سی پیک : ریلوے کا خفیہ معاہدہ , چشم کشا حقائق
پاکستان اور چین کے درمیان پاک۔چین اکنامک کوریڈور کے تحت ریلوے کی پشاور سے کراچی تک 1872 کلومیٹر طویل مین لائن
( ذوالفقارعلی مہتو) پاکستان اور چین کے درمیان پاک۔چین اکنامک کوریڈور کے تحت ریلوے کی پشاور سے کراچی تک 1872 کلومیٹر طویل مین لائن۔ون کی اپ گریڈیشن کے منصوبے کے سلسلے میں چین اور پاکستان ریلوے کے درمیان سابق حکومت کے دور میں کئے گئے معاہدے کو عوام سے خفیہ رکھنے کا انکشاف ہوا ہے ،جس کے تحت منصوبے کی اصل لاگت اور اس کے فوائد و نقصانات (ورک سکوپ آف دی پراجیکٹ) کا فرشتوں کو بھی علم نہیں۔دنیا نیوز نے وزارت ریلوے ،وزارت خزانہ اور منصوبہ بندی کمیشن کی دستاویزات اورمنصوبے کی منظوری کے عمل میں شامل حکام سے بات چیت کے دوران پتہ چلایا ہے کہ 746 کلومیڑ ٹریک کی اپ گریڈشن کے علاوہ حویلیاں ڈرائی پورٹ کے قیام اور ریلوے والٹن اکیڈمی کی بہتری پر مشتمل منصوبے کے فیز۔ون کی فزیبیلٹی سٹڈی میں ظاہر کی گئی لاگت کے مقابلے میں صرف ایک سال کے دوران 49 فیصد کا ناقابل یقین اضافہ ہوگیا جس کے بعد فیز ون کی لاگت 1 ارب 84 کروڑ 10 لاکھ ڈالر سے بڑھ کر 2 ارب 74 کروڑ 80 لاکھ ڈالر تک جا پہنچی ہے ۔منصوبہ بندی کمیشن کے ایک اعلیٰ افسر نے بتایا ہے کہ لاگت کے ان تخمینوں کے لحاظ سے فیز ٹو سمیت پورے منصوبے کی ریلوے کی جانب سے بتائی گئی لاگت 8 ارب 52 کروڑ ڈالر سے کہیں بڑھ سکتی ہے ۔مختلف دستاویزات سے چشم کشا حقائق بھی سامنے آئے ہیں کہ پاکستان ریلوے کو 1971ء سے اب تک مجموعی طور پر 626 ارب روپے کا خسارہ ہوا ہے اور ریلوے حکام کے دعوے کے مطابق مین لائن۔ون کی اپ گریڈیشن کی صورت میں یہ مجموعی خسارہ سن 2045ء میں ختم ہوجائے گا۔ریلوے کی دستاویز کی بنیاد پر لگائے گئے اندازے کے مطابق چین سے لئے گئے قرض پر سود اور اصل زر کی واپسی کی مد میں ریلوے کو سالانہ 75 ارب روپے سے زائد ادا کرنا پڑیں گے جبکہ اس وقت ریلوے اس مد میں لگ بھگ صرف 2 ارب روپے ادا کررہا ہے ۔پلاننگ کمیشن کے افسر نے بتایا ہے کہ گزشتہ ہفتے پی ٹی آئی حکومت کے نئے وفاقی وزیر منصوبہ بندی،ترقیات و اصلاحات خسرو بختیار اور سیکرٹری وزارت منصوبہ بندی ظفر حسن کے ساتھ ریلوے حکام کے ایک اجلاس کے بعد ریلوے کی طرف سے اصل لاگت اور سکوپ آف ورک بغیر منظور کئے 3 ارب 40 کروڑ ڈالر کی فرضی لاگت کا چوتھا پی سی ون بھی مسترد کردیا گیا ہے اور پی سی ون پرلگائے گئے 6 اعتراضات دور ہونے تک منصوبہ حتمی منظوری کے لئے قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی (ایکنیک) کو بھیجنے سے روک لیا گیا ہے ۔دنیا نیوز کو دستیاب ایک اہم دستاویز میں انکشاف ہو اہے کہ اصل لاگت سے نا آشنا ریلوے حکام نے منصوبہ بندی کمیشن کو 5 ارب روپے سے زائد لاگت کے منصوبوں کی منظوری کے لئے قائم فورم سنٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی (سی ڈی ڈبلیو پی) کو ریلوے مین لائن۔ون کے فیز ون منصوبے کے تین پی سی ون 8 جون 2016ئ،19 ستمبر 2017ء اور 29مارچ 2108ء کو پیش کئے ۔ تیسرے پی سی ون میں فیز۔ون کی ایک لاگت کے بجائے تین مختلف تخمینے پیش کردئیے گئے جن کے تحت چینی کمپنی چائنہ ریلوے اریان انجینئرنگ گروپ (کریک) کے مطابق بشمول انجن ،بوگیاں اور ریلوے ویگنیں، لاگت 4 ارب 7 کروڑ ڈالر بتائی گئی،اسی دستاویز میں ریلوے نے اپنے اندازے کے مطابق لاگت 3 ارب 40 کروڑ ڈالر بتائی اور اسی دستاویز کے اسی صفحے پر اپریل 2016ء میں چائنہ ریلوے اریان گروپ،نیسپاک اور ریلوے کی کمپنی پریکس کی مشترکہ فزیبیلٹی سٹڈی کے تحت سامنے آنیوالے لاگت کے تخمینے 3 ارب 30 کروڑ ڈالر کو لکھ دیا گیا۔منصوبہ بندی کمیشن کے ذرائع نے بتایا ہے کہ سنٹری ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی مئی 2018ء میں ہونیوالے ایک اجلاس میں 3 ارب 40 کروڑ ڈالر کا چوتھا پی سی ون پیش کردیا گیا جس کی بنیاد پر چینی کمپنی کے تیار کردہ منصوبے کے ابتدائی ڈیزائن کو تیار کیا گیا لیکن حیران کن طور پر اسی پی سی ون میں اعتراف کیا گیا کہ منصوبے کی لاگت اور سکوپ کے اندازے کی فنی چھان بین کے لئے مقرر کئے گئے مشیر نیسپاک نے چینی کمپنی کے ڈیزائن کی لاگت کو ڈیزائن کی تفصیلات، بیک اپ ڈیٹا اور شواہد کو ناقابل تصدیق قرار دیکر مسترد کردیا ہے ۔ نیسپاک اور ریلوے دستاویز میں اس اعتراف کی بناء پر پلاننگ کمیشن نے چوتھا پی سی ون بھی مسترد کردیا۔اس اجلاس میں شریک ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ اس وقت کے ریلوے کے ڈائریکٹر جنرل پلاننگ سید مظہر علی شاہ جو ان دنوں نیشنل مینجمنٹ کورس پر ہیں نے انکشاف کیا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے دور حکومت میں چینی حکومت کے ساتھ 17 مئی 2017ء کو بیجنگ میں ہونیوالے فریم ورک اور وزارت ریلوے اور چین کی نیشنل ریلوے کے درمیان معاہدوں کے تحت مین لائن۔ون کا منصوبہ کی سٹریٹجک حیثیت کے باعث اسکی لاگت،سکوپ ،فنانسنگ اور دیگر تفصیلات خفیہ رکھنے کی پابندی ہے ، اس لئے پلاننگ کمیشن یہ تفصیلات پوچھے بغیر منصوبے کو ایکنیک میں بھیج دے اور منصوبے کی اس لاگت اور سکوپ اگلے مرحلے میں ٹھیکے دینے کے دوران سامنے آجائے گا۔ریلوے ڈی جی کے اس بیان پر منصوبہ بندی کمیشن کے افسروں نے کہا کہ ملکی تاریخ میں ایسا کوئی منصوبہ ایکنیک سے منظور نہیں ہوا جس کی حتمی لاگت اور فوائد ونقصانات کا پیشگی اندازہ نہ ہو اس لئے سی ڈی ڈبلیو پی اصولی طور پر اس منصوبے سے متفق ہونے کے باوجود تھرڈ پارٹی کے ذریعے منصوبے کے سکوپ اور لاگت کی تصدیق،2018ء کی قومی ٹرانسپورٹ پالیسی کے مطابق ریلوے کی ری سٹرکچرنگ ،منصوبے میں چینی کمپنیوں کا کردار کم کرنے سمیت 6 شرائط پوری کئے بغیر ایکنیک کو منظوری کے لئے نہیں بھیج سکتی۔دنیا نیوز نے مین لائن ون کے منصوبے پر عمل درآمد کی نگرانی کے لئے تقریباً 10 کروڑ روپے کی فیس کے تحت کینڈا اورپاکستانی ماہرین پر مشتمل مقرر کئے گئے پراجیکٹ مینجمنٹ کنسلٹنٹس کے رکن ایک سابق ریلوے افسر سے بات چیت کے دوران چینی کمپنی "کریک" کی طرف سے فیز۔ون کی 3 ارب 40 کروڑ ڈالر کی لاگت پر تبصرہ کے لئے کہا تو ان کا کہنا تھا کہ "یہ بہت زیادہ ہے "۔ریلوے کے ایک سینئر انجینئر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انکشاف کیا کہ چینی کمپنی ریلوے ٹریک (سٹیل کی لائن) کی فی ٹن قیمت 750 امریکی ڈالر مانگ رہی ہے جبکہ ریلوے نے یہی ٹریک حال ہی میں 550 ڈالر فی ٹن میں خریدا ہے اس طرح منصوبے میں شامل ریلوے سٹشینوں،یارڈز،ڈرائی پورٹ اور والٹن اکیڈمی میں بلڈنگز کی تعمیر کے کورڈ ایریا کا ریٹ 1 ہزار ڈالر فی مربع میٹر مانگا ہے حالانکہ یہ لاگت 300 سے 400 ڈالر ہونی چا ہیے ۔اسی افسر نے حیرانی کے ساتھ یہ بھی بتایا کہ چینی کمپنی منصوبے پر کام کرنے والے مزدوروں کی اجرت فی کس 64 ڈالر (7 ہزار 900 روپے )روازنہ کی بنیاد پر طلب کررہی ہے ، اس سلسلے میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ منصوبے پر کام کرنیوالے 22 ہزار افراد میں ہر 1 چینی ورکر کے ساتھ 9 پاکستانی شامل ہوں گے ۔دنیا نیوز نے ریلوے کی دستاویزات سے منصوبے کی تفصیلات کا کھوج بھی لگا لیا ہے جس کے مطابق ریلوے حکام کا اندازہ ہے کہ فیز ون کے لئے کل لاگت 3 ارب 40 کروڑ ڈالر کا 85 فیصد یا 2 ارب 89 کروڑ ڈالر چین کے بینک پاکسان ریلوے کو قرض دیں گے جس پر شرح سود کا اندازہ 2 اعشاریہ 7 فیصد لگایا گیا ہے جس میں صفر اعشاریہ 4 فیصد کمٹمنٹ چارجز اور مینجمنٹ فیس کی مدات میں ہوں گے ۔دستاویز کے مطابق قرض کی رقم 20 سال میں قابل واپسی ہوگی جبکہ پہلے 8 برس بطور گریس پیریڈ تصور ہوں گے ۔پلاننگ کمیشن میں موجود وزارت ریلوے کی ایک دستاویز میں محکمے کے خسارے کے بارے میں چشم کشا حقیقت تسلیم کی گئی کہ 1971ء سے اب تک ریلوے کو مجموعی طور پر 626 ارب روپے کا خسارہ ہوا ہے ،اور اگر مین لائن ون کی اپ گریڈیشن کا منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچ جاتا ہے تو چینی قرضوں کی ادائیگی ،ریلوے کے آپریشنل اخراجات پورے کرنے کے علاوہ یہ مجموعی خسارہ سال 2045ء کو ختم ہوجائے گا دوسری طرف دنیا نیوز کی انویسٹی گیشن کے دوران مختلف ماہرین سے گفتگو کے دوران یہ خوفناک حقیقت بھی سامنے آئی کہ مین لائن۔ون کے دونوں مراحل کے لئے چین سے لئے گئے 7 ارب 89 کروڑ ڈالر کے قرض کی واپسی کے لئے منصوبہ مکمل ہونے کے نویں سال میں اصل زر کی مد میں 39 کروڑ 94 لاکھ ڈالر اور سود کی مد میں 21 کروڑ 30 لاکھ ڈالر سالانہ یا موجودہ شرح تبادلہ 124 روپے فی ڈالر ہی کے تحت 75 ارب 33 کروڑ روپے سود اور قرض کی واپسی کی مد میں دینا ہوں گے اور یہ سلسلہ تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ 20 سال تک چلتا رہے گا اور یہ وہ زمینی حقائق ہیں جن کی بنیاد پر پلاننگ کمیشن ریلوے سے منصوبے کا سکوپ مانگ رہا ہے ۔دنیا نیوز کی تحقیقات میں یہ تجویز بھی سامنے آئی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان چین کی حکومت سے مشاورت کے تحت ریلوے مین لائن منصوبے میں اہم تبدیلیوں کے لئے فریم ورک ایگریمنٹ پر نظر ثانی کی کوشش کریں اور چین سے قرض کو ٹریک کی تنصیب، پلاننگ،سگنلنگ سسٹم اور دیگر فنی حصوں تک محدود کردیا جائے اور منصوبے میں شامل عمارتوں کی تعمیر،روڈز، اور دیگر سول ورکس کو پاک فوج کے ذیلی تعمیراتی ادارے فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) اور ریلوے کے شعبہء سول انجینئرنگ کی مدد سے مکمل کیا جائے ۔