امدادی پیکیج کی تقسیم کورونا بحران کا مستقل حل نہیں

 امدادی پیکیج کی تقسیم کورونا بحران کا مستقل حل نہیں

عوام کو بچانے کیلئے روزمرہ زندگی اور لاک ڈاؤن میں توازن اختیارکرنا لازم بحران میں حکومت اپوزیشن سے ملکر لائحہ عمل بناتی تو قومی یکجہتی کا اظہار ہوتا

کورونا وائرس کی ہولناک تباہ کاریوں کے بعد اب یہ بات کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ کورونا اور بھوک دونوں کا مقابلہ ہے اور عوام الناس کو مرض اور بھوک دونوں سے بچانا ہے ۔ ایسا ممکن نہیں کہ ہم عوام کو بھوک سے بچاتے بچاتے کورونا کی نذر کر دیں۔ اس کیلئے روزمرہ زندگی اور لاک ڈاؤن میں توازن اختیار کرنا لازم ہو چکا ہے ،اس وقت کروڑوں افراد وائرس کے خوف سے گھروں میں بند ہو چکے ہیں، 25 فیصد سے زائد افراد پہلے ہی خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جس سے اندازہ لگ سکتا ہے کہ ملک کے غریب اور سفید پوش طبقے کی اصل حالت کیا ہوگی۔ ایک اندازے کے مطابق اس وائرس کے بحران کے نتیجہ میں ایک کروڑ افراد بے روزگار ہو جائینگے ۔صورتحال بتا رہی ہے کورونا سے نمٹ بھی لیا جائے تو ایک طویل جنگ ہے جو ہمارے سماج اور حکومتوں کو غربت، افلاس اور پسماندگی سے لڑنا ہوگی ،جس کے اثرات ہماری قومی ترقی کے اہداف پربے پناہ دباؤ کا باعث بنیں گے ۔پاکستان میں دیکھا گیاایک جانب صوبائی حکومتیں لاک ڈاؤن پر زور دے رہی تھیں تو دوسری جانب وزیراعظم عمران خان لاک ڈاؤن پر اپنے تحفظات ظاہر کررہے تھے ، اب صورتحال یہ ہے کہ متاثرین کورونا کی تعداد میں اضافہ بھی ہوتا جا رہا ہے اور اس کا سدباب بظاہر ممکن نظر نہیں آ رہا۔ وزیراعظم اور ان کی حکومت اپریل کے آخر تک متاثرین کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ کے خدشات ظاہر کر رہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ عوام میں خوف و ہراس کے خاتمہ کیلئے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ متاثرین کی تعداد میں اضافہ کے باوجود یہاں ہلاکتوں کی تعداد مغرب خصوصاً امریکہ اور یورپ کے مقابلہ میں کم ہے ۔وزیراعظم کا قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد پریس بریفنگ میں زور اس امدادی پیکیج پر تھا جس کے تحت متاثرین کو ادائیگی ہونا تھی۔ انہوں نے کہا آج سے احساس پروگرام کے تحت ایک کروڑ 20 لاکھ افراد کو پیسوں کی فراہمی شروع ہوگی ۔حکومت کی جانب سے امدادی پیکیج کی تقسیم اگر شفاف انداز میں مکمل ہوئی تو یقیناً اس سے کسی حد تک متاثرین مطمئن ہوں گے لیکن یہ کوئی مستقل حل نہیں ہوگا۔ ایک طرف کورونا کا خوف اور دوسری جانب بھوک نے پاؤں پھیلانے شروع کئے تو ہنگامی صورتحال طاری ہو گی۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنی بریفنگ میں زرعی شعبے کو مکمل طور پر کام کرنے اور 14 اپریل سے تعمیراتی سیکٹر کے کام کرنے کا اعلان بھی کیا اس سے کسی حد تک معاشی سرگرمیوں کا آغاز ہوگا کیونکہ لوگوں کیلئے روزگار ہی بڑا مسئلہ نہیں بلکہ ان کیلئے بے کار بیٹھنا اس سے بھی بڑا مسئلہ ہے ، اس مصروفیت سے یقیناًمعاشی سرگرمیاں بھی تیز ہوں گی اور لوگ اپنے اپنے شعبہ جات میں فعال کردار ادا کریں گے ۔ محنت کشوں اور دہاڑی داروں کی مصروفیت بھی بڑھ جائے گی ، حقیقت بھی یہی ہے کہ حکومت خواہ کتنا بھی ریلیف دے لے اس سے متاثرہ عوام کو مطمئن نہیں کیا جا سکتا۔ جہاں تک ٹائیگر فورس کے کردار کا سوال ہے تو بظاہر حکومت ٹائیگر فورس کے فعال کردار کے حوالے سے بضد ہے کہ ان کے ذریعے بے روزگار اور مستحق افراد تک امداد پہنچ پائے گی لیکن اس میں اچھی بات یہ ہے کہ راشن کی فراہمی اور خصوصاً امدادی پیکیج کے عمل میں براہ راست ٹائیگر فورس کا کوئی کردار نہیں۔ اچھا ہوتا کورونا بحران سے نمٹنے کیلئے وزیراعظم اور ان کی حکومت اپوزیشن اور دیگر تنظیموں سے مل کر قومی لائحہ عمل اختیار کرتی ، اس سے قومی یکجہتی کا اظہار ہوتا لیکن حکومت کی سولو پرواز نے خود کو اس مشکل صورتحال میں بھی قابل مواخذہ بنائے رکھا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں