ہڑتال: 2دن میں ملکی معیشت کو 16ارب روپے کا دھچکا لگے گا
80فیصد بڑی مارکیٹیں بند رہیں، ایک دن میں ملکی خزانے کو 26 کروڑ کا نقصان حکومت ملک کی بحران زدہ معیشت کو مزید تنگ گلی میں دھکیل رہی ہے ، تاجر رہنما
لاہور(رپورٹ:ذوالفقارعلی مہتو) ملک کے تاجروں اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے درمیان سیلز ٹیکس نظام میں رجسٹریشن کا تنازع شدت پکڑ کر شٹر ڈاؤن ہڑتال تک پہنچ گیا ۔ دنیا نیوز نے شٹر ڈاؤن ہڑتال سے معیشت کو پہنچنے والے نقصانات اور ایف بی آر کی تاجروں سے ٹیکس وصولی کی توقعات کے تخمینہ جات پر مشتمل جو تحقیقات کی ہیں ان میں کئی اہم انکشافات ہوئے ہیں۔وزارت خزانہ کے حکام نے (صفحہ5بقیہ نمبر22) بتایا ہے کہ ملک میں تاجروں کی مجموعی تعداد 35 لاکھ ہے جبکہ سیلز ٹیکس نظام میں رجسٹرڈ تاجر 3 لاکھ 90 ہزار ہیں اور ایف بی آر کم از کم 30 لاکھ تاجروں کو دستاویزی معاشی نظام میں لانا چاہتا ہے ۔ ایف بی آر ذرائع نے تخمینہ لگایا ہے کہ 2 دن کی شٹر ڈاؤن ہڑتال سے ملکی معیشت کو 16 ارب روپے کا دھچکا لگے گا جبکہ دوسری طرف ایف بی آر کے سابق ممبر مصطفے ٰ اشرف نے اپنی تازہ ترین معلومات کی بنا پر کہا ہے کہ ملک کی مجموعی ٹیکس وصولیوں میں تاجروں کا حصہ 4 فیصد کے لگ بھگ ہے اس لحاظ سے انہوں نے 30 جون 2019ء کو ختم ہونیوالے مالی سال کے دوران کل 3900 ارب روپے کی ٹیکس وصولیوں میں لگ بھگ 116 ارب روپے کا حصہ ڈالا۔ان اعداد و شمار کی بنا پرکی گئی کیلکولیشن کے مطابق تاجروں کی منگل کو ہونیوالی ملک گیر شٹر ڈاؤن ہڑتال میں 80 فیصد بڑی مارکیٹیں بند رہیں جس سے اوسطاً ٹیکس وصولی کے لحاظ سے ملکی خزانے کو 26 کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے جبکہ آج (بدھ) کی شٹر ڈاؤن ہڑتال کو شامل کرکے 2 دن میں مجموعی نقصان 52 کروڑ روپے بنتا ہے ۔ پلاننگ کمیشن آف پاکستان کی ایک دستاویز اور وزارت توانائی کے ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ ملک بھر میں بجلی کے 31 لاکھ کمرشل کنکشن ہیں جن کے تحت بجلی کی ملک گیر کھپت میں تاجروں کا حصہ 8 فیصد ہے اور وہ روزانہ 2 کروڑ 10 لاکھ یونٹ اوسطاً خریدتے ہیں لیکن شٹر ڈاؤن ہڑتال میں حصہ لینے والے تاجروں کی 2 روزہ ہڑتال میں کھپت کا اندازہ 3 کروڑ 36 لاکھ 36 ہزار یونٹس ہوگا جبکہ اس وقت ملک میں رائج کمرشل ٹیرف کے مطابق فی یونٹ قیمت 18 روپے 64 پیسے ہے اس لحاظ سے بجلی کی سیل میں کمی سے بجلی کمپنیوں کو لگ بھگ 62 کروڑ 72 لاکھ روپے کا نقصان ہوگا۔شٹر داؤن ہڑتال کی کال دینے والے تاجروں کے مرکزی لیڈر محمد علی میاں نے دنیا نیوز سے گفتگو میں کہا ہے کہ جون 2019ء سے اب تک سیلز ٹیکس رجسٹریشن کے معاملے پر حکومتی نمائندوں سے مذاکرات کے 25 ادوار ہوچکے ہیں اور ایف بی آر چھوٹے تاجروں پر 025 فیصد سے 15 فیصد تک فکسڈ ٹیکس نافذ کرنا چاہتا ہے لیکن ساتھ ہی 50 ہزار روپے سے زائد خریداری کرنیوالے گاہک سے قومی شناختی کارڈ کا نمبر لینے کی شرط عائد کی گئی ہے جو تاجروں کے لئے اس بنا پر ناقابل قبول ہے کہ اس سے کاروباری اخراجات میں اضافہ ہوگا۔انہوں نے کہا کہ لاہور میں لگ بھگ 4 لاکھ تاجر ہیں جنہوں نے شٹر ڈاؤن ہڑتال میں حصہ لیا ہے جس سے حکومت کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ آئی ایم ایف کو خوش کرنے کی کوشش میں وہ ملک کی بحران زدہ معیشت کو مزید تنگ گلی میں دھکیل رہی ہے ۔ ایف بی آر حکام نے ایک سوال کے جواب میں دنیا نیوز کو بتایا کہ وزیر اعظم کے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے 30 لاکھ تاجروں کو رجسٹر کرکے ٹیکس نیٹ میں شامل کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے لیکن اس سلسلے میں ٹیکس وصولی کا کوئی ہدف نہیں رکھا گیا بلکہ اصل مقصد معیشت کو دستاویزی بنانا ہے ۔