پیپلز پارٹی صدارتی نظام کو ٹارگٹ کیوں کر رہی ہے ؟
جوں جوں حالات مشکل بن رہے ہیں، توں توں حکومت بھی کنفیوژن کا شکار
تجزیہ: سلمان غنی ملک میں اب صدارتی نظام کی بھی بحث شروع ہو چکی ہے اسے فی الحال سنجیدہ مطالبہ کے طور پر نہیں لیا جا رہا۔ البتہ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے 18 ویں ترمیم کے حوالے سے تحفظات کے اظہار کے بعد سیاسی محاذ پر پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام کی بحث کا آغاز ہوا ہے اور خصوصاً پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ نے موجودہ صورتحال میں کسی طور پر بھی ملک کے مفاد میں قرار نہیں دیا ۔سابق صدر آصف زرداری نے صدارتی نظام کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس قابل نہیں جو کوشش کر رہے ہیں ہم روکیں گے ۔ صورتحال دن بدن بدتر ہو رہی ہے پاکستان نئے تجربے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا اس امر کا تجربہ کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا واقعتاً پاکستان میں جاری پارلیمانی سسٹم ناکام ہو گیا ۔ صدارتی نظام کیلئے کون سرگرم ہیں ؟ کیا سیاسی جماعتوں اور پارلیمنٹ کے اندر بھی اس حوالے سے کوئی تحریک موجود ہے ۔ صدارتی نظام کی خواہش ظاہر کرنے والے کیا صدارتی نظام سے واقف بھی ہیں اور پیپلز پارٹی کی قیادت صدارتی نظام کو ٹارگٹ کیوں کر رہی ہے ۔ جہاں تک صدارتی سسٹم کے حوالے سے بحث کا تعلق ہے تو اس کی بڑی وجہ جو محسوس کی جا رہی ہے وہ ملک میں بڑھتے ہوئے معاشی سیاسی اور انتظامی مسائل ہیں اور عوامی مینڈیٹ کی حامل حکومت برسر اقتدار ہونے کے باوجود مسائل کے تدارک میں کامیاب نہیں ہو پا رہی اور اس کی ناکامی کا تصور ابھر رہا ہے اور مسائل کے حوالے سے اس کی اہلیت چیلنج ہوتی نظر آ رہی ہے اور ایک مرتبہ پھر میڈیا پر اس طرح کی بحث شروع ہو چکی ہے جس طرح کی بحث اور پراپیگنڈا ماضی میں خود سابق صدر زرداری اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی حکومتوں کے خلاف شروع تھا۔ جوں جوں حالات مشکل بن رہے ہیں اور خصوصاً مہنگائی ، بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہو رہا ہے توں توں حکومت بھی کنفیوژن کا شکار بنتی جا رہی ہے حکومت کی جانب سے صدارتی نظام کے حق میں بظاہر کوئی اعلان کا مطالبہ نہیں ہوا لیکن غیر محسوس انداز میں اس پر بات کی جا رہی ہے پختونخوا کے گورنر شاہ فرمان کا ایک انٹرویو میں کھلے طور پر یہ کہنا کہ جن ملکوں میں پارلیمانی نظام رہا وہاں صوبے نہیں تھے ۔ صدارتی نظام میں سیاسی بلیک میلنگ نہیں ہوتی اور صدر اپنی پسند سے کابینہ کا چناؤ کر کے خود کو جوابدہ بناتا ہے کیونکہ انہوں نے اپنا وزن صدارتی نظام کے حق میں ڈالا ان کے اس بیان کو جماعت کا ترجمان قرار دیا جا سکتا ہے ۔ فی الحال اس پر کوئی حتمی بات نہیں کی جا سکتی البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ حکومت خود بھی پارلیمانی سسٹم کے حوالے سے یکسو نہیں مگر وہ یہ نہیں چاہتے کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے تمام آپشنز پر غور و خوض کے بعد پارلیمانی ٹیم کو ہی پاکستان کیلئے بہترین ٹیم قرار دیا تھا اور اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ کسی ایک شخص کو با اختیار کرنے کے بجائے پارلیمنٹ کو با اختیار کیا جائے اور ویسے بھی پاکستان کی سیاسی تاریخ میں صدارتی نظام کے ڈانڈے غیر سیاسی قوتوں کی طرف جاتے ہیں اور صدارتی نظام کی بات کرتے ہوئے ہمیں ان نقصانات کو بھی دیکھنا چاہئے جو صدارتی نظام کے باعث ملک و قوم کو اٹھانا پڑے ۔ صدارتی نظام ایوب خان کی ڈکٹیٹر شپ کے تحت آیا ہو یا جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کے مارشل لاز کے نتیجہ میں فرد واحد کو تمام تر اختیارات کا مالک بنانے کے باعث بعض فیصلوں کے اثرات ملکی سلامتی، بقاء اور اتحاد و یکجہتی پر پڑے ۔ یہی وجہ تھی کہ آج تک افغانستان کے حوالے سے فیصلوں کے نتائج پورا ملک بھگت رہا ہے ۔ منتخب حکومت کے بر سر اقتدار آنے کے آٹھ ماہ بعد ہی حکومت کے ہاتھ پاؤں پھولے نظر آ رہے ہیں۔ بعض بیرونی طاقتیں وفاق پاکستان اور آئین پاکستان کو ٹارگٹ کئے ہوئے ہیں اور وہ یہ ضرور چاہیں گی کہ پاکستان کے اندر ہر اس چیز کو کمزور کیا جائے جو پاکستان کو اندرونی طور پر مضبوط بناتی ہے ۔ لہٰذا وزیراعظم عمران خان ان کی حکومت اور ذمہ داران کو چاہئے کہ وہ صدارتی نظام کی غیر ضروری بحث میں الجھنے کے بجائے اپنے مینڈیٹ کے مطابق پاکستان کو معاشی گرداب سے نکالتے ہوئے اقتصادی استحکام کی منزل کی جانب گامزن ہو اور ملک میں گڈ گورننس کے خواب کو حقیقت بنا کر بد انتظامی کو دفن کریں ۔صدارتی سسٹم کیلئے آئین میں ترمیم لازم ہے جس کو فی الحال خارج از امکان ہی قرار دیا جا سکتا ہے خدانخواستہ صدارتی سسٹم کیلئے بحث کی حوصلہ افزائی ہوئی تو یہ ملک میں ایک نئے انتشار اور خلفشار میں اترنے کے ساتھ آئین پاکستان اور وفاق پاکستان کیلئے خطرناک ہو سکتی ہے ۔