مسئلہ کشمیر:عالمی دبائو پر بھارت کو ہٹ دھرمی چھوڑنا پڑے گی

مسئلہ کشمیر:عالمی دبائو پر بھارت کو ہٹ دھرمی چھوڑنا پڑے گی

بھارتی میڈیا بھی اپنی انتہا پسند سیاسی قیادت کی طرح شدت پسندی کا شکار ہے امریکہ کا بی ایل اے کو دہشتگرد تنظیموں میں شامل کرنابھارت کو ہضم نہ ہوا

تجزیہ : سلمان غنی بھارت کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ثالث بنانے کی درخواست سے انکار دراصل ان کا مسئلہ پر اپنی روایتی ضد اور ہٹ دھرمی پر اصرار ہے ۔بھارت سمجھتا ہے کہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت اور اس حوالے سے (صفحہ5بقیہ نمبر4) کشمیریوں کی جدوجہد کو وہ طاقت اور قوت کے استعمال سے دبا پائے گا لیکن حقائق یہ ہیں کہ بھارت کی ریاستی دہشت گردی نے آزادی کی اس تحریک کو مضبوط کیا ہے اور آج عملاً مقبوضہ وادی میں ایک بغاوت کا سا سماں ہے لہٰذا جائزہ لینا ہوگا کہ امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے ثالثی کے کردار پر بھارت کے منتخب ایوانوں میں صف ماتم کیوں بچھی اور بھارتی میڈیا واویلا کرتا کیوں نظر آیا اور یہ کہ امریکہ کا ثالثی کردار مسترد کئے جانے کے بعد امریکہ کا نکتہ نظر مسئلہ کشمیر اور اس کے حل کے حوالے سے کیا ہوگا۔ جہاں تک بھارت میں ہونے والی چیخ و پکار اور واویلا کا تعلق ہے تو اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ صدر ٹرمپ سے ، امریکہ سے یہ توقع نہیں رکھتے تھے ۔ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ سمیت امریکہ میں بھی مسئلہ کشمیر اور کشمیر کے اندر ہونے والی انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا ادراک اور احساس پایا جاتا ہے ۔ ماضی میں صدر ٹرمپ اور دیگر امریکی حکومتوں نے اس حوالے سے کبھی کھل کر بات نہیں کی۔بھارت کو امریکہ اور خصوصاً صدر ٹرمپ پر یہ غصہ بھی ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے دورہ امریکہ سے پہلے امریکہ نے کالعدم بی ایل اے کو دہشت گرد تنظیموں کی صف میں شامل کر لیا اور یہ عمل بھارت کو ہضم نہیں ہوا ۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بلوچستان کے حوالے سے ایک واضح بیان دینے کے علاوہ اپنے مذموم عزائم ظاہر کرتے رہے ہیں اور بھارتی خفیہ ایجنسی را کا بلوچستان میں کام کرنے والا کلبھوشن نیٹ ورک بھی پکڑا جا چکا ہے ۔ جہاں تک بھارتی میڈیا کے کردار کا سوال ہے تو دنیا میں میڈیا اپنے کردار کو جمہوریت، جمہوری آزادیوں، انسانی حقوق ، قومی و عوامی مسائل کے حل کے ساتھ مشروط رکھتے ہوئے مثبت اور ذمہ داران کردار ادا کرتا ہے مگر بھارتی میڈیا اپنی انتہا پسندانہ قیادت اور سیاست کے رنگ میں رنگا ہوا انتہا پسندی کو فروغ دینے کا باعث بن رہا ہے اور اس وقت بھارتی میڈیا سیاسی لیڈر شپ سے بھی دو قدم آگے بڑھ کر امریکہ کی جانب سے ثالثی کردار کی پیشکش کو پیٹتا اور گھسیٹتا نظر آ رہا ہے ۔ بھارتی میڈیا کے اندر متحمل مزاج آوازیں نہ ہونے کے برابر ہیں جو بھارتی جمہوریت اور صحافت کیلئے لمحہ فکریہ ہے ۔ امریکی صدر کی پیشکش کے بعد بھارت کے طرز عمل سے یہ امر کھل کر سامنے آ گیا کہ بھارت کشمیر کے مسئلہ کے حل میں سنجیدہ نہیں اور طاقت کے استعمال کی سوچی سمجھی پالیسی پر گامزن ہے ۔ دوسری جانب پاکستان کے موقف کی روس اور چین کی جانب سے آنے والی تائید کے بعد اب امریکہ میں ہونے والی پیش رفت سے یہ امکان پیدا ہوگیا ہے کہ اب بھارت کو عالمی دباؤ قبول کرتے ہوئے ضد اور ہٹ دھرمی کی پالیسی پر نظر ثانی کرنا ہوگی اور سمجھنا ہوگا کہ کشمیر کا تنازع نہ زمین کا تنازع ہے نہ سرحد کی صف بندی کا معاملہ ہے اور نہ ہی پاکستان اور بھارت میں ایک تنازع ہے بلکہ اس کے تین فریق ہیں پاکستان بھارت اور کشمیری عوام۔ جنہیں آخری فیصلہ کرنا ہے اور فیصلہ میں تاخیر خود بھارت کیلئے بھی کسی بڑے عذاب سے کم نہیں کیونکہ جموں و کشمیر کے عوام قربانیوں کی تاریخ رقم کر کے یہ ظاہر کر چکے ہیں کہ وہ مر تو سکتے ہیں مگر بھارتی تسلط قبول کرنے کو تیار نہیں لہٰذا بھارت کو نوشتہ دیوار پڑھنا چاہئے ۔ تجزیہ سلمان غنی

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں