دو چھے کا عدد حاصل ہوا ۔ اعشاریہ کے فوری بعد آنے والا عدد پانچ سے کم ہے اس لیے اسے نظر انداز کرکے لاہور کو قومی اسمبلی کی چودہ نشستیں الاٹ کردی گئی۔ پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے لیے فی حلقہ تین لاکھ ستر ہزار چار سو 29 کا کوٹہ مقرر ہوا جسے لاہور کی آبادی پر تقسیم کرنے سے تیس اعشاریہ صفر چار کا عدد حاصل ہوتا ہے ۔ اس میں اعشاریہ کے بعد آنے والے عدد کو پانچ سے کم ہونے کی وجہ سے نظر انداز کردیا گیا اور اس طرح لاہور کو صوبائی اسمبلی کی تیس نشستیں مل گئیں۔ ضلع راجن پور جہاں قومی اسمبلی کی ایک نشست کا اضافہ ہوا ہے ، وہاں بھی اسی فارمولے کے تحت دو اعشاریہ پانچ چھے کا عدد حاصل ہوا اور اعشاریہ کے فوری بعد پانچ آجانے کی وجہ اسے تین مکمل نشستیں الاٹ کرد گئیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عمومی خیال کے مطابق راجن پور کو قومی اسمبلی کے تین حلقوں کی بنیاد صوبائی اسمبلی کی 6 نشستیں نہیں ملیں بلکہ یہاں پر صوبائی اسمبلی کے لیے طے کردہ کوٹے پر جب ضلع کی آبادی کو تقسیم کیا گیا تو پانچ اعشاریہ تین نو کا عدد حاصل ہوا۔ اس عدد میں اعشاریہ کے بعد پانچ کے بجائے تین آتا ہے اس لیے اس حصے کو نظر انداز کردیا گیا اور راجن پور کو صوبائی اسمبلی کی صرف پانچ نشستیں مل سکیں۔ اس اصول کو ملک بھر میں ایک قومی اور ایک صوبائی اسمبلی کی نشست کے لیے نظر انداز کیا گیا، ایک سوات (پختونخوا) میں جہاں آبادی کو صوبائی کوٹے پر تقسیم کرنے سے سات اعشاریہ چار نو کا عدد آتا ہے ۔ اعشاریہ کے بعد پانچ نہ ہونے کے باوجود یہاں صوبائی نشستیں سات کے بجائے آٹھ کر دی گئیں۔ قومی اسمبلی کے لیے پنجاب کے ضلع جھنگ میں بھی یہ اصول نظر انداز ہوا جہاں کوٹہ پر ضلع کی آبادی کو تقسیم کرنے سے تین اعشاریہ پانچ دو حاصل ہوتا ہے جو قومی اسمبلی کی 4 نشستوں کے حصول کے لیے کافی تھا مگر یہاں صرف تین نشستیں الاٹ کی گئیں۔ الیکشن کمیشن کے مطابق دونوں جگہ اس اصول سے انحراف کی وجہ یہ تھی کہ دستور میں صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد میں اضافہ کرنا اس کے دائرہ کار سے باہر ہے ۔