انتخابات قریب تر:روایتی انتخابی فضا نظر نہیں آرہی
ایک طرف حکومت بنانے کی خو د اعتمادی ، دوسری جانب مایوسی کی کیفیت لیڈر شپ کے انتخابی دورے روایتی ، نتائج کو اپ سیٹ نہیں کر سکیں گے
( تجزیہ:سلمان غنی) سیاسی محاذ پر لیڈر شپ کی جانب سے الزام تراشی گالی گلوچ ، تند و تیز بیانات اور انتخابی عمل میں بھرپور وسائل جھونکنے کے باوجود انتخابی حلقوں میں انتخابی فضا کیونکر طاری نہ ہو سکی اور وہ روایتی انتخابی بخار جو انتخابات سے چند روز قبل گلی محلوں، بازاروں ، چوکوں، چوراہوں پر نظر آتا تھا وہ طاری نہیں ہو سکا۔ سیاسی کارکنوں کو بروئے کار لانے کے بجائے مختلف کمپنیوں کے ٹھیکے داروں کے ذریعے پرچموں اور بینرز کی بھرمار کر دینے کے باوجود وہ انتخابی گہما گہمی جو محلوں کی رونق بنتی تھی نظر نہیں آتی، انتخابی حلقوں میں بننے والے انتخابی دفاتر رات گئے تک آباد رہتے اور انتخابی امور پر بحثیں نوجوانوں اور سیاسی کارکنوں کا خون گرمائے رکھتیں ۔ مذکورہ صورتحال کی وجوہات کیا ہیں۔ عوام اور خصوصاً نوجوان بھرپور انداز میں انتخابی عمل کا حصہ کیونکر نہیں بن رہے ؟ انتخابی فضا کیونکر طاری نہ ہوسکی؟ اور یہی رجحان طاری رہا تو کیا ووٹنگ کی شرح حوصلہ افزا ہو پائے گی؟ اور ملک میں ایک مضبوط ،موثر حکومت وجود میں آئے گی؟ یہ وہ سوالات ہیں جو خود سیاسی لیڈر شپ کو بھی پریشان کئے ہوئے ہیں اور انتخابات اور انتخابی سروے میں سرگرم ادارے بھی محسوس کر رہے ہیں۔ جہاں تک اس حوالے سے سیاسی جماعتوں کے فعال اور موثر کردار کا سوال ہے تو تحریک انصاف اور اس کے کارکنوں کا جو کردار 2013 کے انتخابات میں نظر آ رہا تھا ۔ جس جذبے اور ولولے کا اظہار سیاسی تبدیلی کیلئے ان کی جانب سے ہو رہا تھا وہ نظر نہیں آ رہا جس کی ایک بڑی وجہ یہ سامنے آ رہی ہے کہ تاثر یہ پیدا کر دیا گیا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت میں آنے کی منزل قریب تر ہے ۔ لہٰذا خوامخواہ زیادہ ہلکان ہونے کی ضرورت نہیں اور ان کے سیاسی کارکنوں خصوصاً نوجوانوں کے اندر یہ چہ مگوئیاں بھی جاری ہیں کہ اب پاکستان کی مقتدر قوتوں کی بھی ضرورت تحریک انصاف کو لانا ہے جس کیلئے ہمیں زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ جبکہ دوسری جانب سابق حکمران جماعت مسلم لیگ (ن)کے ذمہ داران ،انتخابی امیدواران اور کارکن اپنی لیڈر شپ کو ٹارگٹ کرنے کے عمل، ان کے خلاف مقدمات اور عدالتی فیصلوں سے پریشان بھی ہیں اور خوف و ہراس کا شکار بھی۔ لہٰذا وہ بھی انتخابات قریب آنے کے باوجود اپنا روایتی کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ 2013 کے انتخابات میں یہ تاثر غالب تھا کہ نواز شریف برسر اقتدار آ رہے ہیں لہٰذا شیر ہر جگہ غالب نظر آتا تھا اور بلا ہوا میں لہرا تو رہا تھا مگر سکور کرنے سے عاری تھا۔ یہی وجہ تھی کہ مسلم لیگی دیوانہ وار انتخابی مہم میں سرگرم تھے اور خصوصاً انتخابات کے آخری دنوں میں ان کا جوش و خروش عروج پر تھا اور پولنگ کے روز ان کی پھرتیاں خاطر میں نہیں آ رہی تھیں۔ لہٰذا مذکورہ صورتحال کے حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ سیاسی محاذ تو گرم ہے مگر عوامی محاذ پر تحفظات ہیں۔ خطرات میں عوام کے اندر ایک مایوسی تو خود سیاستدانوں کے طرز عمل نے پیدا کی جس میں وہ ایک دوسرے کو ٹارگٹ کرتے اور الزام تراشی کا سہارا لیتے نظر آئے اور عوام کے اصل ایشوز اور خصوصاً پاکستان کو در پیش سلگتے مسائل کو ترجیح نہ دی جس سے یہ تاثر قائم ہوا کہ ان کے پاس ایک دوسرے کو عوامی محاذ پر ذلیل و رسوا کرنے کیلئے تو بہت کچھ ہے مگر قوم و ملک کو در پیش مسائل کے حوالے سے سنجیدہ پروگرام نہیں اور خصوصاً عمران خان کی جانب سے سیاسی تبدیلی کا نعرہ بھی بڑے پیمانے پر الیکٹیبلز کو ساتھ ملانے پر گہنا گیا۔ دوسرا انتخابی عمل میں ٹکٹوں کی تقسیم اور اس حوالے سے لگنے والی سیل کے عمل نے سیاسی کارکنوں کے اندر مایوسی کی لہر دوڑا دی اور ان کے اندر احساس محرومی پیدا ہوا کہ اگر پارٹی ٹکٹ کے لئے پیمانہ اثر و رسوخ اور سرمایہ ہے تو پھر کیسی سیاسی جدوجہد اور کیسا سیاسی کارکن۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب کی سطح پر مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے درمیان ٹکٹوں کی تقسیم کے پیمانے مختلف نہ تھے اور سیاسی کارکنوں میں عموماً اور عوام اور نوجوانوں میں خصوصاً مایوسی پیدا ہوئی۔ اور وہ یہ کہتے نظر آئے کہ انتخابات اور انتخابی عمل کے نتیجہ میں کسی خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ ماضی میں انتخابی عمل کے دوران انتخابی حلقوں خصوصاً محلوں میں انتخابی دفاتر کا قیام عمل میں آتا تھا۔ محلے کے نوجوان اور سیاسی کارکنوں کو مخصوص رقم فراہم کی جاتی اور وہ ایک بیٹھک یا د کان میں دفتر کھولتے اور رونق لگا لیتے ۔ اب یہ رجحان بھی بوجوہ نظر نہیں آ رہا۔ جس کے باعث محلوں اور چوکوں ، بازاروں میں انتخابی رونق کا فقدان ہے ۔ انتخابی فضا طاری نہ ہونے کی ایک اور بڑی وجہ غیر یقینی اور بے چینی کی صورتحال بھی رہی اور ابھی تک سطح پر یہ رجحان اور گمان غالب نظر آ رہا ہے کہ ان انتخابات کے نتیجہ میں اول تو کوئی مضبوط اور نمائندہ حکومت بننی نہیں اور اگر بنتی ہے تو چلنی نہیں کیونکہ شروع سے یہ تاثر سیاسی محاذ پر غالب آ گیا کہ مرکز میں ایک مضبوط نہیں مخلوط حکومت قائم ہوگی اور کسی کو یہ یقین نہیں کہ انتخابات کے نتیجہ میں چلنے والی حکومتی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے والے کو سٹیرنگ بھی ملے گا یا نہیں اور یہی وہ پر اسرار اور نفسیاتی کیفیت ہے جو جماعتوں اور کارکنوں میں روایتی جوش و جذبہ پیدا کرنے میں رکاوٹ بنی۔ پنجاب کی سطح پر پیپلز پارٹی جیسی جماعت اپنا علیحدہ رنگ جمانے کے حوالے سے اپنی پہچان رکھتی ہے ۔ لیکن 2013 کے انتخابی نتائج کے بعد پنجاب جیسے بڑے صوبہ میں اسکی اہمیت اور حیثیت میں بڑی کمی آئی اور ایک وقت میں جب لوگ پیپلز پارٹی کی ٹکٹ کے حصول کو اپنی کامیابی کی گارنٹی سمجھتے تھے اب اس جماعت کی ٹکٹ اول تو کوئی لیتا نہیں اور جو لے لیتا ہے تو اسے بھی یہ بوجھ لگتی ہے ۔ لہٰذا موجودہ انتخابات میں جیالوں کے رنگ سے بھی انتخابی فضا محروم رہی۔ تینوں بڑی جماعتوں کے قائدین عمران خان، شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری اپنی عوام رابطہ مہم کے ضمن میں مختلف حلقوں کے دوروں پر ہیں ماضی میں لیڈر شپ کے یہ کامیاب دورے انتخابی نتائج کو اپ سیٹ کرنے کا کام کرتے رہے ۔ ہر انتخابی امیدوار اپنی یقینی جیت کیلئے لیڈر شپ کے دورہ کیلئے ممکنہ زور آزمائی کرتا نظر آتا تھا۔ لیکن موجودہ انتخابی عمل میں لیڈر شپ کے ان دوروں کو روایتی انتخابی دورے تو قرار دیا جا سکتا ہے مگر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ لیڈر شپ کے دوروں پر پورا شہر امڈ آیا یا عوام کے جم غفیر کے باعث لیڈر شپ سٹیج تک نہ پہنچ سکی یا یہ کہ کسی لیڈر کی آمد پر شہر میں ٹریفک جام ہو گئی لہٰذا مذکورہ صورتحال کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ ملک میں جمہوری عمل کے تسلسل کے تحت انتخابات 25 جولائی کو منعقد تو ہو رہے ہیں البتہ ان انتخابات کے حوالے سے جو انتخابی ماحول طاری ہونا تھا وہ نہیں ہوا اس کے ذمہ دار ملک میں رونما ہونے والے حالات و واقعات اور ان میں پاکستانی اداروں کا کوئی کردار یا سیاسی قیادت کی جانب سے اختیار کیا جانے والا طرز عمل ہے ، اس حوالے سے حتمی بات انتخابی نتائج کے بعد ہی کہی جا سکے گی۔ لیکن یہ ضرور اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مذکورہ انتخابات اور نگران حکومتیں ملک میں ایسی فضا طاری نہ کر سکیں جس کے نتیجہ میں یہاں اقتصادی سیاسی اور انتظامی استحکام قائم ہو۔ ایسا کیونکر ہوا اس پر پاکستان کی سیاسی قیادت کو سوچنا ضرور چاہئے کیونکہ ان کے طرز عمل نے ملک میں اچھی سیاسی روایات قائم کرنے کے بجائے یہاں محاذ آرائی، کشمکش اور تناؤ کا ایسا سلسلہ قائم کیا ہے جو مستقبل میں بھی رکتا نظر نہیں آتا اور یہ خود ان کیلئے چیلنج اور پاکستان کے بیس کروڑ عوام کیلئے لمحہ فکریہ ہے ۔