بھارتی فوج کو شکست: وجہ کیا ہے؟
فضائی معرکے میں پاکستان سے شکست کے بعد بھارت کا یہ دعویٰ مشکوک ہوگیا کہ اس کی مسلح افواج آزمودہ کار اور بہترین جنگی صلاحیتوں کی مالک ہیں،
پاکستان کی فضائی حدود میں گھسنے والے بھارتی طیارے پر پاکستانی فضائیہ کے جہاز کا حملہ اور اس لڑائی میں بھارتی طیارے کی تباہی اور اس کے پائلٹ کی گرفتاری یقیناً بھارت کیلئے ہزیمت کا باعث ہے ، بالخصوص اس لیے بھی کہ اپنی مسلح افواج کی قوت کے بارے میں د عوے بھارت کا معمول ہے ، یہی نہیں بلکہ یہ وہی فوج ہے جس کے بارے میں امریکہ کو امید ہے کہ وہ تیزی سے وسعت پاتے ہوئے چین کی راہ میں رکاوٹ بنے گی، اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے امریکہ بھارت کی فوج پر انحصار کئے بیٹھا ہے ۔ گزشتہ ہفتے جب ایک بھارتی پائلٹ اپنے جنگی طیارے پر سوار ہوکر پاکستان کی فضائی حدود میں داخل ہوا تو پاکستانی ایئر فورس کے ایک جہاز نے اس کا راستہ روکا اور دونوں کے مابین فضا میں لڑائی (DOGFIGHT) شروع ہوگئی، پاکستانی پائلٹ نے بھارتی طیارے کو کامیابی سے نشانہ بنایا، بھارتی جہاز زمین بوس ہونے لگا تو اس کے پائلٹ کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں تھا کہ وہ جہاز کو چھو ڑ دے اور پیراشوٹ کے ذریعے چھلانگ لگاکر اپنی جان بچالے ،بھارتی پائلٹ کو زمین پر اترتے ہی پاکستانی فوجیوں نے گرفتار کرلیا، بھارتی پائلٹ خوش قسمت تھا کہ اسے کوئی گزند نہیں پہنچا لیکن اس کا مگ 21 طیارہ اس کی طرح خوش نصیب نہیں تھا کیونکہ وہ زمین پر گرکر تباہ ہوگیا۔ گزشتہ تقریباً 50 برس کے دوران یہ پاکستان اور بھارت کے مابین پہلا فضائی معرکہ تھا، یہ بھارتی فوج کیلئے آزمائش کا ایک مرحلہ تھا ، اس کا نتیجہ ایسا نکلا کہ نہ صرف بھارتی بلکہ غیر جانبدار فوجی مبصرین بھی انگشت بدنداں رہ گئے ، بھارتی مسلح افواج کو جن چیلنجز کا سامنا ہے وہ کوئی راز نہیں، لیکن اس واقعہ کا یہ پہلو بہت اہم ہے کہ گزشتہ ہفتے بھارت کو یہ داغ پاکستانی فوج کے ہاتھوں لگا جس کی تعداد بھارتی افواج سے تقریباً نصف ہے ، اپنی اس فوج پر پاکستان کے اخراجات بھارت کی جانب سے مسلح افواج پر کیے جانے والے خرچ کے تقریباً ایک چوتھائی کے برابر ہیں، اس واقعے سے یہ واضح ہوگیا کہ بھارتی مسلح افواج کی حالت کسی صورت بھی اطمینان بخش نہیں بلکہ بڑی حد تک باعث تشویش ہے ، ماہرین کے مطابق ان حالات میں اگر بڑی جنگ چھڑجائے تو بھارت کے حکومتی ذرائع کے مطابق بھارتی حکومت جنگ میں مصروف اپنی فوج کو زیادہ سے زیادہ 10روز تک اسلحہ اور گولہ بارود فراہم کرسکے گی، ان ذرائع کے مطابق بھارتی فوج کے پاس موجود 68 فیصد اسلحہ اور آلات بہت پرانے ہوچکے ہیں، بھارتی پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے رکن گوراؤ گوگی کا کہنا ہے کہ ہماری فوج کو فرسودہ اسلحے اور آلات کے ساتھ جدید دور کی جنگ لڑنا پڑرہی ہے ۔ دوسری جانب امریکہ کے وہ فوجی حکام نے جنہیں بھارت کے ساتھ فوجی تعاون کو مضبوط بنانے کا فرض سونپا گیا ہے ، بھارتی فوج کی صورتحال پر سخت پریشانی کا اظہار کرچکے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ بھارتی فوج تعداد میں بہت زیادہ سہی لیکن اس کے مالی وسائل بہت کم ہیں، علاوہ ازیں مسلح افواج کے درمیان اشتراک عمل اور ہم آہنگی کا بھی فقدان ہے ، کیونکہ بھارت کی بری، بحری اور فضائی افواج ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی کو بڑھانے کے بجائے ایک دوسرے کے ساتھ مقابلے بازی کرتی ہیں۔ بھارتی فوج کے ان تمام مسائل کے باوجود امریکہ یہ پختہ ارادہ کرچکا ہے کہ وہ آئندہ بھی اس خطے میں بھارت کو اپنا کلیدی اتحادی سمجھتا رہے گا ، امریکہ اب بھی اپنے اس فیصلے پر قائم ہے کہ وہ خطے میں چین کے تیزی سے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو روکنے اور بقول اس کے چین کے ‘‘ توسیع پسندانہ’’ عزائم کی روک تھام کیلئے آئندہ بھی بھارت پر انحصار کرتا رہے گا، یاد رہے کہ گزشتہ سال امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے اعلان کیا تھا کہ ان کا محکمہ دفاع اپنی پیسیفک کمانڈ کا نام تبدیل کرکے اسے ‘‘ انڈو پیسیفک’’ کردے گا، انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ تبدیل ہوتے ہوئے ورلڈ آرڈر میں بھارت بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔ یہاں اس بات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ گزشتہ 20 سال کے دوران امریکہ کی جانب سے بارہا یہ بات کی گئی کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کارکردگی اس کی توقعات کے مطابق نہیں، پاکستان کی جانب سے ہمیشہ اس الزام کی تردید کی گئی ، اس صورتحال کے باعث پاک امریکہ تعلقات متاثر ہوئے ، دوسری جانب بھارت کے ساتھ امریکہ کے تعلقات تیزی سے وسعت پاتے رہے ، اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ صرف 10 برس کے دوران امریکہ کی جانب سے بھارت کو اسلحہ کی فروخت ،جو نہ ہونے کے برابر تھی ،بڑھ کر 15 ارب ڈالر تک آگئی، دوسری جانب پاکستان اب بھی امریکہ سے بڑی تعداد میں جنگی ساز و سامان حاصل کرسکتا ہے ۔ دوسری جانب یہ حقیقت بھی توجہ طلب ہے کہ اپنی فوج کو در پیش مسائل کے باوجود بھارت اپنی سٹریٹجک پوزیشن ، رقبے اور آبادی کی بنا پر امریکہ کیلئے بہت اہمیت رکھتا ہے ، بہت جلد بھارت دنیا بھر میں سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائے گا، ممکنہ طور پر اس کی آبادی 2024 تک چین سے بھی زیادہ ہوجائے گی، چین کے مغربی اور جنوبی حصے میں بھارت چین سرحد بہت طویل ہے ، یہی نہیں بلکہ علاقے کے سمندری پانی کے بڑے حصے پر بھی بھارت کا کنٹرول ہے ، یہ سمندر کے وہ علاقے ہیں جو بحری تجارت کیلئے چین کی ضرورت ہیں، امریکا کی ہیری ٹیج فاؤنڈیشن کے ریسرچ فیلو جیف سمتھ نے کہا کہ امریکہ کیلئے اس صورتحال میں ضروری ہے کہ وہ خطے میں اپنے دیرپا مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکمت عملی وضع کرے ،بھارت کا محل وقوع اور اس کی آبادی، مستقبل میں بڑھتی ہوئی فوجی صلاحیت وہ عوامل ہیں جن کی بنا پر امریکہ مستقبل کے حوالے سے بھارت کو نظر انداز نہیں کرسکتا، جیف سمتھ اس موضوع پر ایک کتاب کے مصنف ہیں ، اس کتاب کا عنوان ‘‘ سرد امن۔۔۔۔ 21 ویں صدی میں چین اور بھارت کے مابین مخاصمت’’ ہے ، انہوں نے کہا کہ وقت کے ساتھ چین ابھرتا جارہا ہے ، چین کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے کیلئے امریکہ کو خطے میں ایک ایسے ملک کی ضرورت ہے جس کی مدد سے علاقے میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھا جاسکے ، انہوں نے کہا کہ ایسا ملک بھارت کے سوا کوئی اور نہیں ہوسکتا، امریکہ اس بات کو پوری طرح سمجھتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ بعض شواہد کے مطابق امریکہ بھارتی فوج کی ناقابل اطمینان صورتحال کے باوجود یہ فیصلہ کرچکا ہے کہ اس پر صبر و تحمل کا مظاہرہ جاری رکھا جائے ، کیونکہ بھارتی فوج کی مالی ضروریات کو پورا کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے ۔ 2018 میں بھارت نے 45 ارب ڈالر کے فوجی بجٹ کا اعلان کیا، اس سال چین کا فوجی بجٹ 175 ارب ڈالر تھا، اہم بات یہ ہے کہ گزشتہ ماہ ہی بھارت نے ایک بار پھر اتنی ہی مالیت کے یعنی 45 ارب ڈالر کے فوجی بجٹ کا اعلان کردیا ہے ، بات محض یہ نہیں ہے کہ بھارت کتنا سرمایہ فوج پر خرچ کرتا ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ فوجی بجٹ کو کس طرح خرچ یا استعمال کیا جاتا ہے ، اس رقم کا بڑا حصہ 1.2 ملین ڈالر حاضر سروس فوجیوں کی تنخواہوں اور ریٹائرڈ فوجیوں کی پنشن پر صرف کیا جاتا ہے ، بہر صورت بتانا یہ ہے کہ اتنے بڑے فوجی بجٹ میں سے صرف 14 ارب ڈالر نئے ساز وسامان ( ہارڈ ویئر) کی خریداری پر خرچ کیے جائیں گے ، بھارت کے رکن پارلیمنٹ اور دفاعی مبصر گوگی نے اس صورتحال پر عدم اطمینان ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ دور میں جب ہر ملک اپنی انٹیلی جنس اور فوج کی تکنیکی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کیلئے کثیر سرمایہ کاری کررہا ہے ، بھارت کو بھی ایسا ہی کرنا چاہئے ، انہوں نے کہا کہ چین میں تو (بقول ان کے ) مطلق العنان حکومت قائم ہے جو فیصلے کرنے میں آزاد ہے لیکن اس کے برعکس بھارت ایک جمہوری ملک ہے ، اس کیلئے یہ اتنا آسان نہیں ہوگا کہ فوجیوں کی تعداد میں بڑے پیمانے پر کمی محض اس مقصد سے کردے کہ جدید اسلحے اور آلات کی خریداری کیلئے رقم فراہم کی جاسکے ، بھارت کی فوج عوام کیلئے روزگار کی فراہمی کا ایک بڑا ذریعہ ہے ، ملک میں پہلے ہی غربت بہت زیادہ ہے اور ممکنہ طور پر آئندہ الیکشن میں بے روزگاری کا مسئلہ مودی حکومت کیلئے ایک بڑا چیلنج بن کر سامنے آئے گا، یاد رہے کہ وزیر اعظم مودی جب 2014 میں برسر اقتدار آئے تھے تو انہوں نے عوام سے عہد کیا تھا کہ وہ ملکی معیشت کو بہتر خطوط پر اس طرح منظم کریں گے کہ ہر ماہ 10 لاکھ بے روزگار شہریوں کو روزگار مل سکے ، لیکن مودی نے اپنے اکثر وعدے بالائے طاق رکھ دیئے اور ان کی توجہ صرف ان وعدوں پر ہے جن کی تکمیل سے انہیں خاطر خواہ سیاسی حمایت اور مقبولیت مل سکتی ہو۔ بھارتی وزارت دفاع کے ایک سابق مالیاتی مشیر امیت کاؤشش نے کہا کہ مودی حکومت کی ساری توجہ فوجی طاقت میں اضافے کے بجائے ملک کی اقتصادی ترقی پر مرکوز ہے ، انہوں نے کہا کہ چین نے بھی ایسا ہی کیا تھا، انہوں نے پہلے اپنی معیشت اور اس کے بعد فوجی طاقت کے حصول پر توجہ دی، انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک میں فرق یہ ہے کہ چین نے اقتصادی ترقی کا عمل تقریباً 30 سال قبل شروع کیا تھا، نئی دہلی میں موجود مرکزی حکومت کی بیوروکریسی کا کہنا ہے کہ حکومت غریبوں میں شرح خواندگی کو بڑھانے ،نکاسی آب کی سہولتوں کی فراہمی سمیت عوام کو بنیادی نوعیت کی سہولتیں فراہم کرنے کیلئے بھرپور کوششیں کررہی ہے ، انہوں نے کہا کہ ان حالات میں فوجی طاقت میں مزید اضافے کیلئے مزید بڑی سرمایہ کاری مشکل ہوگی،حالانکہ چین کی جانب سے توسیع پسندی کا مظاہرہ تشویشناک ہے ۔ بھارتی ماہر نے کہا کہ چین نے اقتصادی نظام کی جو اصلاح کی اس کی وجہ سے ملک میں ایک مضبوط متوسط طبقہ پیدا ہوچکا ہے جو ٹیکس بھی ادا کرتا ہے ، اپنے ان ہی اقدامات کی بنا پر چین نہ صرف بیرون ملک سے جدید ترین اسلحہ خرید رہاہے بلکہ وہ اندرون ملک بڑے پیمانے پر ایسے اسلحے کی پروڈکشن بھی کررہا ہے ، انہوں نے کہا کہ ماضی میں فوجیوں کی تعداد بہت اہم کردار ادا سکتی تھی لیکن اب ایسا نہیں ہے ، اب اولین اہمیت جدید ترین اسلحے کو حاصل ہوگئی ہے ، لیکن بھارت جنگ کے حوالے سے اس تبدیلی کے ساتھ نہیں چل سکا اور پیچھے رہ گیا، بھارت دنیا بھر میں فوج پر سب سے زیادہ خرچ کرنے والے ممالک میں اس وقت پانچویں نمبر پر ہے ، اس کے باوجود رواں سال اس کے فوجی بجٹ کا صرف ایک چوتھائی حصہ نئے اسلحے اور جنگی آلات کی خریداری پر خرچ ہوگا، اسلحے کی خریداری کا یہ عمل بھارت میں بہت سست رفتاری سے ہوتا ہے ، یہ بات بھی اکثر کہی جاتی ہے کہ دفاعی سامان کی خریداری میں کرپشن بہت ہوتی ہے ، آج کل اپوزیشن کی جانب سے وزیر اعظم مودی پر رافیل طیاروں کی خریداری میں بڑے پیمانے پر کرپشن کا الزام عائد کیا جارہا ہے ، حکومت کا مؤقف یہ ہے کہ رافیل جدید ترین جنگی طیارے ہیں جو اس وقت موجود مگ 21 اور دیگر پرانے طیاروں کی جگہ لیں گے ، مودی نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر بھارتی فضائیہ کے پاس رافیل جنگی طیارے ہوتے تو پاکستان کے ساتھ کشیدگی کے دوران بھارتی فضائیہ کی کارکردگی ‘‘ بہت مختلف’’ ہوتی، انہوں نے کہا کہ رافیل طیارے نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں تکلیف ہوئی ہے ۔ (نیویارک ٹائمز ) فضائی معرکے میں پاکستان سے شکست کے بعد بھارت کا یہ دعویٰ مشکوک ہوگیا کہ اس کی مسلح افواج آزمودہ کار اور بہترین جنگی صلاحیتوں کی مالک ہیں، پاکستان کی فضائی حدود میں گھسنے والے بھارتی طیارے پر پاکستانی فضائیہ کے جہاز کا حملہ اور اس لڑائی میں بھارتی طیارے کی تباہی اور اس کے پائلٹ کی گرفتاری یقیناً بھارت کیلئے ہزیمت کا باعث ہے ، بالخصوص اس لیے بھی کہ اپنی مسلح افواج کی قوت کے بارے میں د عوے بھارت کا معمول ہے ، یہی نہیں بلکہ یہ وہی فوج ہے جس کے بارے میں امریکہ کو امید ہے کہ وہ تیزی سے وسعت پاتے ہوئے چین کی راہ میں رکاوٹ بنے گی، اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے امریکہ بھارت کی فوج پر انحصار کئے بیٹھا ہے ۔ گزشتہ ہفتے جب ایک بھارتی پائلٹ اپنے جنگی طیارے پر سوار ہوکر پاکستان کی فضائی حدود میں داخل ہوا تو پاکستانی ایئر فورس کے ایک جہاز نے اس کا راستہ روکا اور دونوں کے مابین فضا میں لڑائی (DOGFIGHT) شروع ہوگئی، پاکستانی پائلٹ نے بھارتی طیارے کو کامیابی سے نشانہ بنایا، بھارتی جہاز زمین بوس ہونے لگا تو اس کے پائلٹ کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں تھا کہ وہ جہاز کو چھو ڑ دے اور پیراشوٹ کے ذریعے چھلانگ لگاکر اپنی جان بچالے ،بھارتی پائلٹ کو زمین پر اترتے ہی پاکستانی فوجیوں نے گرفتار کرلیا، بھارتی پائلٹ خوش قسمت تھا کہ اسے کوئی گزند نہیں پہنچا لیکن اس کا مگ 21 طیارہ اس کی طرح خوش نصیب نہیں تھا کیونکہ وہ زمین پر گرکر تباہ ہوگیا۔ گزشتہ تقریباً 50 برس کے دوران یہ پاکستان اور بھارت کے مابین پہلا فضائی معرکہ تھا، یہ بھارتی فوج کیلئے آزمائش کا ایک مرحلہ تھا ، اس کا نتیجہ ایسا نکلا کہ نہ صرف بھارتی بلکہ غیر جانبدار فوجی مبصرین بھی انگشت بدنداں رہ گئے ، بھارتی مسلح افواج کو جن چیلنجز کا سامنا ہے وہ کوئی راز نہیں، لیکن اس واقعہ کا یہ پہلو بہت اہم ہے کہ گزشتہ ہفتے بھارت کو یہ داغ پاکستانی فوج کے ہاتھوں لگا جس کی تعداد بھارتی افواج سے تقریباً نصف ہے ، اپنی اس فوج پر پاکستان کے اخراجات بھارت کی جانب سے مسلح افواج پر کیے جانے والے خرچ کے تقریباً ایک چوتھائی کے برابر ہیں، اس واقعے سے یہ واضح ہوگیا کہ بھارتی مسلح افواج کی حالت کسی صورت بھی اطمینان بخش نہیں بلکہ بڑی حد تک باعث تشویش ہے ، ماہرین کے مطابق ان حالات میں اگر بڑی جنگ چھڑجائے تو بھارت کے حکومتی ذرائع کے مطابق بھارتی حکومت جنگ میں مصروف اپنی فوج کو زیادہ سے زیادہ 10روز تک اسلحہ اور گولہ بارود فراہم کرسکے گی، ان ذرائع کے مطابق بھارتی فوج کے پاس موجود 68 فیصد اسلحہ اور آلات بہت پرانے ہوچکے ہیں، بھارتی پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے رکن گوراؤ گوگی کا کہنا ہے کہ ہماری فوج کو فرسودہ اسلحے اور آلات کے ساتھ جدید دور کی جنگ لڑنا پڑرہی ہے ۔ دوسری جانب امریکہ کے وہ فوجی حکام نے جنہیں بھارت کے ساتھ فوجی تعاون کو مضبوط بنانے کا فرض سونپا گیا ہے ، بھارتی فوج کی صورتحال پر سخت پریشانی کا اظہار کرچکے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ بھارتی فوج تعداد میں بہت زیادہ سہی لیکن اس کے مالی وسائل بہت کم ہیں، علاوہ ازیں مسلح افواج کے درمیان اشتراک عمل اور ہم آہنگی کا بھی فقدان ہے ، کیونکہ بھارت کی بری، بحری اور فضائی افواج ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی کو بڑھانے کے بجائے ایک دوسرے کے ساتھ مقابلے بازی کرتی ہیں۔ بھارتی فوج کے ان تمام مسائل کے باوجود امریکہ یہ پختہ ارادہ کرچکا ہے کہ وہ آئندہ بھی اس خطے میں بھارت کو اپنا کلیدی اتحادی سمجھتا رہے گا ، امریکہ اب بھی اپنے اس فیصلے پر قائم ہے کہ وہ خطے میں چین کے تیزی سے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو روکنے اور بقول اس کے چین کے ‘‘ توسیع پسندانہ’’ عزائم کی روک تھام کیلئے آئندہ بھی بھارت پر انحصار کرتا رہے گا، یاد رہے کہ گزشتہ سال امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے اعلان کیا تھا کہ ان کا محکمہ دفاع اپنی پیسیفک کمانڈ کا نام تبدیل کرکے اسے ‘‘ انڈو پیسیفک’’ کردے گا، انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ تبدیل ہوتے ہوئے ورلڈ آرڈر میں بھارت بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔ یہاں اس بات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ گزشتہ 20 سال کے دوران امریکہ کی جانب سے بارہا یہ بات کی گئی کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کارکردگی اس کی توقعات کے مطابق نہیں، پاکستان کی جانب سے ہمیشہ اس الزام کی تردید کی گئی ، اس صورتحال کے باعث پاک امریکہ تعلقات متاثر ہوئے ، دوسری جانب بھارت کے ساتھ امریکہ کے تعلقات تیزی سے وسعت پاتے رہے ، اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ صرف 10 برس کے دوران امریکہ کی جانب سے بھارت کو اسلحہ کی فروخت ،جو نہ ہونے کے برابر تھی ،بڑھ کر 15 ارب ڈالر تک آگئی، دوسری جانب پاکستان اب بھی امریکہ سے بڑی تعداد میں جنگی ساز و سامان حاصل کرسکتا ہے ۔ دوسری جانب یہ حقیقت بھی توجہ طلب ہے کہ اپنی فوج کو در پیش مسائل کے باوجود بھارت اپنی سٹریٹجک پوزیشن ، رقبے اور آبادی کی بنا پر امریکہ کیلئے بہت اہمیت رکھتا ہے ، بہت جلد بھارت دنیا بھر میں سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائے گا، ممکنہ طور پر اس کی آبادی 2024 تک چین سے بھی زیادہ ہوجائے گی، چین کے مغربی اور جنوبی حصے میں بھارت چین سرحد بہت طویل ہے ، یہی نہیں بلکہ علاقے کے سمندری پانی کے بڑے حصے پر بھی بھارت کا کنٹرول ہے ، یہ سمندر کے وہ علاقے ہیں جو بحری تجارت کیلئے چین کی ضرورت ہیں، امریکا کی ہیری ٹیج فاؤنڈیشن کے ریسرچ فیلو جیف سمتھ نے کہا کہ امریکہ کیلئے اس صورتحال میں ضروری ہے کہ وہ خطے میں اپنے دیرپا مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکمت عملی وضع کرے ،بھارت کا محل وقوع اور اس کی آبادی، مستقبل میں بڑھتی ہوئی فوجی صلاحیت وہ عوامل ہیں جن کی بنا پر امریکہ مستقبل کے حوالے سے بھارت کو نظر انداز نہیں کرسکتا، جیف سمتھ اس موضوع پر ایک کتاب کے مصنف ہیں ، اس کتاب کا عنوان ‘‘ سرد امن۔۔۔۔ 21 ویں صدی میں چین اور بھارت کے مابین مخاصمت’’ ہے ، انہوں نے کہا کہ وقت کے ساتھ چین ابھرتا جارہا ہے ، چین کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے کیلئے امریکہ کو خطے میں ایک ایسے ملک کی ضرورت ہے جس کی مدد سے علاقے میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھا جاسکے ، انہوں نے کہا کہ ایسا ملک بھارت کے سوا کوئی اور نہیں ہوسکتا، امریکہ اس بات کو پوری طرح سمجھتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ بعض شواہد کے مطابق امریکہ بھارتی فوج کی ناقابل اطمینان صورتحال کے باوجود یہ فیصلہ کرچکا ہے کہ اس پر صبر و تحمل کا مظاہرہ جاری رکھا جائے ، کیونکہ بھارتی فوج کی مالی ضروریات کو پورا کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے ۔ 2018 میں بھارت نے 45 ارب ڈالر کے فوجی بجٹ کا اعلان کیا، اس سال چین کا فوجی بجٹ 175 ارب ڈالر تھا، اہم بات یہ ہے کہ گزشتہ ماہ ہی بھارت نے ایک بار پھر اتنی ہی مالیت کے یعنی 45 ارب ڈالر کے فوجی بجٹ کا اعلان کردیا ہے ، بات محض یہ نہیں ہے کہ بھارت کتنا سرمایہ فوج پر خرچ کرتا ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ فوجی بجٹ کو کس طرح خرچ یا استعمال کیا جاتا ہے ، اس رقم کا بڑا حصہ 1.2 ملین ڈالر حاضر سروس فوجیوں کی تنخواہوں اور ریٹائرڈ فوجیوں کی پنشن پر صرف کیا جاتا ہے ، بہر صورت بتانا یہ ہے کہ اتنے بڑے فوجی بجٹ میں سے صرف 14 ارب ڈالر نئے ساز وسامان ( ہارڈ ویئر) کی خریداری پر خرچ کیے جائیں گے ، بھارت کے رکن پارلیمنٹ اور دفاعی مبصر گوگی نے اس صورتحال پر عدم اطمینان ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ دور میں جب ہر ملک اپنی انٹیلی جنس اور فوج کی تکنیکی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کیلئے کثیر سرمایہ کاری کررہا ہے ، بھارت کو بھی ایسا ہی کرنا چاہئے ، انہوں نے کہا کہ چین میں تو (بقول ان کے ) مطلق العنان حکومت قائم ہے جو فیصلے کرنے میں آزاد ہے لیکن اس کے برعکس بھارت ایک جمہوری ملک ہے ، اس کیلئے یہ اتنا آسان نہیں ہوگا کہ فوجیوں کی تعداد میں بڑے پیمانے پر کمی محض اس مقصد سے کردے کہ جدید اسلحے اور آلات کی خریداری کیلئے رقم فراہم کی جاسکے ، بھارت کی فوج عوام کیلئے روزگار کی فراہمی کا ایک بڑا ذریعہ ہے ، ملک میں پہلے ہی غربت بہت زیادہ ہے اور ممکنہ طور پر آئندہ الیکشن میں بے روزگاری کا مسئلہ مودی حکومت کیلئے ایک بڑا چیلنج بن کر سامنے آئے گا، یاد رہے کہ وزیر اعظم مودی جب 2014 میں برسر اقتدار آئے تھے تو انہوں نے عوام سے عہد کیا تھا کہ وہ ملکی معیشت کو بہتر خطوط پر اس طرح منظم کریں گے کہ ہر ماہ 10 لاکھ بے روزگار شہریوں کو روزگار مل سکے ، لیکن مودی نے اپنے اکثر وعدے بالائے طاق رکھ دیئے اور ان کی توجہ صرف ان وعدوں پر ہے جن کی تکمیل سے انہیں خاطر خواہ سیاسی حمایت اور مقبولیت مل سکتی ہو۔ بھارتی وزارت دفاع کے ایک سابق مالیاتی مشیر امیت کاؤشش نے کہا کہ مودی حکومت کی ساری توجہ فوجی طاقت میں اضافے کے بجائے ملک کی اقتصادی ترقی پر مرکوز ہے ، انہوں نے کہا کہ چین نے بھی ایسا ہی کیا تھا، انہوں نے پہلے اپنی معیشت اور اس کے بعد فوجی طاقت کے حصول پر توجہ دی، انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک میں فرق یہ ہے کہ چین نے اقتصادی ترقی کا عمل تقریباً 30 سال قبل شروع کیا تھا، نئی دہلی میں موجود مرکزی حکومت کی بیوروکریسی کا کہنا ہے کہ حکومت غریبوں میں شرح خواندگی کو بڑھانے ،نکاسی آب کی سہولتوں کی فراہمی سمیت عوام کو بنیادی نوعیت کی سہولتیں فراہم کرنے کیلئے بھرپور کوششیں کررہی ہے ، انہوں نے کہا کہ ان حالات میں فوجی طاقت میں مزید اضافے کیلئے مزید بڑی سرمایہ کاری مشکل ہوگی،حالانکہ چین کی جانب سے توسیع پسندی کا مظاہرہ تشویشناک ہے ۔ بھارتی ماہر نے کہا کہ چین نے اقتصادی نظام کی جو اصلاح کی اس کی وجہ سے ملک میں ایک مضبوط متوسط طبقہ پیدا ہوچکا ہے جو ٹیکس بھی ادا کرتا ہے ، اپنے ان ہی اقدامات کی بنا پر چین نہ صرف بیرون ملک سے جدید ترین اسلحہ خرید رہاہے بلکہ وہ اندرون ملک بڑے پیمانے پر ایسے اسلحے کی پروڈکشن بھی کررہا ہے ، انہوں نے کہا کہ ماضی میں فوجیوں کی تعداد بہت اہم کردار ادا سکتی تھی لیکن اب ایسا نہیں ہے ، اب اولین اہمیت جدید ترین اسلحے کو حاصل ہوگئی ہے ، لیکن بھارت جنگ کے حوالے سے اس تبدیلی کے ساتھ نہیں چل سکا اور پیچھے رہ گیا، بھارت دنیا بھر میں فوج پر سب سے زیادہ خرچ کرنے والے ممالک میں اس وقت پانچویں نمبر پر ہے ، اس کے باوجود رواں سال اس کے فوجی بجٹ کا صرف ایک چوتھائی حصہ نئے اسلحے اور جنگی آلات کی خریداری پر خرچ ہوگا، اسلحے کی خریداری کا یہ عمل بھارت میں بہت سست رفتاری سے ہوتا ہے ، یہ بات بھی اکثر کہی جاتی ہے کہ دفاعی سامان کی خریداری میں کرپشن بہت ہوتی ہے ، آج کل اپوزیشن کی جانب سے وزیر اعظم مودی پر رافیل طیاروں کی خریداری میں بڑے پیمانے پر کرپشن کا الزام عائد کیا جارہا ہے ، حکومت کا مؤقف یہ ہے کہ رافیل جدید ترین جنگی طیارے ہیں جو اس وقت موجود مگ 21 اور دیگر پرانے طیاروں کی جگہ لیں گے ، مودی نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر بھارتی فضائیہ کے پاس رافیل جنگی طیارے ہوتے تو پاکستان کے ساتھ کشیدگی کے دوران بھارتی فضائیہ کی کارکردگی ‘‘ بہت مختلف’’ ہوتی، انہوں نے کہا کہ رافیل طیارے نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں تکلیف ہوئی ہے ۔