ہسپتال واقعہ خطرے کی گھنٹی ،کوئی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں
آواز نہ سنی تو انارکی سے دو چار ہونگے ،روایتی بیانات سے حکومتی رٹ قائم نہ ہو گی انتظامی مشینری کسی کے ہاتھوں محصور ہو جائے تو سمجھ لیں بات ہاتھ سے نکلنے کو ہے
تجزیہ: سلمان غنی کچھ لوگ لاہور میں دل کے ہسپتال کے اندر اور باہر ڈاکٹرز اور وکلا کے درمیان ہونے والی لڑائی کو کالے اور سفید کوٹ کی لڑائی قرار دیتے نظر آ رہے ہیں۔ معاشرے کے دو اہم طبقات سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان لڑائی کا یہ عمل دراصل خطرے کی گھنٹی ہے جسے اب بھی نہ سنا گیا اور اسے سن کر اس کی روشنی میں اقدامات نہ ہوئے اور حکومتی رٹ ممکن نہ بن سکی تو پھر وطن عزیز کو انارکی سے دو چار ہونے سے نہیں بچایا جا سکے گا۔ ملکی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو پاکستان میں قانون کی عملداری ہمیشہ سے بڑے مسئلہ کے طور پر در پیش رہی ہے اور ہر حکومت آئین اور قانون کی بالادستی کا عزم ظاہر کرتی تو نظر آئی ہے مگر عملاً ان کا کردار ان پر کمپرومائز کا ہوتا ہے ۔ قانون پر اثر انداز ہونے والے کے خلاف قانون کا شکنجہ اس کی حیثیت، اہمیت کو پیش نظر رکھ کر کسا جاتا ہے ۔ جس کی وجہ سے معاشرے میں قانون کی سالمیت قائم نہ ہو سکی۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستان کے حوالے سے دو پاکستان کا تاثر ابھرنے لگا۔ کہا گیا کہ امیروں کا پاکستان اور ہے اور غریبوں کا پاکستان اور۔ موجودہ حکومت خصوصاً وزیراعظم عمران خان نے دو نہیں ایک پاکستان کا نعرہ لگایا جو لوگوں کے دلوں کو بہت بھایا اور لوگوں نے ان کے نعروں، دعوؤں پر اعتبار کرتے ہوئے انہیں اپنی تائید و حمایت سونپی۔ مگر ان کی جانب سے ‘‘یوٹرن’’ کے رجحان پر کاربند ہونے کے عمل کے باعث خود ان کی اور حکومت کی ساکھ متاثر ہونے لگی۔ جن لوگوں کے خلاف وہ ملک میں سیاسی تبدیلی کے دعویدار تھے ، بوجوہ انہوں نے انہیں قبول کرنا شروع کیا اور آج ان کی حکومت میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو ان کے نظریہ اور بیانیہ کے ساتھ نہیں تھے نہ ہی انہوں نے پی ٹی آئی کی جدوجہد میں عملاً حصہ لیا۔ دل کے ہسپتال پر وکلا کا حملہ اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی صورتحال یہ ظاہر کرتی ہے کہ جب معاشرے میں یہ سوچ عام ہو جائے کہ یہاں اخلاقیات، قانون، انصاف اور عدل نام کی کوئی چیز نہیں اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس والی بات ہے تو پھر معاشرے کے مختلف افراد اور طبقات اپنارعب و دبدبہ قائم رکھنے کیلئے قانون پر اثر انداز ہوتے نظر آتے ہیں ، افسوسناک امر یہی ہے کہ آج ہمارا معاشرہ اس کی عملی تصویر بنتا نظر آ رہا ہے ۔ ہر واقعہ اور سانحہ کے بعد حکمران یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ قانون پر اثر انداز ہونے والے قانون سے بچ نہیں پائیں گے اور ملزموں اور مجرموں کو ان کے انجام پر پہنچا کر دم لیں گے ۔ لیکن وقت گزرنے کے بعد سب کچھ ویسے کا ویسا ہو جاتا ہے نہ تو ملزم اپنے انجام پر پہنچتے ہیں اور نہ ہی قانون حرکت میں نظر آتا ہے ۔ جہاں تک قانون کی عملداری کا سوال ہے تو حکومتیں اپنی سیاسی مصلحتوں کو بالاتر رکھتے ہوئے نہ تو ریاست کے مفادات دیکھتی ہیں اور نہ ہی خود انہیں اپنی رٹ کی کوئی پرواہ ہوتی ہے ۔ پی آئی سی کا واقعہ خطرے کی ایک گھنٹی ہے ، یہ واقعہ دور دراز کسی ضلع یا کسی سرحدی علاقہ میں نہیں بلکہ پنجاب کی سیاست کے دل اور لاہور کے وسط میں دن دیہاڑے رونما ہوا۔ گھنٹوں حکومتی رٹ ہوا میں اڑتی نظر آئی مگر کوئی اس صورتحال پر قابو پانے کیلئے سرگرم نظر نہ آیا ، کہا یہ جا رہا ہے کہ اگر انتظامی مشینری کسی طبقہ کے ہاتھوں اس حد تک مجبور ومحصور ہو جائے تو سمجھ لیا جائے کہ بات ہاتھ سے نکلنے کو ہے ،اچھا ہوا کہ پولیس کی بجائے پی اے سی اور دیگر اہم مقامات پر رینجرز تعینات کر دیئے گئے کیا یہ پولیس کی قیادت کیلئے سوچنے کا مقام نہیں کہ ان کی کارکردگی پر عدم اطمینان کیوں ہوا، انہوں نے اپنی ذمہ داری پوری کی ہوتی تو رینجرز کی تعیناتی کا کوئی جواز نہ تھا۔