نوازشریف کی فکر مندی کیوں بڑھ رہی ہے?
قائد (ن) لیگ، سابق وزیراعظم نوازشریف کی نیب میں پیشی کے موقع پر کمرہ عدالت میں ایک مضمون زیربحث رہا، نوازشریف نے (ن) لیگ کی سیاست اور مستقبل میں حکمت عملی بارے آرٹیکل نہ صرف خود پڑھا
(طارق عزیز) بلکہ وہاں پر موجود دیگر رہنمائوں کو بھی پڑھنے کی تلقین کی ۔اس طرح مسلم لیگ (ن) کے مستقبل کے بارے میں بالخصوص پی پی سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کیساتھ تعلقات کے حوالے سے کمرہ عدالت میں ایک فکری نشست دیکھنے میں آئی،نوازشریف کے خلاف مقدمات حتمی فیصلے کی طرف بڑھ رہے ہیں سابق وزیراعظم اور ان کے قریبی ساتھیوں کو ‘‘اچھی خبر’’ کے امکانات کم دکھائی دے رہے ہیں،اس تناظر میں (ن) لیگ کا مستقبل کیا ہو گا،ایک سوالیہ نشان ہے جس کی طرف آرٹیکل میں اشارہ کیا گیا ہے نوازشریف،پارٹی صدر شہبازشریف کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری اور ان کیخلاف مقدمات بارے کافی فکرمند ہیں کیونکہ مستقبل قریب میں جب مشکلات میں اضافے کا امکان ہے ،سیاسی حکمت عملی کیا ہوگی پارٹی امور کس طرح چلائے جائیں گے ،اپنی جگہ یہ سوال موجود ہے اگرچہ نوازشریف اپنے طور پر منصوبہ بندی کرچکے ہیں جس کے تحت انہوں نے پارٹی کی تنظیم کیلئے ڈیڈلائن دے رکھی ہے اس سلسلہ میں وہ صوبائی تنظیموں کے اہم عہدیداروں کیساتھ جلد بیٹھک کریں گے لیکن یہ سب کچھ سپریم کورٹ کی طرف سے 17نومبر کی ڈیڈلائن سے منسلک ہے کیونکہ نیب عدالت کو ٹھیک 30دن بعد نوازشریف کیخلاف مقدمات کا حتمی فیصلہ دینا ہے ۔پارٹی صدر شہبازشریف کیخلاف نیب مقدمات زیرسماعت ہیں ان کے بارے میں پارٹی کے اندر تشویش کا عنصر بڑھتا جا رہا ہے ،اس بنیاد پر سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو ڈپٹی اپوزیشن لیڈر بنانے کی بات زیرغور ہے ، نوازشریف اپنے خلاف مقدمات بارے وکلا سے روزانہ کی بنیاد پر اپ ڈیٹ لیتے ہیں۔ عدالت کے اختتام پر خواجہ حارث، بیرسٹر ظفراللہ، سعدیہ عباسی سمیت دیگر وکلا سے قانونی معاملات پر ایک مختصر سی مشاورت بھی معمول بن چکی ہے ،اس موقع پر نوازشریف وکلا کی آرا لیتے ہیں اور اپنا نکتہ نظر بھی ان کے سامنے رکھتے ہیں۔ نوازشریف کی پیشی کے موقع پر نیب عدالت میں لیگی رہنمائوں، ارکان پارلیمنٹ کی دو الگ الگ نشستیں ہوتی ہیں،ایک کمرہ عدالت میں جبکہ دوسری ملحقہ کمرہ میں،جہاں پر لیگی رہنما نوازشریف کو شکل دکھانے کے بعد پارٹی سیاست پر ایک دوسرے سے ‘‘کتھارسس’’ کرتے ہیں، بیگم کلثوم کی وفات پر نوازشریف کیساتھ اظہار تعزیت اور افسوس کا سلسلہ جاری ہے ۔گزشتہ روز انہوں نے بیرون ممالک سے آنے والے تعزیتی خطوط کا جواب دینے کی ذمہ داری آصف کرمانی کو سونپتے ہوئے بعض شخصیات سے عدالتی وقت کے بعد فون پر بات کرانے کی بھی ہدایت کی ۔