کیاانتخابات ملک میں استحکام کا ذریعہ بن پائیں گے ؟
تینوں بڑی جماعتیں اپنا وزیراعظم لانے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گی موجودہ صورتحال میں طاقتور طبقات کی نظر انتخاب تحریک انصاف کیوں ؟
تجزیہ:سلمان غنی ہر آنے والے دن میں انتخابی سرگرمیوں کے باعث انتخابی منظر نامہ واضح ہو رہا ہے اور اب بحث انتخابات کے انعقاد کے بجائے انتخابات کے نتائج اور مستقبل کی حکومت سازی کی جانب بڑھ رہی ہے اور امکان یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ بڑی سیاسی قوتوں کی جانب سے اپنی جیت کے حوالے سے بلند و بانگ دعوئوں کے باوجود مرکز میں ایک مخلوط حکومت کے قیام کے آثار واضح ہو رہے ہیں جبکہ صوبوں میں انتخابی منظر نامہ یہ بتا رہا ہے کہ ملک کے تین بڑے صوبوں میں نتائج کم و بیش 2013 سے مختلف نہیں ہوں گے ۔ تقریباً تینوں بڑی جماعتیں مسلم لیگ ن، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی اقتدار میں ہوں گی، البتہ مرکز اور بلوچستان میں مخلوط حکومتیں ہوں گی جہاں طاقتور اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر سیاستدان اقتدار کی میوزیکل چیئر میں مصروف رہیں گے ، لہٰذا سوالات یہ ہیں کہ انتخابات ہوں گے تو کیا ملک میں ان نتائج سے سیاسی استحکام آ سکے گا ۔کیا قائم ہونے والی حکومتیں ملک کو در پیش مسائل کے حل کیلئے کوئی فیصلہ کن کردار ادا کر سکیں گی اور آخر کیا وجہ ہے کہ کوئی بھی جماعت مرکز میں واضح اکثریت لیتی نظر نہیں آ رہی؟۔جہاں تک انتخابی نتائج میں تینوں بڑی جماعتوں کے سکور کارڈ کی کیفیت ہے تو ذہن میں رکھے کہ ن لیگ مرکز اور ملک کے بڑے صوبے میں برسر اقتدار رہی ۔ نواز شریف کی جماعت کے بڑے حریف عمران خان کی جماعت صوبہ خیبرپختونخوا میں حکمران رہی جبکہ سندھ آصف زرداری کے زیر نگیں رہا ۔ مگر افسوس ہے کہ ایسے منظر نامے میں یہ تینوں جماعتیں آپس میں لڑ کر بھی اکثریت لیتی نظر نہیں آ ر ہیں۔ یہ واضح اشارہ ہے کہ عوامی احتساب حکومتوں کی کارکردگی کی بجائے ان مخصوص اشارہ سازوں کی مرضی پر ہو گا جو کہ اس وقت سیاسی عدم استحکام کے پیچھے ہیں۔ لگ یہی رہا ہے کہ تینوں جماعتیں قومی اسمبلی کے ایوان میں اس اکثریت کے ساتھ ضرور موجود ہونگی کہ اپنے حریفوں کو ایک مشکل صورتحال میں پھنسا دیں ۔ مگر یہ صورتحال ملک کو در پیش سیاسی بحران، معاشی بحران اور عالمی طاقتوں سے بگڑتے تعلقات کے تناظر میں ٹھیک نہیں۔ مگر شاید پاکستان میں موجود مقتدر حلقے اب یہ ذہن بنا چکے ہیں کہ اسلام آباد میں ایسی کوئی جماعت برسر اقتدار نہ آئے جو بڑے فیصلوں کو اپنے سیاسی منشور اور ایجنڈے پر چلائے ، اگر ایسا کسی جماعت کی اکثریت لینے کے بعد ہوا تو پھر اسٹیبلشمنٹ کو وہی نا موافق صورتحال در پیش ہو گی جو سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور میں در پیش رہی ۔ اس طرح انتخابات اور نتائج شاید ملک میں جمہوریت کا سفر تو جاری رکھ سکتے ہیں مگر بحیثیت باوقار قوم ہماری منزل سے ہمیں دور کر دیں گے ۔ پاکستان کو در پیش چیلنجز تو اس وقت ایسی جمہوری اور مضبوط حکومت کا تقاضا کر رہے ہیں جو سخت ترین فیصلے فوری اور فیصلہ کن انداز میں کرے اور ملک میں غیر یقینی کی صورتحال کو ختم کر سکے مگر آئندہ انتخابات کے نتائج ابھی سے پتہ دے رہے ہیں ۔جمہوری عمل میں سویلین بالادستی محض فریب اور خواب سے زیادہ کچھ نہیں ہو گی۔ اس صورتحال میں اصل فیصلہ سازوں کیلئے یہ پلان بھی نظر آ رہا ہے کہ وفاق میں ایک کمزور حکومت کے ساتھ مضبوط صوبائی حکومتیں معرض وجود میں آئیں تا کہ جمہوریت کے اصل ثمرات اور سویلین بالادستی کے معاملات اور موضوعات کو اپنے صوبے کا اقتدار قربان کرنے کا خطرہ مول نہ لیاجاسکے ۔ یہ صورتحال اس سیاسی پریشر ککر جیسی ہو گی جس میں مرکز میں جاری سیاسی گھٹن کا علاج صوبے میں سیاسی قوتوں کو فری ہینڈ دینے سے ختم ہو گی اور مرکز میں حکومت کو سنجرانی ماڈل کے خالق چلائیں گے اور اس فارمولے کیلئے طاقتور حلقوں کی پہلی نظرِ انتخاب تحریک انصاف ہوگی۔گزشتہ پنجاب اسمبلی میں شہباز شریف کے پاس 371 کے ایوان میں 300 ممبران صوبائی اسمبلی کی حمایت موجود تھی اور اگر اس دفعہ محض پچاس ممبران کی سیٹیں بھی ن لیگ مخالف کیمپ میں چلی جائیں تو صوبے میں حکومت سازی کیلئے شہباز شریف کو کوئی مشکل در پیش نہیں ہو گی۔ اگر ایسا ہوا تو یہ عمران خان کی جماعت کیلئے پنجاب کے محاذ جنگ پر بڑی فیصلہ کن شکست ہو گی کیونکہ عمران خان اور نواز شریف کے حریف یہ بخوبی جانتے ہیں کہ مرکز میں ملک کا نظام حکومت چلانا اور ملک کے بڑے صوبے پنجاب میں اقتدار کا حصول کتنا اہم ہے ۔ ماضی میں محترمہ بینظیر بھٹو پنجاب کے بغیر وفاق میں حکومت کا تجربہ کر چکی ہیں۔ ایسا سیاسی منظر نامہ دوبارہ بنا تو پی ٹی آئی مرکز میں پیپلز پارٹی کے ہاتھوں مزید رسوائی کا سامنا کر سکتی ہے اور معاملات وفاق میں بگڑے تو پہلی منزل مڈ ٹرم ہو گی۔