عمران کا مخلوط حکومت سے انکار، کئی سوالات نے جنم لے لیا
سروے رپورٹس میں کوئی بھی جماعت سو سے زائد نشستیں حاصل کرتی نظر نہیں آرہی نئے پاکستان اور سیاسی تبدیلی کے نعرے سیاسی حلقوں میں مذاق کا روپ دھار چکے ہیں
تجزیہ:سلمان غنی تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے آنے والے انتخابات کے نتیجہ میں کسی مخلوط حکومت کا حصہ بننے سے انکار اور خصوصاً سابق صدر آصف علی زرداری کے ساتھ کسی قسم کے اعتبار کو خارج از امکان قرار دے کر بہت سے سوالات کھڑے کر دیئے ہیں کیونکہ ملک کے اندر ہونے والے انتخابات اور انتخابات کے ممکنہ نتائج کے حوالہ سے ایک بات کھل کر سامنے آرہی ہے کہ کوئی بھی اکیلا پرواز نہیں کرسکے گا اور نہ ہی اسلام آباد ایسی کسی حکومت کے متحمل ہوسکے گا۔ عمران خان نے یہ بات کیونکر کہی اس کے مقاصد کیا ہیں اور یہ پیغام کس کیلئے ؟ اس حوالہ سے اگر زمینی حقائق اور ملک میں انتخابی رجحانات کا اندازا لگایا جائے تو ایک بات تو واضح طور پر کہی جاسکتی ہے کہ عمران خان نے اپنی حکومت کے قیام کیلئے آج تک سیاسی تبدیلی نیا پاکستان سمیت کئے جانے والے عام تر سیاسی دعوؤں کی نفی کرتے ہوئے اس شخص سے ساتھ ملا لیا جس کی جیت کے امکانات تھے ‘‘الیکٹیبلز’’ ان کے ساتھ کیونکر آئے کس نے ان کی پہنچ عمران خان تک ممکن بنائی اور ان کے ساتھ کیا وعدے وعید ہوئے وہ صرف الیکٹیبلز ہی بہتر جانتے ہیں اور شاید عمران خان اور ان کی اپنی جماعت کو بھی اس کی فکر نہیں اور اتنی بڑی تعداد میں الیکٹیبلز کا چند ماہ میں تحریک انصاف کی کشتی پر سوار ہونا ایک طرف جہاں عمران خان کی انتخابی اور سیاسی تقویت کا باعث بنا ہے تو دوسری جانب ملک میں تبدیلی روایتی مسائل کے حل اور طبقاتی نظام کو ختم کر کے نئے پاکستان کی بات اب ایک خواب میں تبدیل ہوچکی ہے ۔نئے پاکستان اور سیاسی تبدیلی کے نعرے سیاسی حلقوں میں مذاق کا روپ دھار چکے ہیں اور قوم میں اب یہ بات زیر بحث ہے کہ آیا عمران خان تبدیلی اور اقتدار کی سیاست کے بجائے بالآخر اقتدار کی منزل اور ہرقیمت پر اسے یقینی بنانے کیلئے تمام اخلاقی اور سیاسی حدیں پار کر لیتے ہیں۔ جہاں تک ان کی جماعت سے مخلوط حکومت کا حصہ بننے سے انکار کا سوال ہے اور وہ یہ بات دل سے کہہ رہے ہیں تو پھر ان کی وزارت عظمیٰ تو ایک خواب ہی سمجھا جاسکتا ہے ۔ جہاں تک ان کا سابق صدر آصف علی زرداری کے ساتھ کسی قسم کا اتحادنہ کرنے کے امکان کی بات ہے تو ابھی کل کی بات ہے کہ وہ ایسے ہی دعوے کرتے نظر آئے تھے مگر نواز شریف کی جماعت کو سینیٹ سے دور رکھنے کیلئے نہ صرف انہوں نے آصف علی زرداری سے ہاتھ ملایا بلکہ ان کی پارٹی کے ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈی والا کو تحریک انصاف کے سینیٹرز نے ووٹ بھی دینے کا کہا اس وقت وہ دشمن کا دشمن اور دوست ہوتا ہے اس فارمولا پر عمل پیرا تھے ۔ انتخابی فضاء کا رخ کس سیاسی لیڈر شپ اور جماعت کی جانب ہوتا ہے یہ اگلے چند روز میں واضح ہو جائے گا لیکن ایک بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ عمران خان اپنی جماعت کے بل بوتے پر کوئی الیکشن جیتنے کی پوزیشن میں ہیں اور نہ ہی آنے والے انتخابات میں ان کی جماعت اکیلے حکومت بناسکے گی ابھی تک سامنے آنے والے عام تر سروے رپورٹس میں کوئی ایک بھی جماعت ایسی نہیں جو ایک سو سے زائد قومی اسمبلی کی نشستیں حاصل کر رہی ہو یا کم از کم پنجاب کی سطح پر مسلم لیگ (ن) کو شکست دینے کی پوزیشن میں ہو جہاں تک سابق صدر آصف زرداری اور پیپلزپارٹی کی حکمت عملی کا سوال ہے تو اب تک تو انہوں نے انتخابات کے چیلنج سے نمٹنے کیلئے ابھی تک جارحانہ طرز عمل اختیار نہیں کیا بلکہ انہیں جہاں سے جو کچھ بھی کہا جاتا رہا وہ مانتے چلے گئے لیکن آنے والے حالات میں تیسری کامیابی کی صورت میں پیپلزپارٹی نئے منشور کا مظاہرہ کرے گی اور اپنی شرائط پر حکومت سازی کے عمل میں شامل ہوگی۔اگر یہ صورتحال انتخابات کے نتائج کے بعد طاقتور حلقوں کے سامنے کھڑی ہوگئی جس کی طرف عمران خان اشارہ کر رہے ہیں تو لازمی طور پر یا تو نئے الیکشن میں نئے ہینڈ سیٹ کی از سر نوضرورت پڑ جائے گی یا پھر کوئی اصل منصوبہ کوئی اور ہے ؟ عمران خان کی جماعت اور وہ پیپلزپارٹی سے مل کر حکومت بنانے کے موڈ نہیں ہیں تو پھر اس جماعت کے اصلی حمایتوں کا پلان کیا ہے ؟ کیونکہ اندرون سندھ میں اور کراچی میں بھی پیپلزپارٹی کو کچھ مشکلات درپیش ہیں۔ کہیں سارا منصوبہ نئے سرے بدلنے کا پروگرام تو نہیں بن رہا۔