آج کا پاکستان بھرپور فوجی اور فضائی قوت کا مالک
پاکستان بہتر وقت پر بہتر انداز میں سفارتی آپشن استعمال کر رہا بھارت تنہا ہے تعاون کے جواب میں بھارت نے جارحیت کا آپشن استعمال کر کے حماقت کیوں کی؟
(تجزیہ:سلمان غنی) پاکستانی فضاؤں کی خلاف ورزی کے مرتکب بھارتی طیاروں کو گرائے جانے کی صلاحیتوں کے اظہار کے بعد پاکستانی وزیراعظم کی طرف سے دوبارہ بھارت کو مذاکرات کی دعوت دینا یہ ظاہر کر رہا ہے کہ پاکستان جنگ کو مسائل کے حل کا ذریعہ نہیں بلکہ بذات خود ایک مسئلہ سمجھتا ہے ، اور مسائل و تنازعات کا بہترین حل مذاکرات ہی کو سمجھتا ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ بھارت مذاکرات کے آپشن کو اختیار کرنے پر کیوں تیار نہیں؟ کیا نریندر مودی اس وقت اپنا الیکشن جیتنے کیلئے پورے خطے کے امن کو ہرانے کی حماقت کر رہا ہے ؟ خطے میں بھارتی جارحیت پر عالمی ، جوہری قوتیں کیوں خاموش ہیں؟ آخر کیوں بھارتی سماج جنگ کو انسانی المیہ سمجھنے پر تیار نہیں؟ مقبوضہ کشمیر میں پلوامہ بم دھماکے کے بعد پاک بھارت کشیدگی کو ختم کرنے کیلئے پاکستان نے مذاکرات کی دعوت اور قابل عمل معلومات پر ایکشن کی بات کی تھی مگر جواب میں رات کی تاریکی میں جو کھیل ہندوستان نے کھیلنا چاہا اس کا نتیجہ بالآخر ہندوستانی فضائیہ کے دو لڑاکا طیاروں کی تباہی اور ایک پائلٹ کی گرفتاری کی صورت میں نکلا۔ پاکستانی وزیراعظم نے قوم سے اس کامیابی اور صلاحیتوں کے بھرپور اظہار کے بعد خطاب کیا اور جنگ کو ایک انسانی المیہ سے بھرپور بیکار اور تباہ کن مشق قرار دیا اور دوبارہ پلوامہ اٹیک اور اس کے بعد کی صورتحال پر مذاکرات کی دعوت دے ڈالی اور اقوام عالم میں پاکستانی قد اور وقار کو مزید بڑھاوا دیدیا۔ پاکستان میں فیصلہ ساز حلقے اور خصوصاً اعلیٰ سول ملٹری قیادتیں اس رد عمل پر خود حیران ہیں کہ مذاکرات اور تعاون کے جواب میں بھارت نے جارحیت کا آپشن استعمال کر کے حماقت کیوں کی؟ اس حماقت اور کھلے پاگل پن کی وجہ ہندوستانی الیکشن ہے جہاں مودی کے سر پر طاقت اور جیت کا بھوت سوار ہے اور یہ کارروائی بھی اسی ذہنیت کا شاخسانہ تھا۔ بھارت میں حکومت اور پاکستان مخالف حلقے یہ حقیقت بھول بیٹھے ہیں کہ پاکستانی کوئی ہندوستانی مسلم معاشرہ نہیں کہ جب دل چاہا مسلمانوں کے گلی محلوں پر چڑھ دوڑے ۔ آج کا پاکستان بھرپور فوجی اور فضائی قوت کا مالک ہے جس کے پاس بے مثال میزائل ، ٹیکنالوجی اور جوہری قوت کا سدِ جارحیت موجود ہے ۔ وزیراعظم نے بھارتیوں سے ٹھیک سوال کیا ہے کہ اب اس سے آگے کہاں جانا ہے ؟ اس سے آگے تو انسانی المیہ ہے جسے جنگ کہا جاتا ہے ۔ دنیا اپنی تاریخ میں اس سے بے شمار دفعہ گزر چکی ہے ۔ پہلی جنگ عظیم، دوسری جنگ عظیم، امریکی فوج ہم جوئیاں سب واقعات ہمیں جنگی تباہ کاریاں یاد دلا رہی ہیں اور آخر میں سجتی پھر بھی مذاکرات کی میز ہے ۔ بلا شبہ بڑی جنگیں عظیم مغالطوں کی وجہ سے شروع ہوئی ہیں۔ پاکستان کی جانب سے عقل اور حکمت کا دروازہ کھٹکھٹایا جا رہا ہے اور ہندوستان نے اس دستک کا جواب دینا ہے ۔ اس ساری صورتحال میں شرمناک چیزعالمی بے حسی ہے ، دو جوہری قوتیں باہم دست و گریبان ہیں اور پانچ بڑی نیوکلیئر قوتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ پانچ بڑی جوہری قوتیں اور ان کا فورم سلامتی کونسل اس مسئلہ کو سنجیدہ لے اور جنگ سے پہلے دونوں فریقین کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے میدان عمل میں آئے ۔ خدانخواستہ اگر دیر ہو گئی تو پھر جنگ کا اندھیرا چھا سکتا ہے ۔پاکستان بہتر وقت پر بہتر انداز میں سفارتی آپشن استعمال کر رہا ہے ۔ بھارت دنیا کی نام نہاد واحد جمہوریہ ہے جس میں جنگی جنون طاری ہے اور طاقت کے ذریعے مسائل کا یکطرفہ حل چاہتا ہے ۔ یہ بھارتی طرز عمل ہے جس کی وجہ سے اس کے عالمی اتحادی بھی جھوٹے موقف کو پذیرائی دینے کو تیار نہیں، یہ امر و عمل خود بھارتی میڈیا، دانشوروں کیلئے لمحہ فکریہ ہے ۔