حسن عسکری دنیا نیوز کے ممتاز تجزیہ نگار
پروفیسرحسن عسکری دنیا نیوز کے ممتاز تجزیہ نگار ہیں الیکشن کمیشن نے پنجاب کے لئے ان کو نگران وزیر اعلیٰ نامزد کیا ہے اور علاؤ الدین مری کو بلوچستان کا نگران وزیر اعلیٰ مقرر کیا گیا ہے ۔
لاہور(دنیا نیوز) پنجاب کے حوالے سے یہ بہت اہم فیصلہ ہے کیونکہ اس معاملے میں ن لیگ اور پی ٹی آئی کے درمیان اس وقت سے حالات مناسب نہیں تھے جب شہباز شریف نے پی ٹی آئی کے امیدوار ناصر کھوسہ کو نگران وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے قبول کر لیا تھا لیکن اچانک پی ٹی آئی اس فیصلے سے پیچھے ہٹ گئی اور جمعرات کو پی ٹی آئی کو اس سلسلے میں کامیابی مل گئی کیونکہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے امیدوار حسن عسکری کو عبوری وزیر اعلیٰ مقرر کردیا ۔"دنیا کامران خان کے ساتھ"کے میزبان کے مطابق پروفیسر حسن عسکری ہر لحاظ سے ایک ممتاز علمی ادبی شخصیت اور بھلے مانس شخص ہیں ۔تعلیم و تدریس سے ہمیشہ تعلق رہا ہے ۔سیاسیات اور سیاسی و عسکری تعلقات کے حوالے سے ان کی بڑی اہمیت رہی ہے سیاسی تجزیہ کار بھی ہیں ۔ دنیا نیوز کے پروگرام "تھنک ٹینک " کا مستقل حصہ بھی رہے ہیں ۔پروفیسر حسن عسکری رضوی کی اپنی ایک شناخت ہے ان کے تجزیوں میں عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ وہ پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت کے نقاد رہے ہیں ۔وہ ن لیگ کی سیاست کا جامع تنقیدی جائزہ لیتے رہے ہیں لیکن اس میں کہیں بھی ذاتیات نظر نہیں آتی ۔حدود سے تجاوز نظر نہیں آتا۔شائستگی اور علمی بنیاد پر ان کے تجزئیے رہے ہیں ۔یقینی طور پر ن لیگ کو ان کے تجزیات ،ان کے کالم اور گفتگو پسند نہیں آتی۔ان کے انتخاب پر مسلم لیگ نے برا منایا اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کئی سابق وزرا ئاحسن اقبال ،سعد رفیق اور خرم دستگیر کے ساتھ فوری طور پر پریس ٹاک کی اور حسن عسکری کے تبصرے اور ٹویٹ کی بنیاد پر انھیں جانبدار قرار دیا ۔الیکشن کمیشن نے حسن عسکری کی تقرری کا بھرپور دفاع کیا اور الیکشن کمیشن کے ترجمان الطاف خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پانچوں اراکین نے چار ناموں میں سے پروفیسر حسن عسکری کا انتخاب متفقہ طور پر کیا ہے جو آئین اور قانون کے مطابق ہے اس لئے اب کوئی راستہ نہیں ہے اس لئے یہ فیصلہ حتمی ہے ۔ اس ضمن میں ممتاز قانون دان خالد جاوید خان نے کہا الیکشن کمیشن کے پاس یہ معاملہ اس وقت گیا جب منتخب پارلیمانی قیادت اس ایشو پر ناکام ہو چکی تھی اور ڈیڈ لاک پیدا ہو گیا تھاالیکشن کمیشن کے پاس لا محدود چوائس نہیں ہوتی ،ان کے پاس وہی نام تھے جو پارلیمانی کمیٹی نے بھیجے تھے ۔یہ الیکشن کمیشن کا متفقہ فیصلہ ہے ۔