بھارت سے پانی نہیں سیلاب آتا ہے

بھارت سے پانی نہیں سیلاب آتا ہے

پلوامہ حملے نے بھارت میں بد حواسیوں کی کیفیت کو جنم دیا ہے ۔اس کا نشانہ پاکستان بنا ہے ۔

(دنیا کامران خان کے ساتھ ) پاکستان کو کبھی ایک انداز کی دھمکی دی گئی کبھی مخبوط الحواسی میں پاکستان سے کہا گیا کہ اس کا پانی روک دیا جائے گایہ تازہ ترین دھمکی کل بھارت کے آبی امور کے وزیر نے دی ہے اور کہا بھارت پاکستان کے حصے کا پانی بند کردے گااور اسے دریائے جمنا میں گرا دیں گے ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بھارت کی خام خیالی ہے اور بھارت کی یہ احمقانہ دھمکی ہے اس حوالے سے کمشنر انڈس واٹر کمشنر سید مہر علی شاہ نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جہاں تک ٹیکنیکل بات ہے ، 1960 میں انڈس واٹر معاہدہ کے تحت تین مشرقی دریائوں راوی،ستلج اور بیاس کا پانی بھارت کے استعمال کے لئے دے دیا گیا یہ اوسطاً 32ملین ایکڑ فٹ سالانہ تھا،یہ ایک بارگین تھی،اس میں 12ملین ایکڑ فٹ اس وقت پاکستان کے زیر استعمال تھا۔پاکستان نے اپنے حصے کا پانی سرنڈر کیا تھااس کے بدلے میں انڈس بیسن ری پلیسمنٹ ورک بنائے گئے جس کے تحت منگلا اور تربیلا ڈیم بنائے گئے تھے علاوہ ازیں 9لنک کینال بنائی گئیں ،یہ رابطہ نہریں مغربی دریائوں کے پانی کو منتقل کرتی ہیں اس کے ساتھ پانچ بیراج بنائے گئے چونکہ معاہدے کے تحت پانی بھارت کو دے دیا گیا ہے اس لئے یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے ۔ اس کو اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی ہمسایہ ملک ہمارے مغربی دریائوں کے بارے میں بات کرے تو اس کی مداخلت نا قابل قبول ہو گی،اسی طرح ہم پڑوسی ملک کے معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کرنا چاہتے ۔ 1974 سے پاکستان کا مشرقی دریائوں پر انحصار نہیں ہے ۔ تربیلا ڈیم کی تکمیل کے بعد ہم مشرقی دریائوں کے کمان ایریا کو مغربی دریائوں سے فیڈ کر رہے ہیں یہ بھارت کی الیکشن مہم ہو سکتی ہے ۔ بھارت 99فیصد پانی کا رخ موڑ چکا ہے اور ہمارے پاس بھارت سے بڑی قلیل مقدار میں پانی آتا ہے اور وہ بھی سیلاب کے دنوں میں آتا ہے پنجاب ایری گیشن ڈیٹا کے مطابق 2018 میں دریائے راوی میں ایک ملین ایکڑ فٹ پانی آیا تھا۔ہمارے مغربی دریائوں کا اوسطاً سالانہ پانی 137ملین ایکڑ فٹ ہے ایک ملین ایکڑ فٹ کا 80فیصد پانی سیلاب کے مہینوں میں آیا تھا،انہوں نے بتایا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ آبی وسائل کا اچھے طریقے سے انتظام کیا جائے ۔بلوچستان میں حب ڈیم ، میرانی ڈیم اور دیگر چھوٹے ڈیم بھر چکے ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ خشک سالی کے دنوں کیلئے ہمارے پاس پانی ذخیرہ کرنے کا انفراسٹرکچر ہو۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں