بلوچستان میں فرقہ وارانہ رجحانات کا فروغ دشمن کا ایجنڈا
افغانستان کے امن عمل میں پاکستان کا مؤثر کردار ہمسایہ ممالک کو ہضم نہیں ہورہا
تجزیہ: سلمان غنی کوئٹہ کی سبزی منڈی میں دھماکے کے نتیجہ میں ایف سی اہلکار سمیت تقریباً دو درجن سے زائد افراد کی ہلاکتوں اور چمن میں ہونے والے بم دھماکے نے ثابت کیا ہے کہ پاکستان کا دشمن پاکستان میں امن اور استحکام کو ٹارگٹ کرتے ہوئے اپنے مذموم ایجنڈے پر گامزن ہے اور کسی طور یہ نہیں چاہتا کہ پاکستان میں ترقی کا عمل آگے بڑھے ، دہشت گردی کے ان واقعات کے مقاصد کیا ہیں؟ٹائمنگ کی اہمیت کتنی ہے اور کون اس میں ملوث ہے ؟ کیا نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل ہو رہا ہے ؟ ۔ زمینی حقائق اور پاکستان میں امن و امان کی صورتحال کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو پاکستان میں دہشت گردی، انتہا پسندی میں بہت حد تک کمی آئی ہے اور سکیورٹی اداروں نے جرأٔت مندانہ کردار ادا کرتے ہوئے دہشت گردی کی جڑیں کاٹی ہیں، جہاں تک بلوچستان میں کوئٹہ کی سبزی منڈی میں خود کش دھماکے کا تعلق ہے تو یہ انہی واقعات کا تسلسل ہے جن میں دشمن کی جانب سے بلوچستان جیسے حساس صوبے کو ٹارگٹ کر کے اپنے مذموم ایجنڈا کو آگے بڑھایا جا رہا ہے ۔ بلوچستان پاکستان کے رقبہ کے حوالے سے سب سے بڑا صوبہ اور سی پیک اور گوادر کی بندرگاہ کے باعث اس کی بڑھتی ہوئی اہمیت دشمن کو ہضم نہیں ہو پا رہی۔ کلبھوشن نیٹ ورک بھی بلوچستان میں سرگرم تھا اور مودی سرکار بلوچستان میں امن پر اثر انداز ہونے میں سرگرم رہی ۔ طویل عرصہ کے بعد ہونے والا یہ دہشت گردی کا بڑا واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ دشمن اپنے ایجنڈے پر گامزن ہے اور اس نے ہزار گنجی کی سبزی منڈی کی اس جگہ کو ٹارگٹ کیا جہاں محنت کش اور عام لوگ موجود تھے یہ اس کا آسان ہدف تھا۔ اس کا مقصد عام لوگوں کو ٹارگٹ بنا کر خوف و ہراس پیدا کرنا ہے ۔ اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ بلوچستان جیسے حساس صوبہ میں فرقہ وارانہ رجحانات کا فروغ دشمن کا ایجنڈا ہے لیکن ایک بات جو اب تک خصوصی طور پر سامنے آئی ہے کہ دشمن کا پاکستان کے اندر فرقہ وارانہ رجحانات کو بڑھا کر انارکی کا منصوبہ کارگر نہیں ہوا اور عوام یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کے اندر فرقہ وارانہ تقسیم کرنے والے پاکستان کے دشمن ہیں۔ جہاں تک اس امر کا سوال ہے کہ اس میں ملوث کون ہے تو ماضی میں بلوچستان اور کوئٹہ کے اندر ہونے والے واقعات میں ایسے مصدقہ شواہد ہمارے اداروں کے پاس ہیں کہ اس میں بھارتی خفیہ ایجنسی ‘‘را’’ اور افغان انٹیلی جنس ایجنسی’ این ڈی ایس‘ مشترکہ کارروائیاں کر رہی ہیں اور آج کی صورتحال میں جب افغانستان میں امن عمل کے حوالے سے پاکستان کا ایک مثبت کردار سامنے آیا ہے تو ہمسایہ ممالک کو پاکستان کا یہ مؤثر کردار ہضم نہیں ہورہا۔ ٹائمنگ کی اہمیت اس لئے زیادہ ہے کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف کی شرائط پر عمل پیرا ہے اور دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ پاکستانی حکومت اور ریاستی اداروں نے دہشت گردی کے سدباب اور اس میں ہونے والی فنانسنگ کا قلع قمع کیا ہے ۔ اس صورتحال میں بھارت کبھی یہ نہیں چاہے گا کہ پاکستان کے اندر امن و استحکام پر عالمی برادری اور طاقتیں مطمئن ہوں۔ لہٰذا کوئٹہ کے واقعہ سے ظاہر ہو رہا ہے کہ دشمن پوری طرح سے ملوث ہے ۔ آج دنیا کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے اس گھناؤنے عمل میں بھارت اور افغانستان کا گٹھ جوڑ سرگرم ہے ۔ جہاں تک نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کا تعلق ہے تو دہشت گردی کیخلاف جس سپرٹ کا مظاہرہ ہونا چاہئے تھا وہ نہیں ہو سکا۔ سول اور ملٹری انٹیلی جنس نیٹ ورک میں کوآرڈی نیشن ممکن نہیں بن سکی ۔ البتہ پلوامہ کے واقعہ کے بعد کی صورتحال اور خصوصاً ایف اے ٹی ایف کی شرائط کے بعد ایک نئے جذبہ اور ولولہ سے یہ سلسلہ مؤثر انداز سے شروع ہے ۔ جو پاکستان کے اندر امن و استحکام کا باعث بنا ہے اور دشمن کو یہ عمل ہضم نہیں ہو پایا۔ وہ نہیں چاہتا کہ پاکستان کے اندر سے انتہا پسندی ختم ہو۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے اندر سے دہشت گردی کی جڑیں کٹنے کے بعد اب سرحد پار سے یہ سلسلہ جاری ہے اور اس کا سدِباب صرف سکیورٹی اداروں کی ذمہ داری نہیں بلکہ اصل ذمہ داری صوبوں کی ہے کہ وہ نیشنل ایکشن پلان پر اس کی سپرٹ کے مطابق عمل پیرا ہوں ۔ہم دہشت گردی کا ناسور ختم کرنے میں کامیاب ہو گئے تو پاکستان کو علاقائی صورتحال میں قائدانہ کردار سے نہیں روکا جا سکے گا۔