اتحادی اور اپنے ہی ارکان اپوزیشن بن گئے ،حکومت پریشان
کہیں گروپ بن رہے ،کہیں تقریریں ہورہیں ، وفاقی کابینہ کے اندرٹوٹ پھوٹ چیف سیکرٹری ، آئی جی پنجاب کو اختیارملنے پر ق لیگ،گورنر،بزدار بھی ناراض ایم کیو ایم ،ق لیگ اپنا اپنا بھائو وصول کرنا چاہتی ہیں، دنیا کامران خان کے ساتھ
لاہور(دنیا نیوز)میزبان ’’دنیا کامران خان کے ساتھ‘‘ کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کو پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے ساتھ مسائل اس شدت کے ساتھ نظر نہیں آرہے جو چند ہفتے پہلے دکھائی دے رہے تھے ،اپوزیشن کی گرج چمک کم ہوچکی ہے اس کی مختلف وجوہات ہیں جو آپ سب جانتے ہیں ۔تحریک انصاف کی اپوزیشن اب اندر سے ہے باہر نہیں ہے یہ اپوزیشن پیپلز پارٹی یا ن لیگ کی نہیں ہے اصل اپوزیشن "دیکھو اور انتظار کرو"کی پالیسی پر گامزن ہے ۔پی ٹی آئی کے اندر سے نظام حکمرانی خاص طور پر پنجاب کی صورتحال کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں ۔کہیں گروپ بن رہے ہیں ۔کہیں تقریریں ہورہی ہیں اور خود وفاقی کابینہ کے اندرٹوٹ پھوٹ کے معاملات دیکھے جا رہے ہیں ۔پی ٹی آئی کو اگر کسی اور اپوزیشن کا سامنا ہے تو وہ اس کے اتحادی ہیں ۔ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق اپنا اپنا بھائو وصول کرنا چاہتی ہیں اور اس وقت پی ٹی آئی شدید دبائو میں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں اگر 11، 11ارکان تحریک انصاف کا ساتھ چھوڑ دیں تو ایک جھٹکے میں پی ٹی آئی کی اکثریت اقلیت میں تبدیل ہو جائے گی اسی لئے گھبراہٹ نمایاں ہے ۔یہ گھبراہٹ اس گھبراہٹ سے زیادہ ہے جب اصل حزب اختلاف بھرپور سرگرم نظر آتی ہے ۔وفاق میں ایم کیو ایم کی 7اور ق لیگ کی 5 نشستوں کا کلیدی کردار ہے ۔پنجاب میں مسلم لیگ ق اور راہ حق پارٹی کا ایک ایم پی اے پی ٹی آئی کو سرپرائز دے سکتا ہے ۔یہ لوگ مٹھی بھر ہیں مگر حکومت کو پلٹ سکتے ہیں یہ معاملات سمیٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے اس کے ساتھ عمران خان کی پالیسی ہے کہ پنجاب میں ایسی گورننس دیں کہ لوگ شہباز شریف کے طرز حکمرانی کو بھول جائیں اس کیلئے انہوں نے جو طریق کار اپنایا ہے وہ چاہتے ہیں سیاستدانوں کے ہاتھ سے بات نکلے تاکہ سیاسی ترجیحات پر تقرر و تبادلے اور گورننس کے معاملات حل نہ ہوں بلکہ میرٹ کی بنیاد پر ہوں اس لئے عمران خان نے پنجاب کا اختیار وہاں کے نئے چیف سیکرٹری اور آئی جی کو دے دیا ہے اس سے نہ صرف ق لیگ ناراض ہے ۔پی ٹی آئی بھی ناراض ہو گئی ہے اور بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ گورنر پنجاب چودھری سرورجنہوں نے اس ماحول کا کل اس پروگرام میں بڑا گلا کیا ۔وہ بھی ان سے ناراض ہیں بلکہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار بھی اس سے ناراض ہیں ،عمران خان کے لئے بہت مشکل صورتحال ہے یہ بڑی مزیدار کیفیت ہے کہ اپوزیشن مزے لے رہی ہے یا سائیڈ لائن سے تماشہ دیکھ رہی ہے مگر حکومت کا سیاسی سر درد کم نہیں ہورہاتا ہم ابھی بھی صورتحال قابو سے باہر نہیں ہے ۔اس حوالے سے مسلم لیگ ن کے رہنما مصدق ملک نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا میزبان کا تجزیہ کسی حد تک ٹھیک ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ اپوزیشن اپنا کام نہیں کر رہی ،خواجہ آصف ہر معاملے میں اسمبلی میں اپنا نقطہ نظر پیش کر رہے ہیں ،بہت سی آوازیں اس لئے نہیں آرہی ہیں کہ شاہد خاقان عباسی ،احسن اقبال،حمزہ شہباز ،سعد رفیق ،سلمان رفیق اور دیگر رہنما جیل میں ہیں ۔ انہوں نے کہا شہباز شریف لندن سے جو کرسکتے ہیں وہ کر رہے ہیں نواز شریف کی تیمارداری کے ساتھ ہر مسئلہ پر ان کے مسلسل بیانات بھی آرہے ہیں ،مریم نواز والدہ کی جدائی کے سانحہ کی وجہ سے غمگین ہیں ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی سیاسی جماعت نے آرمی چیف کی توسیع کا معاملہ متنازعہ نہیں بنایالیکن حکومت کا ایسا رویہ نہیں جس سے بات کو مفاہمت سے آگے بڑھایا جائے ،الیکشن کمیشن کافی دیر سے غیر فعال تھا اس پر بڑی مشکل سے اتفاق رائے ہوا ہے یہ اچھی بات نہیں لیکن اپوزیشن کو ہر معاملے میں اتفاق نہیں کرنا چاہئے یہ اپوزیشن کا رول نہیں ہے اپوزیشن کا کا م ہے کہ وہ عوامی مفاد میں جنگ کرے اور آرمی چیف کے بل کے سوا اپوزیشن ہر معاملے میں اپنا رول ادا کر رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی میں نیا فارورڈ گروپ کیوں بنا ہے ۔پی ٹی آئی کے حامی ایم کیو ایم ،ق لیگ روز بیانات کیوں دے رہے ہیں، مینگل کیوں ناراض ہیں میرا نکتہ یہ ہے کہ عوام کے مسائل آٹے کی شکل میں ہوں یا غربت اور مہنگائی کی شکل میں ہوں ان میں دوہزار گنا اضافہ ہوچکا ہے اگر حکومت نے کارکردگی ٹھیک نہ کی تو اپنے بوجھ تلے دب جائے گی۔